شریعت اسلامیہ میں جتنی تاکید کے ساتھ انسان کے قتل کی حرمت کو بیان کیا گیا ہے، عصر حاضر میں اس کی اتنی ہی بے حرمتی ہور ہی ہے، چناں چہ معمولی معمولی باتوں پر قتل کے واقعات روزانہ اخباروں کی سرخیاں بنتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان دنوں بعض مسلمان بھی اس جرم کا ارتکاب کر جاتے ہیں، حالاں کہ قرآن وحدیث میں کسی انسان کو ناحق قتل کرنے پر ایسی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں جو کسی اور جرم پر بیان نہیں ہوئیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی انسان کو ناحق قتل کرنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے، بلکہ بعض علماء نے سورة النساء آیت نمبر93 کی روشنی میں فرمایا ہے کہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا ملت اسلامیہ سے ہی نکل جاتا ہے۔ ﴿وَمَن یَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَاباً عَظِیْما﴾ اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور الله اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور الله نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کرر کھا ہے۔اگرچہ جمہور علماء نے قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر کیا ہے کہ کسی کو ناحق قتل کرنے والا بہت بڑے گناہ کا مرتکب تو ضرور ہے، مگر وہ اس جرم کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا ہے اور ایک طویل عرصہ تک جہنم میں درد ناک عذاب کی سزا پا کر آخر کار وہ جہنم سے نکل جائے گا، کیوں کہ مذکورہ آیت میں ﴿خَالِداً فِیْہَا﴾ سے مراد ایک طویل مدت ہے۔ نیز قرآن وحدیث کی روشنی میں علمائے امت کا اتفاق ہے کہ کسی کو ناحق قتل کرنے والے کی آخرت میں بظاہر معافی نہیں ہے او راسے اپنے جرم کی سزا آخرت میں ضرور ملے گی، اگرچہ مقتول کے ورثاء قاتل سے قصاص نہ لیں کہ دیت وصول کر لیں یا اسے معاف کر دیں۔

قرآن کریم میں د وسری جگہ الله تعالیٰ نے ایک شخص کے قتل کو تمام انسانوں کا قتل قرار دیا ہے :﴿مِنْ أَجْلِ ذَلِکَ کَتَبْنَا عَلَی بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ أَنَّہُ مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً﴾․(سورہ المائدہ، آیت:32)

اسی وجہ سے بنی اسرائیل کو یہ فرمان لکھ دیاتھا کہ جو کوئی کسی کو قتل کرے جب کہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلے لینے کے لیے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا او رجو شخص کسی کی جان بچالے تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔ غرض کہ الله تعالیٰ نے ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا، کیوں کہ کوئی شخص قتل ناحق کا ارتکاب اسی وقت کرتا ہے جب اس کے دل سے انسان کی حرمت کا حساس مٹ جائے، نیز اگر کسی کو ناحق قتل کرنے کا چلن عام ہو جائے تو تمام انسان غیر محفوظ ہو جائیں گے، لہٰذا قتل ناحق کا ارتکاب، چاہے کسی کے خلاف کیا گیا ہو ، تمام انسانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ جرم ہم سب کے خلاف کیا گیا ہے۔

قتل کی حرمت کے متعلق فرمان الہیٰ ہے﴿وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ إِلاَّ بِالحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْلِ إِنَّہُ کَانَ مَنْصُوراً﴾․(سورة الاسراء، آیت:33) جس جان کو الله نے حرمت عطا کی ہے اسے قتل نہ کرو مگر، یہ کہ تمہیں ( شرعاً) اس کا حق پہنچتا ہو اور جو شخص مظلومانہ طور پر قتل ہو جائے تو ہم نے اس کے ولی کو (قصاص کا) اختیار دیا ہے۔ چناں چہ اس پر لازم ہے کہ وہ قتل کرنے میں حد سے تجاوز نہ کرے۔ یقینا وہ اس لائق ہے کہ اس کی مدد کی جائے۔

اسی طرح سورة الفرقان( آیت:69-68 ) میں الله تعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللَّہِ إِلَہاً آخَرَ وَلَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللَّہُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُونَ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ یَلْقَ أَثَاماً ، یُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَیَخْلُدْ فِیْہِ مُہَاناً﴾اور جو الله کے ساتھ کسی بھی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے او رجس جان کو الله نے حرمت بخشی ہے اسے ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص بھی یہ کام کرے گا اسے اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔قیامت کے دن اس کا عذاب بڑھا بڑھا کر دوگنا کر دیا جائے گا۔ اور وہ ذلیل ہو کر اس عذاب میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔

آخر ی تینوں آیات میں صرف مسلمانوں کے قتل کی ممانعت نہیں ہے، بلکہ اُس شخص کے قتل کی ممانعت ہے جس کی جان کو الله تعالیٰ نے حرمت بخشی ہے۔

Categories: Uncategorized

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *