دوسری شادی کرنے کے لیئے ۔ قانونی شرط یہ ہے کہ ۔ آپ اپنے پہلی بیوی سے دوسری شادی کرنے سے پہلے ۔ اُس سے ۔ اجازت لیں گے پھر دوسری شادی کر سکتے ہیں ۔ مسلم فیملی لاز 1961 ۔ آرڈینینس کے مطابق پہلی بیوی سے اجازت کے بغیر شادی کرنے والے شخص کو ” دولہا ” کو شوہر کو سزا اور جُرمانہ دونوں ہوگا ۔

اسلام آباد کی اعلیٰ عدالت نے قرار دی ہے کہ دوسری شادی کے لیئے شوہر پر بیوی کی اجازت کے ساتھ ساتھ علاقے کی مصالحتی کونسل سے اجازت لینا بھی لازمی ہوگا ۔

اسلام اباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب اطہر من للّہ نے 12 صفحات پر مشتمل ایک فیصلے میں کہا ہے کہ بیوی کی اجازت کے باوجود اگر مصالحتی کونسل اجازت دینے سے انکار کرد ے ۔ تو دوسری شادی کرنے پر سزا ہوگی ۔

مصالحتی کونسل کی زمہ داریاں

خانگی و دیگر ڈاکومینٹری مسائل کے حل کے لیئے ۔ پاکستان کے ہر محلّے میں ۔ قصبوں میں ۔ ہر علاقے میں ۔ یونین کونسلز کے نمائندوں پر مشتمل مصالحتی کونسل قائم کی گئی ہے ۔ تاکہ علاقے کے مکین اپنے مسلہ مسائل کو حل کرنے کے لیئے کونسل سے رجوع کر سکیں ۔ یہ کونسل شہریوں کے برتھ سرٹیفیکٹس اور دیتھ سرٹیفکٹس بنّے بنانے کے مسائل اور نکاح نامہ وغیرة کی رجسٹریشن اور طلاق نامہ وغیرة کی انٹری اور سرٹیفیکٹس کو یونین کونسل میں رجسٹرڈ کرنے کے لیئے اور دیگر معاملات کو دیکھتی ہے ۔ اور مُحلّے میں پیدا ہونے والے چھوٹے موٹے مسلے مسائل اور آپس کے اختلاف کو بھی نپٹاتے رہتی ہیں ۔

U / S 6 of Ords 1961

فیملی لاز 1961 آرڈینینس کے تحت ۔ مصالحتی کونسل کو قانونی حیثیت حاصل ہے ۔ جسکے مطابق دوسری شادی کرنے والوں کے لیئے یہ لازمی ہے کہ وة دوسری شادی کرنے سے پہلے اپنے علاقے سے مصالحتی کونسل سے حاصل کر ے N O C اجازت نامہ حاصل کرے ۔ یعنی ۔

اگر بیوی اجازت دےدے اور مصالحتی کونسل نے اجازت نہ دیا ہو تو بھی مرد دوسری شادی نہیں کرسکتا ہے ۔ یہ قابل سزا جُرم ہوگا ۔

پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی پر پابندی کا قانون چیلنج کردیا گیا

ہایکورٹ میں دائر درخواست میں وزارت قانون ۔ اور سیکرٹری قانون کو فریق بنایا گیا ہے ۔ قید اور جُرمانے کی سزا پانے والے مجرم نے قانون میں ترمیم کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا ہے ۔ اور آئینی درخواست دائیر کردی ہے ۔

آئینی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مسلم فیملی لاء ارڈینینس 1961 ء اور رولز میں بغیر اختیار کے ترمیم کی گئی ہے ۔ یاد رہے کہ مسلم فیملی لاز ارڈینینس 1961 کا اطلاق پور ے پاکستان میں ہوتا ہے ۔ پہلی بیوی سے اجازت کے قانون کا گزٹ نوٹی فیکیشن ۔ جاری نہیں کیا گیا ۔ یہ آئینی ترمیم کی آرٹیکلز نمبرز : 70 ۔ 137 ۔ 141 ۔ 142 اور 143 کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔

یہ پلی لیا گیا ہے درخواست میں ۔ دیکھیں کیا فیصلہ ہوتا ہے ۔ عدالت سے ۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس شخص کو اپنی بیوی کی کمپیلینٹ پر عدالت سے سزا با مشقت ہوجائے اور ساتھ ہی جُرمانا بھی ۔ تو کیا ان کا گھر باقی رہے گا ۔

کیا معاشر ے میں طلاق کی شرح میں اضافہ نہیں ہوگا ؟ کیا ان کے بچوں کی زندگی دو حصوں میں تقسیم نہیں ہوجائیگی ؟ اگر پہلی بیوی غریب اور کمزور اور نخواندة ہے ۔ تو اس کی معاشی زندگی کا کیا حال ہوگا ۔ ؟ ان کی سماجی اور سقافتی زندگی کا کیا حال ہو گا ؟ گزر بسر کھانا پاینا اور رہائش کا کیا ہوگا ؟ کیا گورنمنٹ ان کی دیکھ بھال اور بہتر مستقبل کی ضمانت لیگی ؟ سماج میں ان کا کیا قدر اور مقام ہوگا ؟

اگر یورپ کی نقل کرنی ہے توان کی طرح پہلے اہنے ملک کو ویلفیر اسٹیٹ بنانے کی کوشش کریں

Categories: Law

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *