جب اس وبائی مرض نے پاکستان میں اپنے اثرات دکھانے شروع کیے تو وزیرِاعظم پاکستان عمران خان نے عوام کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا۔ خیال یہ تھا کہ وہ قوم کو مستقبل سے متعلق کوئی لائحہ عمل دیں گے مگر انہوں نے ماہرِ طبیب کی طرح قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ کورونا وائرس اصل میں ہے کیا اور یہ کیسے ہوتا ہے۔

انہوں نے اس خطاب میں کچھ اور باتیں بھی کیں جو کچھ اس طرح ہیں۔

  • وزیرِاعظم نے یہ بات تسلیم کی کہ سال 2019ء پاکستان کی معیشت کے لیے مشکل سال تھا، جس میں معاشی سست روی اور بے روز گاری میں اضافہ ہوا ہے۔
  • وزیرِاعظم نے ملک میں لاک ڈاون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم ایک طرف سے کورونا وائرس سے بچائیں گے اور دوسری طرف لوگ بھوک سے مرجائیں گے، ہمارے غریب لوگوں کا کیا بنے گا، لہٰذا ہمیں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے ہوں گے’۔
  • وزیرِاعظم نے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات پر نظر رکھنے کے لیے کمیٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران آٹے اور چینی کی مہنگی قیمتوں کے باعث تنقید کا نشانہ بننے والے وزیرِاعظم عمران خان نے اس کمیٹی کو مہنگائی خصوصاً اشیائے خورو نوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا ٹاسک دیا ہے اور ساتھ ہی ذخیرہ اندوزوں کو بھی وارننگ دی ہے کہ اگر مصنوعی قلت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو ریاست سخت طریقے سے نمٹے گی۔

ا موڈیز اقتصادی اور کاروباری سرگرمیوں اور پاکستانی بینکوں کی مالی کارکردگی، خاص طور پر ان کے اثاثوں کے معیار اور منافع پر کورونا وائرس وبائی امراض کے اثرات کا بھی جائزہ لے گی۔

اس تنزلی کی کا دوسرا عنصر حکومت کی ضرورت کی صورت میں بینکوں کو مدد فراہم کرنے کی صلاحیت کمزور ہونا ہے۔

Categories: coronavirus

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *