صاحبو کورونا لاکھ مہلک سہی مگر بلا خوف تردید عرض ہے کہ کئی لوگ ایسے بھی ییں کہ جو کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہیں… بلکہ ان میں چند تو ایسے بھی ہیں کہ ان کے ممکنہ لواحقین ان کے بدلے کورونا وائرس لینے تک بھی تیار ہوچکے ہیں۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو گھر میں کچن کے عین سامنے کمرے یا لاؤنج میں دھرے نت نئی فرمائشیں کرتے نہیں تھک رہے – بس پڑے پڑے کھاتے ہیں اور وہیں ذرا دیر کو لڑھک پڑھک جاتے ہیں

 اس لاک ڈاؤن کے زمانے میں ایک تاریخی حوالہ بھی ذہن میں گونجنے لگا ہیاور وہ یہ کہ بابائے قوم نے قوم کو تلقین کی تھی ‘کام کام اور صرف کام’ لیکن چونکہ اس تلقین میں کام کی نوعیت واضح نہیں تھی اور لغت و قوائد کی رو سے کوئی بھی فعل ایک کام ہے اس لیئے ان دنوں ہماری قوم دن رات آرام کا کام کرنے میں مصروف ہے۔۔ ہر گھر کا ہر کمرہ بلکہ لاؤنج اور برآمدے بھی آرام باغ بنے ہوئے ہیں

 اب ہر گھر میں زیادہ تر وقت لڑکے بالے اور بالیاں موبائل میں ڈوبے پڑے رہتے ہیں۔۔۔ اکثر کے والدین انکے پاس جاکے خوب ڈانٹ پلاتے ہیں جس سے عاجز آکے وہ کوئی کتاب تو اٹھا لیتے ہیں لیکن جلد ہی پھر سو جانے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں اور یوں والدین کو بھی راحت کی کچھ بے خطر گھڑیاں پھر میسر آجاتی ہیں

ہمارے ملک میں راہ خدامیں دینے والوں کی کمی نہیں۔ ذرا سوچئے جو کام اکیلے لوگ کر سکتے ہیں اور اتنی عمدگی سے کر سکتے ہیں تو اگر ان میں حکومت اور انتظامیہ کی سرپرستی شامل ہوجائے تو کامیابی کا تناسب کتنا بڑھ جائےگا۔ یہ جان لیجیے کہ یہ کام اتنا مشکل نہیں جتنا بظاہر نظر آتاہے۔ اس طریقۂ تقسیم پر عمل کرنے سے اوّل تو انفرادی کام میں درپیش مشکلات ختم نہ سہی بہت حد تک کم ہوجائیں گی اور دوئم ہر کسی کو انصاف کے ساتھ بقدر ضرورت کچھ نہ کچھ مل جائے گا اور نا انصافی کرکے دوسروں کا حق مارنے والوں کی حوصلہ شکنی بھی ہوگی۔ 

یوں ساتھ مل کر کام کرنے سے ہم میں ایک قومیت کا جذبہ بھی بدرجہ اتم پروان چڑھ سکے گا۔ یقیناً ہم یہ عذر کبھی بھی نہیں پیش کر سکتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد کو غیر معیّنہ مدت تک کیسے کھلایا جائے گا۔ ایک زرعی ملک ہونے کے ناتے ہمارے پاس غذائی اجناس کی کوئی کمی نہیں اور پھر ہم کون سا مرغن کھانوں کی بات کر رہے ہیں۔ بس صرف روٹی چاول ہی تو کھائے گا غریب۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ذاتی، لسانی اور سیاسی مفادات سے بالا تر ہوکر اپنی قوم اور اس میں ابتلا کے شکار افراد کے بارے میں سوچا جائے۔ خودغرضی اور وقتی فوائد سے صرفِ نظر کر کے انسانیت پر توجہ دی جائے اور ہر شخص اپنی اپنی جگہ یہ عزم کر لے کہ اس موقع پر صرف انصاف، بےغرضی اور بے لوث جذبے کی ساتھ حق داروں اور ضرورت مندوں ہی کی مدد کی جائے گی۔ اگر آج ہم اس امتحان میں سرخرو نہ ہوسکے تو پھر کبھی نہ ہوں گے۔ تاریخ نے ہمیں ایک ایسا موقع دیا ہے جس میں ہم خود کو ایک قوم ثابت کر سکیں۔

Categories: coronavirus

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *