اکستان کے علاوہ کئی ممالک نے اپنی پابندیوں کی سختی میں کمی کی ہے۔ اس فہرست میں سپین، آسٹریا، اٹلی، جرمنی، پولینڈ جیسے یورپی ممالک کے علاوہ امریکہ، چین، بھارت اور ایران شامل ہیں۔ ان میں سے چند ممالک میں کیسز کی تعداد میں کمی آئی ہے اور وہ کاروباری سرگرمیاں بحال کرنے کے بعد صورتحال کا جائزہ لینا چاہتے ہيں جبکہ دیگر ممالک اندرون ملک سفر پر عائد پابندیوں کا خاتمہ کرکے احتیاطی تدابیر اپنانا چاہتے ہيں۔ اس وقت یہ بات واضح نہيں ہوسکی ہے کہ پابندیاں کم کرنے سے عوام کرونا وائرس سے محفوظ رہ سکے گی یا نہيں۔ برطانیہ، فرانس، پرتگال، کینیڈا، آسٹریلیا، برازیل اور سعودی عرب جیسے ممالک نے لاک ڈاؤن میں کمی نہيں کی ہے، بلکہ مزید توسیع کا اعلان کیا ہے۔

پاکستانی شہروں کے کئی علاقوں میں ناکہ بندی: پاکستان کے دو سب سے بڑے شہروں میں Covid-19 کے انفیکشنز میں اچانک اضافے کے باعث ناکہ بندی کی گئی ہے۔ لاہور کے 10 علاقہ جات کو مکمل یا جزوی طور پر لاک ڈاؤن کیا گیا۔ کراچی کے 11 یونین کونسلز کو مکمل طور پر لاک ڈاؤن کرنے کا اعلان کیا گیا، لیکن بعد میں یونین کونسلز کے بجائے متاثرہ سڑکوں کو لاک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

لاک ڈاؤن کے بعد زندگی کیسی ہوگی؟

ہوسکتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد ہماری زندگیاں پہلی کی طرح نہ رہیں۔ ہمیں خود کو اس نئے صورتحال کے مطابق ڈھالنے کے لیے نئے سرے سے زندگی شروع کرنی ہوگی۔ ماہرین معیشیات کے مطابق، لاک ڈاؤن ختم ہوتے ہی معیشت فوری طور پر بحال نہيں ہوگی۔

ڈاکٹر جاوید کہتے ہيں کہ ”ہم یہ سمجھ رہے ہيں کہ لاک ڈاؤن کے بعد معیشت فوراً ہی پہلے کی طرح ہوجائے گی، لیکن حقیقت میں ایسا نہيں ہوگا۔“ لاک ڈاؤن کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہوگا، جس میں وائرس کو محدود کرنے کی کوشش جاری رہیں گی، لیکن ساتھ ہی معیشت کو مستحکم کرنے کی بھی پوری کوشش کی جائے گی۔ اس مرحلے میں کاروباروں کے سپلائی چینز کو بھی دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

تیسرے مرحلے میں صارفین کی مانگ کم کرنے کی کوشش کی جائے گی، جس کے بعد معیشت بحال ہونا شروع ہوگی۔ ڈاکٹر جاوید کہتے ہيں کہ ان تمام مراحل کے لیے پالیسیاں تیار کرنا بہت ضروری ہوگا۔

ڈاکٹر جاوید مزید بتاتے ہيں کہ لاک ڈاؤن کے بعد زندگی پاکستانی معیشت کے علاوہ بین الاقوامی عناصر کی وجہ سے بھی متاثر ہوگی۔ مثال کے طور پر عرب ممالک میں کساد بازاری کی وجہ سے پاکستانی افراد قوت کی بیرون ملک ملازمتیں بری طرح متاثر ہوں گی۔

ڈاکٹر جاوید مزید کہتے ہیں کہ کاروباروں کو بھی کئی مسائل درپیش ہيں، جنہيں اس وقت نظر انداز کیا جارہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”اس وقت ہم سمجھ رہے ہيں کہ لاک ڈاؤن کے باعث کاروباروں کو صرف مالی مسائل درپیش ہيں۔ لیکن ایسا نہيں ہے۔ کاروبار اس کے علاوہ بھی کئی مسائل کا شکار ہيں اور حکومت کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔“ ان مسائل میں ملازمین کو تحفظ کی عدم فراہمی، محفوظ ماحول کی عدم فراہمی، اور حکومت کے نافذ کردہ ضوابط کی تعمیل کرنے کے دوران مشکلات سرفہرست ہیں، اور یہ ویکسین ایجاد ہونے تک قائم رہيں گے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق، اگر دنیا کو مالی بحران سے بچانا ہے تو تمام ممالک کو ایک ساتھ کام کرنا ہوگا۔ کرونا وائرس وبا کسی ایک ملک تک محدود نہيں ہے، اور اسی لیے اس مسئلے کے حل کی ذمہ داری بھی کسی ایک ملک تک محدود نہيں ہوسکتی۔

کرونا وائرس کے منفی مالی اثرات پر قابو پانے کے لیے موثر اور مخصوص مالی پالیسیوں کی اشد ضرورت ہے، اور اس کے لیے پالیسی سازوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

Categories: coronavirus

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *