نمبر ایک:- ارادہ – نمبر دو ہے جرم کرنے کی تیاری اور نمبر 3:- ہے جُرم کا ارتکاب ۔ اس میں اقدام جرم بھی شامل ہے۔ یہ ہیں جرم کے بنیادی عناصر

جب کوئی ملزم جُرم کا ارتکاب کرتا ہے، یا اقدام جُرم کرتا ہے۔ تو وہ یہ جرم کرنے والا اِن تینوں مراحل سے گزرتا ہے۔ یعنی جرم کرنے کا ارادہ کرتا ہے بھر جاکر جرم کرنے کی تیاری کرتا ہے اور بھر آخر کار اُس سے یہ جرم سر زد ہوجائے یعنی اس نے جرم کر لیا تب ہی جاکر قانون کے مطابق، قانون کی نظر میں یہ جرم جُرم کہلائے گا۔ آج عادی جرائم پیشہ افراد ارتکاب جرم کے وقت جو نت نئے طریقے اپنا رہے ہیں۔

جب تک کسی جرم کے ارتکاب کے لئے جرم کرنے کا ارادہ اور نیت نہ ہو اس وقت تک جرم عدم وجود میں رہتا ہے ۔ یعنی یہ قابل سزا جرم نہیں ہوا۔ اور جب کوئی ارتکاب جرم کیا جائے، جبکہ اس جرم میں جرم کرنے کی تیاری نہ ہو اور جرم کرنے کا ارادہ بھی نہ ہو تو مجرم یا ملزم کو ہر گز وہ سزا نہیں ملتی جو جرم ارادہ اور نیعت اور تیاری سے کیا جاتا ہے۔

جرم کی تعریف ضابطہ فوجداری {سی آر پی سی} دفعہ نمبر 4 میں بیان کی گئی ہے۔ اس جرم کی مزید تشریحات تعزیرات پاکستان {پی پی سی} کا دفعہ نمبر 40 میں کی گئی ہے اور ضابطہ فوجداری یعنی سی آر پی سی کی دفعہ نمبر 44 میں اس کی تشریح ملتی ہے۔ یہ تعزیرات پاکستان {پی پی سی} کا دفعہ 40 ہے۔ کوئی فعل یا ترک فعل اگر قانوناََ منع ہے تو یہ جرم ہوگا۔ اور وہ بھی جب رائج الوقت قانون اس کی اجازت دیتا ہو، بصورت دیگر یہ اخلاقی گراوٹ تصور کیا جائے گا۔

جرم کی ابتدا انسان کے ابتداء سے شروع ہوتی ہے۔ تاریخ انسانیت میں سب سے پہلا جرم- جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا۔ تو وہ پہلا جرم تھا۔ جو کہ عدم وجود سے وجود میں آیا۔

جرم کا تعلق فرد کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ یعنی جب یہ کسی انسان سے سرزد ہو مجرم کا لفظ بھی انسان ہی کے لئے مخصوص ہے۔ دوسری جانب اس کس ارتکاب خواہ جاندار سے کیا جائے یا بے جان سے کیا جائےجرم ہی سمجھا جائے گا۔ جرم تصور کیا جائے گا۔

انسانی تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں اب تک کسی بھی عہد میں معاشرے کو جرائم پیشہ افراد سے مکمل طور پر پاک و صاف نہیں رکھا جا سکا ۔ وقتی طور پر مجرمانہ سرگرمیوں پر کسی حد تک کنٹرول ضرور کیا گیا ہے مگر مستقلاََ نہیں ۔

جرم پھیلنے پھولنے کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ جب سرکار کرپٹ ہوتی ہے اور سرکار کی گرفت ڈھیلی پڑتی ہے تو ملک و معاشرے میں جرائم پیشہ افراد بے لگام ہو کر جرائم کا سر اُٹھنے لگتے ہیں۔

واضع رہے کہ پاکستان میں رائج فوجداری قوانین 120 سال سے زائد عرصے سے رائج ہیں۔

ضابطہ فوجداری سنہ 1898 کا ہے جبکہ پینل کوڈ سنہ 1860 کا ہے۔

Categories: جرم

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *