قانون جائیداد

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ دنیا کے سارے مسئل کا اسلام نیں حل کر دیکھایا ہے ۔ قانون وراثت کے ہر نقطے کی اسلام نے قانون سازی کر کے ہمار ے سامنے رکھ دیا ہے ۔ مالک کے مرنے کے بعد اس کے چھورے ہو ے جائیداد کی تقسیم ہوتی ہے . یہ جائیداد کے مسائل اور اس سے جُڑے دیگر معاملات کس طرح حل کئیے جائیں ۔ ؟ اس کا انتہائی اطمینان بخش جواب دین اسلام نے دیا ہے ۔

اسلامی احکامات میراث و جائیداد کے تنازعات کے امکانات کو ختم کر دیتے ہیں ۔ اور یہ ایک پُر امن فلاحی معاشرے کی بنیادیں مُستحکم کرنے میں معاون ثابت ہو تے ہیں ۔

وراثت کے تین اہم ارکان ہیں ۔

  • مُوَرِث میت کے واریث ۔
  • واریث ، مَورُث ۔

مُو؁ٰرثْ : یعنی میت یا جو چیز میت کے حُکوم میں ہو ، جیسے گُمشُدة

واریث : یعنی وة زندة افراد جو میت کا مال واسباب لینے والے ہوں ۔

مٰورُوث : یعنی میت کا جھوڑا ہوا مال، زمین اور دیگر سامان وغیرة

قانون وراثت کے تین اہم شرطیں ہیں

میت کی موت کے وقت وارث زندة رہنا اول شرط ہے ۔

میت کی موت کا یقین ہونا ضروری شرت ہے۔

وراثت کے موانع کا نہ پایا جانا تیسری شرط ہے

وراثت کے تین اسباب ہیں

وراثت کے تین اسباب ہیں ۔ جن میں سے کم از کم کسی ایک کی وجہ سے وارث بنا جاتا ہے .

  • نسبتی قرابت ، یعنی پہلا خونی رشتہ ہو ۔
  • نکاح ، شرعی اور قانونی طریق کے ذریعے قرابت
  • ولا ، یعنی وراثت کا حق ، کے زریعے قرابت

نسبتی قرابت

میت کے وة ورثاء جو خونی رشتہ کی وجہ سے وارث بنتے ہیں ۔ان کا تعلق فروع ، اولاد یا اولاد کی اولاد سے ہو ، یا اصُل ، والدین یا والدین کے والدین سے ہوں یا ، اطراف ، یعنی چچا اور چچا زات بھای یا اُن کی اولاد وغیرة ۔ اللہ تعلی نے سورة النساء ایت نمبر ۳۳ ۔ میں فرماتے ہیں : یہکہ ترجُمہ : اور ہر مال میں جو والدین اور قریبی رشتہ دار جھوڑ جائیں ہم نے حقدار مُقرر کیے ہیں ۔

نکاح کے ذریعے قرابت

عورت کے ساتھ شرعی اور قانونی طریقے سے نکاح ہو ۔ یعنی نکاح نامہ ہو، یہ نکاح ثالسی کوسل میں ریجیسٹرڈ ہو ۔ دونوں فریقین کی طرف سے گوہان مقرر ہوں ۔ میاں اور بیوی کا شناختی کارڈ کے مُطابق اصلی دستخط ہو ۔ اور صحیح صحیح دونوں فریقین کا پتہ درج ہو ۔

اللہ کریم نے فرمایا ۔ سورة النساء ایت نمبر ۱۲ ۔ ترجنہ یہکہ : اور تمہاری بیویوں کی ترکہ میں سے تمہارے لئیے نِصف ہے ۔

ولاء ، یعنی وراثت کا حق ، کی قرابت

کوئی شخص اپنے غلام یا لونڈیوں کو ازد کرے اور آٓزاد شُدة شخص اگر بعد میں فوت ہو جائے ۔ اور اس کا کوئی نسبتی وارث دنیا میں نہ ہو ۔ تو اس میت کو ازاد کرنے والا شخص میت کا وارث ہو گا ۔

رسل اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ترجمعہ : یقیناً ولاء یعنی وراثت کا حق اُس کے لئیے ہے جس نے ازٓد کیا ۔ صحیح البُخاری ،حدیث نمبر 1493

Categories: Uncategorized

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *