Introduction of Punishment :-سزا کا تعارُف

انسانی نفسیات کی پیچیدگی ۔ نفسیاتی مسائل کو منظر عام پر لاتا ۔ سماجی مسائل اور اخلاقی ذمہ داریوں۔ غلط اور درست کی کھوج کے راستے پر چلنے کی نشان دہی۔ کرتے ہوئے اخلاقیات کی حد بندی کی ہے۔ نسانی رویوں کی تبدیلی۔ زندگی میں روحانی طور پر مضبوط ۔ جو اسے اعتراف جرم کے لیے راضی کرتی ہے اور اس طرح وہ تبدیلی کے عمل سے گزر کر پچھتاوے سے نجات حاصل کرتا ہے۔ وہ مذہبی اور فلسفیانہ گفتگو بھی بنتا ہے۔

جرم و سزا مفلوک الحال لوگ؟ مفلس حال ہے ۔ جرم قتل کرنے کے بعد مجرم اندرونی انتشار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کا ضمیر ملامت کرنے لگتا ہے اور وہ پچھتاوے کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ جرم کا اقرار کرنے سے گریزاں ہے۔ 

ذاتی و سماجی زندگی مسائل کا شکار ہو جاتئیں ہیں۔ سماج کے کچھ خاص افراد معاشرے کی بھلائی کے لیے قوانین سے ماورا ہیں اور وہ جرائم کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

جہاں پھول ہو وہاں خوشبو ہوتی ہے اور جہاں آگ ہو وہاں حرارت ہوتی ہے اور جہاں جرائم و کرائم ہوتے ہیں وہاں جرم کو کرنے والے مجرمان ہوتے ہیں ۔ اور جہاں مجرمان ہوتے ہیں وہاں سزائیں ہوتی ہیں۔

مجرمان کے خلاف جہاں سخت قوانین کے زریعے سزاوں کا نفاذ ہوتا ہے وہاں ان کی اخلاقی تربیت اور اصلاح بھی کی جاتی ہیں۔ اصل میں سزا کا بنیادی مقصد مجرمان کی اصلاح ہوتی ہے۔ اور معاشرے کو مجرمانہ سرگرمیوں سے پاک رکھنا ہوتا ہے۔ اور قانون شکن مجرم کو قرار داد سزا دی جاتی ہے۔ ور

سزا کا تصور معاشرے کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا ہے۔ ریاست نے ناقابل قبول فعل و عمل اور قول و کردار کے لیے ایک ضابطہ کار مرتب کیا ہے۔ اس ضابطے کو جس کو تعشیری قوانین اور فوجداری قوانین سے موسوم کیا گیا ہے ۔ اور اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جانے لگی۔

قانونی لحاظ سے سزا وہ زہنی اور جسمانی اور مالی تکلیف و اذیت اور نقصان ہے جو مجرم کو اُس کے غلط کام یا فعل کی وجہ سے دی جاتی ہے۔ جس عمل کے کرنے یا نہ کرنے کا حکم قانون میں موجود ہو۔ اگر یہ کام کریں گے یا نہیں کریں گے تو یہ عمل قابل سزا جرم تصور ہوگا۔

سزا کی مقدار کا تعین اور سزا کی نوعیت کو فائینڈ آوٹ آئین اور قانون و عدل و انصاف کے تحت اور حالات و واقعات کے مطابق عدالت کرے گی ۔ مجرم کو سزا صرف اور صرف عدالت دے گی۔

ملزمان کو تادیب کرے ان کی اصلاح کرے تاکہ یہ مجرم مستقبل میں اس غلط اور کرمنل ایکٹیویٹی سے فعل اور بُرے عمل سے باز رہیں ورنہ سزا بھوکتنے کے لیے تیار ہوجائیں۔

غلفظ سزا فارسی کا لفظ ہے۔ فارسی زبان سے اردو زبان میں آیا۔ اس کا مطلب ہے ڈنڈ، سزا ، تاوان اور جرمانہ یا تنبیہ کے ہیں۔ مغربی نظام عدل میں ابتدائی طور پر سزا تبادلہ یا بدلے کے طور پر دی جاتی تھی۔ اور اس کا تعلق جرم کے ساتھ نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ یہ سزائیں ویسے ہی حکماََ دی جاتی تھی۔

اس کے بعد ایک اور فلسفہ پیدا ہوا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ لی جائے اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ لی جائے۔ یعنی جو جرم اس نے کیا وہ ہی ظلم اس کے ساتھ کی جائے۔ یعنی جیسے کو تیسا کا نظام۔ یورپ میں یہ نظام بھی کافی عرصے تک چلا۔ اس کے بعد اُن کا معاشرہ ترقی کی طرف گامزن ہوا۔ ترقی پزیر ہونا شرع ہوا۔ تحقیقی ارتقاء کی منازل طے کرنے لگا اور ریاست وجود میں آگئی۔ ریاست کے وجود میں آنے کے بعد معاشرے کے منظم ہونے کے بعد قانون وجود میں آیا ۔ اب

سزا دینے کا نظام ریاست کے پاس ہوتا ہے۔

اب قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں سے منظم معاشرے اور ریاست نے نمٹنا شروع کردیا۔ اور عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے سزاوں کا نظام ریاست نے سنبھال لیا ۔ اور جرم کے خلاف تصور کیا جانے لگا۔

ریاست ہی قانون شکن افراد کو سزا یا جزا دینے کا حق رکھتی ہے۔

مغرب میں 18ویں صدی میں انسانیت کا وقار بلند ہونا شروع ہوگیا۔ اور سزاوں کے خلاف نظریات وجود میں آگئے۔ خاص طور پر سزائے موت کی میجر سزا۔ اور جرمانہ اور تاوان اور سزائے قید بامشقت کی سزا۔

بیسویں صدی میں اصلاحی سزا کا نظریہ زور پکڑ گیا اور ریاستوں نے سزاوں میں سختی کے ساتھ اصلاح کا پہلو شامل کرنا شروع کیا۔ سزاوں کے معیار مقرر کئے گئے۔ ان کی درجہ بندی کی گئی اور مختلف معیار کی سزائیں رکھ دی گئی۔

نمبر1- معاشرے کو منظم رکھنا ہوتا ہے۔ تمام ادوار میں قانون بنانے والے ہمیشہ اس بات کے قائل رہے ہیں کہ انسان اپنے مفاد کے حصول کے لئے زور دیتا ہے۔ اور انسان چاہتا ہے کہ وہ ہی اس کو ملے اور ریاست اس کو تحفظ عطا فرمائے۔

ریاست کا عدل و انصاف ایک مستقل ادارہ ہے۔جو ملک میں امن و عامہ اور شہری کو بینیفٹس پہنچانے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔

نمبر 2- سزاوں کے خلاف نظریات کو سامنے رکھ کر عدالتیں حالات کے مطابق کم یا زیادہ سزائیں دیتی ہیں۔ یہ سزائیں ایک دوسرے سے جرم و مجرم کے لئے اور جرم و مجرم کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔ انسانی زندگی پر اگر ایک نگاہ ڈالی جائے تو سزاوں کا وجود جرائم کے ساتھ ساتھ ہر معاشرے میں موجود رہا ہے۔

جدید دور میں قانون کے خلاف ورزی کے بغیر سزا کا تصور انسانی حقوق کے مخالف یا انسانی حقوق سے متصادم سمجھا جاتا ہے۔ زمانے کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ سزاوں کا نظریہ و اطلاق بدلتا رہا ہے ۔ لیکن سزاوں کی افادیت نہ صرف اپنی جگہ قائم رہی بلکہ بڑھتی رہتی ہے۔ پہلے سزائے موت سنگساری اور فاقہ کشی اور گردن زنی اور کوڑے یا دُرے مار کر دی جاتی تھی۔ انسان کو زمین میں گاڑ کر کتّے یا جنگلی جانور بھی چھوڑے دئے جاتے تھے۔ یا زہریے اور مُہلے مچھلی کھلا کر کر بھی سزائے موت دئے جاتے تھے ۔ اور تیر اندازی یا بندوق کی گولی سے بھی نشانہ بازی کی جاتی تھی۔ انسانی اعضاء کاٹ دیئے جاتے تھے۔ کسی کو سزا بزریعہ آگ سے جلاکر مار دیا جاتا تھا۔ اور پانی میں ڈوبا کر مارنے کا بھی رواج تھا۔

انسانوں کا خطرناک جنگلی جانوروں سے مقابلہ کراکر مارا جاتا تھا۔ انسانوں سے مختلف قسم کے سخت مشقت لی جاتی تھی۔ لوگوں پر ناقابل برداشت جرمانہ ڈال دیا جاتا تھا۔ اور جرمانہ نہ ادا کرنے کی صورت میںاس انسان کے خاندان کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔

انسان کو اس کے جرم کی پاداش میں جلاوطن کردیا جاتا تھا۔ اور جنسی جرائم کے ملزمان کے اعضاء کاٹ دئیے جاتے تھے۔ عورتوں اور مردوں کو خطرناک مہلک تیزاب سے جلا کر مار دئے جاتے تھے۔ اور کسی اور مادے کے زریعے شہرہ بگاڑ دیا جاتا تھا۔

بعض مجرمان کا منہ کالا کر کے گلی اور محلوں میں پھرایا جاتا تھا۔ اور بعض مجرمان کا معاشی بائکاٹ کر دیا جاتا تھا۔ اور بعض مجرمان کے اعضاء کو سوراخ کر دیا جاتا تھا۔ الغرض سزا دینے کے نت نئے طریقے رائج تھے۔

سزا کا بنیادی تعارف؟ (Punishment)

سزا ایک ایسا عمل ہے جو کسی شخص یا گروہ کے خلاف کیا جاتا ہے جب اس نے کوئی جرم، غلطی، یا خلاف ورزی کی ہو۔ سزا کا مقصد عموماً نظم و ضبط قائم کرنا، غلط کاموں سے روکنا، مجرم کو اصلاح دینا، اور انصاف کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ سزا کی مختلف اقسام ہو سکتی ہیں، جن میں قانونی، جسمانی، مالی، اور نفسیاتی سزائیں شامل ہیں۔

سزا کی اقسام:۔

  1. قانونی سزا
    • قید: مجرم کو مخصوص مدت کے لیے جیل بھیجا جاتا ہے۔
    • جرمانہ: مالی رقم کی صورت میں سزا دی جاتی ہے۔
    • موت کی سزا: مجرم کو موت کی سزا دی جاتی ہے، جو صرف سنگین جرائم کے لیے ہوتی ہے۔
  2. جسمانی سزا۔:۔
    • کوڑوں کی سزا: مجرم کو جسمانی تکلیف دینے کے لیے کوڑے مارے جاتے ہیں۔
    • ہاتھ کاٹنا: چوری یا دیگر سنگین جرائم کی صورت میں ہاتھ کاٹنے کی سزا دی جاتی ہے۔
  3. مالی سزا
    • جرمانے: مالی جرمانے کی صورت میں مجرم کو مخصوص رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔
    • ضبطگی: مجرم کی جائیداد یا اثاثے ضبط کیے جاتے ہیں۔
  4. نفسیاتی سزا
    • شرمندگی: مجرم کو عوام کے سامنے شرمندہ کیا جاتا ہے۔
    • تنہائی: مجرم کو سماجی طور پر الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔

سزا کے مقاصد:۔

  1. اصلاح: مجرم کی اصلاح کرنا تاکہ وہ آئندہ جرم نہ کرے۔
  2. روک تھام: دوسروں کو جرم کرنے سے روکنا۔
  3. انتقام: مجرم کو اس کے عمل کی سزا دینا۔
  4. معاشرتی انصاف: متاثرہ فرد یا معاشرے کو انصاف فراہم کرنا۔

قانونی نظام میں سزا:۔

مختلف ممالک اور ثقافتوں میں سزا کے طریقے اور مقاصد مختلف ہو سکتے ہیں۔ قانونی نظام میں سزا دینے کے لیے ایک منصفانہ اور شفاف عمل کا ہونا ضروری ہے تاکہ سزا غلط یا غیر منصفانہ نہ ہو۔

اسلامی قانون میں سزا:۔

اسلامی قانون شریعت میں بھی مختلف جرائم کے لیے مخصوص سزائیں مقرر ہیں، جن میں ہدود، قصاص، اور تعزیر شامل ہیں۔ یہ سزائیں قرآن و سنت کی روشنی میں دی جاتی ہیں۔

سزا ایک وسیع موضوع ہے جس میں مختلف پہلوؤں پر غور کیا جا سکتا ہے، جیسے انسانی حقوق، اخلاقیات، اور معاشرتی اثرات۔

خلاصہ کلام سزا (Punishment)

سزا وہ عمل ہے جو کسی جرم، غلطی، یا خلاف ورزی کے جواب میں دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد نظم و ضبط قائم کرنا، جرائم سے روکنا، مجرم کی اصلاح کرنا، اور انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے۔

سزا کی اقسام:۔

  1. قانونی سزا: جیسے قید، جرمانہ، یا موت کی سزا۔
  2. جسمانی سزا: جیسے کوڑے مارنا یا ہاتھ کاٹنا۔
  3. مالی سزا: جیسے جرمانے یا جائیداد کی ضبطگی۔
  4. نفسیاتی سزا: جیسے شرمندگی یا سماجی تنہائی۔

سزا کے مقاصد:۔

  1. اصلاح: مجرم کی اصلاح کرنا۔
  2. روک تھام: دوسروں کو جرم سے باز رکھنا۔
  3. انتقام: مجرم کو اس کے عمل کی سزا دینا۔
  4. معاشرتی انصاف: متاثرہ فرد یا معاشرے کو انصاف فراہم کرنا۔

اسلامی قانون میں سزا:

اسلامی قانون (شریعت) میں مختلف جرائم کے لیے مخصوص سزائیں مقرر ہیں، جیسے ہدود، قصاص، اور تعزیر، جو قرآن و سنت کی روشنی میں دی جاتی ہیں۔

خلاصہ:

سزا ایک اہم اور پیچیدہ موضوع ہے جس میں انسانی حقوق، اخلاقیات، اور معاشرتی اثرات جیسے عوامل شامل ہوتے ہیں۔ سزا کا بنیادی مقصد جرم کی روک تھام، مجرم کی اصلاح، اور معاشرتی انصاف کو یقینی بنانا ہے۔


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *