سفید پوش لوگ جُرم تنہا دوسروں کی اعانت سے کرتے ہیں یہ لوگ جرم اپنی سیاسی اور معاشی اور سماجی حیثیت وغیرة کا بھر پور فائدة اُٹھاتے رہتے ہیں ۔ یہ لوگ عام مجرمان کی طرح جائے واردات سے فرار نہیں ہوتے ہیں ۔ بلکہ آخر وقت تک وہی موجود رہتے ہیں ۔ یہ لوگ معاشرة میں مختلف شکلوں میں رہتے ہیں ۔ اور ان کی شناخت خاصا مشکل کام ہے ۔ یہ لوگ سرکاری رکارڈ میں خُرد بُرد کرنے میں ماہر ہوتے ہیں ۔ اور بلا خوف و خطر سرکاری مال ہضم کر جاتے ہیں ۔ اپنے پیچھے کوئی گواة یا نشان نہیں چھوڑتے ہیں ۔ اس لیئے کوئی قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے ۔ اس جُرم کو مُو تعارف کروانے والے بڑے بڑے حکمراں اور بیرو کتیٹس اور ٹکنوکریٹس اور لبرل کا طبقہ ہے ۔ جو آج کل اسلام پر میڈیا کے زریعے تنقید کرتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں ۔

مگر اسکا علاج اسلام میں موجود ہے

بنی ﷺ کے دور میں ایک دفعہ ایک عورت نے چوری کی اس عورت کا تعلق قریش کے با عزّت خاندان مخزوم سے تھا ۔ لوگ چاہتے تھے کہ وة عورت سزا سے بچ جائے ۔ اور معاملہ رفع دفع ہو جائے ۔ یہ کرئمنل کیس تھا ۔ اور نظام اسلام کا تھا ۔ اور وة خاتون بڑے خاندان اور بڑے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ۔

لوگ حضرت اُسامہ بن زید ؓکے پاس سفارش کے لیئے گئیے ۔ کیونکہ یہ صحابیؓ رسول اللّہ ﷺ کے محبوب خاص تھیں ۔ لوگوں کے اسرار پر ابن زیدؓ نے چور عورت کی معافی کی درخواست آپ کے حضور پیش کی ۔ تو سُنئیے کیا ہوا آپ ﷺ نے غضب آلود ہو کر فرمایا ۔ کہ بنی اسرائیل اس کی بدولت تباة ہوئے ۔ کہ وة غُرباء پر حد جاری کرتے تھے اور اُمراء سے درگزر کرتے تھے ۔ ُ ٓآخرت کی سزا کے خوف سے معاشرة سُدھرتا ہے پھر انسانی رویّے میں بہتر تبدیلی اتی ہے تو کرائم و جرائم میں خود بخود کمی واقع ہو جاتی ہے ۔

اسلام میں اس قسم کے جرم کو اللّہ کے حق کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے ۔ جو امانت میں دیانت میں خیانت کرتے ہیں ۔ قُرآن پاک میں ارشاد ہے ۔ : ” اللّہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سُپرد کرو ” ۔ ” النساء 58 . یہ جرائم اکثر سرکاری ملازمین اپنے فرائض کے دوران کرتے ہوے نظر آتے ہیں ۔ اس جانب قُرآن پاک میں ارشاد کیا گیا ہے کہ کوگوں کے اشیاء ۔ بشمول حقوق ۔ میں کمی نہ کیا کرو ۔ 1 \ 85 اور 7\ 85 کمی کرنے والوں کیلئے سزا ہے ۔ 82\ 1 یہ جُرم اکثر وة لوگ کرتے ہیں جو عملی زندگی میں صاحب حیثیت ہوتے ہیں ۔ یا سرکاری حیثیت کا ناجائز استعمال کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کو عرف عام میں خائن کہا جاتا ہے ۔ یہی لوگ اصل میں سفید پوش ڈاکو ہوتے ہیں ۔

حقوق و فرائض کے تصوّر سے احساس ذمّہ داری قائم ہوتی ہے

اسلام میں انسانی حقوق و فرائض کے 2 پیلر هیں ایک اللّہ کے حقوق اور دوسرا بندوں کے حقوق ۔ دراصل یہ دونوں حقوق و فرائض کا تصور ، انسان میں احساس ذمہ داری قائم کرتا ہے ۔ اس طرح کرائم سے پاک معاشرة وجود میں آتا ہے ۔ اس لیئے جرائم پیشہ لوگ یا کریمنل مائنڈیڈ لوگ یا شارٹ کرٹ سے پیسہ کمانے والے لوگ اسلام کو پسند نہیں کرتے ۔ اور اسلام کے خلاف بھر پور میڈیا ٹرائل کرتے رہتے ہیں اور دیگر سیاسی مہم چلاتے رہتے ہیں ۔ وة اسلام کو کمزور ایمان والے اور عام مسلماوں سے مثال دیتے رہتے ہیں ۔ اچھے با عمل مسلمان ان کو نظر نہیں آتے ۔

جب کہ اسلام نام ہے ۔ اللّہ اور رسول ﷺ کی اطاعط کا ۔ صحابہ ؓ کے طریقے سے اسلام پر چلنے کا ۔ تب ہی یہ معاشرة ہر قسم کے کرائم و جرائم سے پاک و صاف ہوگا ۔ انشاء اللّہ تعلیٰ

اللّہ تعلیٰ تو دیکھ رہا ہے یہ تصوّر کرائم سے پاک معاشرة بناتا ہے

وائٹ کالر کرائم میں کوئی نہیں دیکھ رہا ہے ۔ اس لیئے مجھے کوئی نہیں پکڑ سکتا ہے ۔ اور میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ میں نے کوئی ثبوت یا کوئی گواة نہیں چھوڑا ہے پیچھے میں نے ۔ یہ تصوّر قائم ہوتا ہے ۔ اس لیئے وة جُرم کرنے سے بعض نہیں اتے ۔ شکلیں بدل بدل کر جُرم و زیادتی کرتے رہتے ہیں ۔ جبکہ اسلام کا تصوّر یہ ہے کہ اللّہ دیکھ رہا ہے ۔ اور اللّہ کی گرفت بہت مظبوط ہے ۔ اسلامی تصور یہ ہے کہ اللّہ اپنے حقوق تو معاف کر دے گا مگر بندوں پر کیا ہوا ظلم و زیادتی معاف نہیں کریگا جب تک کہ بندة بندے کو معاف نہ کر دے ۔ اس لیئے بھایوں اور بہنوں اپنی زندگی میں ہی اپنے معاملات کو صحیح کرلیں ۔ پتہ نہیں کب اور کس وقت کس کا بلاوا آجائے ۔ اسلام پر چل کر ہم اور آپ اپنے عنا کو فنا کرسکتے ہیں اور اپنی اس مختصر زندگی کو خوبصورت ترین اور پُر امن بنا سکتے ہیں ۔ اللّہ کے فضل و کرم سے ۔

وما الینا الللّ بلاغ

Categories: Uncategorized

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *