ان مُجرمان کو شازو نادر جُرم کرنے والے یا مواقعاتی مجرم بھی کہا جاتا ہے ۔ اس مجرم کا تعلق ارادے و مقصد کے ساتھ ہوتا ہے ۔ یہ وة جرم ہوتا ہے ۔ جو کہ بغیر ارادے اور مقصد سے وجود پزیر ہوتا ہے ۔ اس میں جرم کرنے والے کی نیت تو جرم کرنے کی نہیں ہوتی . لیکن مجرم سے جرم سرزد ہو جاتا ہے ۔ وة فِعل حرام کہلاتا ہے ۔ یہکہ جس کے ارتکاب کی مجرم نے نہ کی ہو ۔ بلکہ اس سے خطاء سرزد ہو گیا ہو ۔

یعنی یا تو فعل کا ارادة ہو لیکن جرم کا ارادة نہ ہو اور یا نہ تو فعل کا ارادة ہو اور نہ ہی جرم کا ایسے مجرم کو اتفاقی مجرم کہا جاتا ہے ۔ اس پر مجرم اپنی صفائی میں ارادة رکھتا ہے ۔ یہ لوگ جرم کا ارتکاب عمداً نہیں کرتے بلکہ غفلت اور بے احتیاطی کی وجہ سے جرم کرتے ہیں اور ان کو ان کی غفلت اور بے احتیاطی کی وجہ سے سزا دی جاتی ہے ۔

قران پاک میں غلطی کے اعمال پر سزا نہیں ہے

اگر کسی کی غفلت سے یا کسی کی کوتاہی سے اگر کسی کو جانی یا مالی نقصان پہنچے تو یقیناً جس کے زریعے اگر کسی کو کوئی نقصان پہنچا تو اس پر لازن ہے کہ وة اس کا نقصان پورا کر ے ۔ انسان کے نقصان کی تلافی انسان کر ے گا ۔ انسان نے انسان کی اگر کوئی حق تلفی کی ہو تو وة انسان اسکا حق لوٹائے گا اور اگر انسان نے اللہ کی حق تلفی کی ہو تو وة اپنے اللہ تعلیٰ سے خاموشی سے توبہ کر لے اللہ معاف کرنے پر قادر ہے ۔ اللہ مغفرت کرنے والا بڑا مہربان انشاء اللہ۔

سورة المائیدة ایت نمبر : 34 ۔ مگر جو لوگ توبہ کرلیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پاو ۔ تو جانتے رہو کہ بےشک اللّہ بڑی مغفرت والا رحم والا ہے ۔

مغربی تصور میں اس جرم کی سزا دی جاتی ہے ۔ لیکن اسلام اس قسم کے مجرم کی تادیب کرتا ہے ۔اور توبہ سے بھی تادیب کا راستہ نکالتا ہے ۔

اتفاقی مجرم جُرم کا ارتکاب ضرورت یا خواہش کے تحت کرتے ہیں ۔ لیکن لیکن ، لیکن جُرم کو ہر گز ہر گز اچھا نہیں سمجھتے ہیں ۔

Categories: Uncategorized

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *