انسانیت کے امراض اور اُن کا علاج جرائم و کرائم انسانیت کا دشمن ہے، انسانیت کی بیماری ہے۔
جرائم کرائم کا خاتمہ کیسے ممکن ہے، جرائم اور ظلم اور اسکی سزا کا تعین کیسے؟
Crimes and Atrocities are the Enemy of humanity. Crimes and Oppression are the Enemy of Humanity. How is the eradication of crimes and atrocities possible? How to determine the punishment for crimes and oppression?
What are the Diseases of humanity and their treatments?
Crimes and oppression are the enemy of humanity.”
انسانیت کے امراض اور ان کا علاج ۔ جرائم و کرائم۔ بداعہدی اور گناہ انسانیت کا سب سے بڑا مرض ہے بیماری ہے دشمن ہے ۔ جرم اور سزا کے درمیان توازن کو قائم کرنا ہے۔ جرم کے سزا کے درمیان بیلینس کو قائم کرنا ہے۔ تاکہ معاشرے میں جرم جرائم کرائم نہ پھیلے۔ دنیا میں ایسا کوئی ترازو نہیں بنا ہے جو جرائم و کرائم کو ناپ سکے وہ ترازو جرائم و کرائم کی پیمائش کرسکے۔ دنیا میں کوئی ایسا ترازو نہیں ہے جو جرائم و کرائم کے آثار و نتائج کا وزن کر کے اُس کے ہم وزن سزا یا جزا تجویز کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی قانون کی تمام تر سزا دراز دستیوں یعنی سزا کے باوجود یہ مہزب ممالک میں گھنونے جرائم و کرائم کی رفتار بڑھتی جارہی ہے۔
اور جب تک یہ دنیا اس انبیاوں لے لائے ہوئے نظام کے مطابق جُرم اور سزا کا موازنہ نہیں کرتی ۔ یہ الہامی نظام انصاف جس کو اللّہ نے جو ترازو بنایا ہے، حقوق اور فرائض کا جب تک اس کو ملحوظ نہیں رکھے گا تب تک انسانیت کی خدمت نہیں ہو سکے گی ۔ انبیائی نظام کا مطلب جو نبی، انبیاء اور رسول جو نظام شریعت لے کر آئے ہیں ۔اس کے مطابق جُرم اور سزا کا موازنہ نہیں کرتی اُس وقت تک انسانیت پر جنگل کا قانون نافظ رہے گا۔ اُس وقت تک یہ دنیا ظُلم و بربریت کا شکار ہوتی رہی گی۔ اور انسانیت سسکتی بلکتی رہے گی ۔ یہی میزان ہے یہی تقاضا انصاف ہے یہی میزان نبوت ہمیں اللّہ نے بتایا ہے۔ شریعت محمدیہ میں نظام نبوت ہمیں بتاتا ہے کہ کرائم و جرائم گندگی اپنے اندر کتنی مقدار رکھتی ہے، اور اس جرائم و کرائم کا علاج کتنے پتھروں یا کوڑوں سے سزا ہونا چاہیے؟
مزید یہ کہ کسی کے مال پر ناجائز ہاتھ ڈالنا، کسی کے مال پر ناجائز قبضہ کرنا کتنا بڑا معاشرتی روگ ہے، معاشرتی جُرم ہے۔ اس جُرم کا علاج صرف اور صرف شریعت محمدیہ میں ہے۔
لیکن یاد رکھیں جہاں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے، اِس جُرم کی سزا سے پہلے انصاف کی فراہمی ہے۔ وہاں ہر جرم کی سزا سے پہلے عام عوام کو انسان کو مواقع فراہم کرنا ہے ۔ کام کاج کاروبار کی آپرچونٹی، مواقع فراہم کرنا ہے۔ ہر قسم کی سزا سے پہلے ملک سے غُربت کو ختم کرنا ہے، قانون بنانے سے پہلے سہولتیں دی جاتی ہیں، پھر جاکر سزا کا قانون بنایا جاتا ہے۔
جب آپ کا پیٹ بھرا ہوگا جب جاکر سزا کا قانون لاگو ہوگا۔ایسا نہیں کہ عوام کو کھانے کے لیے روٹی نہ دی جائے ۔ نوکری کی سہولت نہ پہنچائی جائے صرف قانون بنا کر مجرموں کو سزا دی جائے تو یقیناََ وہ معاشرہ بھیڑیوں جیسا معاشرہ بن جائے گا۔ وہ عدم مساوات کا معاشرہ بن جائے گا۔ اسی لیے اسلامی قانون کا اوّل تقاضہ یہ ہے کہ پہلے ریاست اور عوام کی پریشانی کو ختم کیا جائے، پہلے عوام کو روٹی روزی فراہم کیا جائے، پہلے عوام کو سہولتیں پہنچائی جائے،، تب جب سب کُچھ عوام کو مل جائے پھر سزاوں کی قانون سازی کی جائے۔ اب اگر کسی نے قانون کی خلاف ورزی کی تو اُس کی یہ یا وہ سزا ہے۔ یہ ہے دین شریعت کا قانون یہ ہے دین اسلام کا قانون یہ ہے دین فطرت کا قانون۔ جار ہے۔۔۔
0 Comments