چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ۱۸ ویں ترمیم کی تشریح کرینگے
یہ ۱۸ویں ترمیم پارلیمینٹ میں کسی بحث کے بغیر منظور ہوئی ہے ۔ جو کسی بھی آئینی تشرریح کے لیے ضروری اور اہم ہوتی ہے ۔
مگر ۱۸ یں ترمیم پارلیمینٹ میں بحث کئیے بغیر منظور ہو گئی ہے اندازہ نہیں ہوتا کہ ارکان پارلیمینٹ اس وقت کیا چاہتے تھے پارلیمینٹ اپنا کام کر چُکی ہے اب اس کی تشریح کورٹ کریگی ۔ حالانکہ پارلیمانی بحث آئین کی تشریح کے لیے اہم ہوتی ہے ۔ دنیا بھر میں آئینی ترامیم سے پہلے سالہا سال اس پر بحث کرائی جاتی ہے ۔ جب کہ ہمارے یہاں بغیر کسی آئینی بحث کے ترامیم کر دی جاتی ہے ۔
پارلیمان ایک سُپریم ادارة ہے ۔ قانون سازی کے لیے ۔ ناظرینِ اکرام
ہم سب کو معلوم ہونا چاہ یے کہ پارلیمینٹیرین کا کیا کام ہوتا ہے ؟ ۔ قانون کیا ہے ؟ ۔ قانون کون بناتا ہے اور یہ کس کی ذمہ داری ہے ؟ ۔ قانون کیوں بنتے ہیں ؟۔ اس کا کیا فائدہ ہے کیا ہماری زندگی میں روز مرہ کے پیش انے والے قوانین سے ہمیں اگاہ رہنا چاہیے یا نہیں ؟ اب ہمیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ یہ ۱۸ ویں آئینی ترمیم کیا ہے ۔یہ ترمیم کب ہوا ؟ کیسے ہوا؟ کس کے دور میں ہوا ؟ اور کیوں اور کن حالات میں ہوا ؟ اس ترمیم سے وفاق مضبوط ہوا یا کمزور ۔ ؛؛؛؛ آئین میں کیا کیا ترامیم کیئے گئے ؛؛؛؛ اس ترمیم کے ذریعے صحت / میڈیکل کا شعبہ اور تعلیم وتدریس اسکول ۔ کالج کے نصاب وغیرہ کی اشاعت اور قانون سازی کی مکمل ذمہ داری صوبے کو دے دی گئی ۔ فوڈ اور سیکیورٹی کی مکمل ذمہ داری صوبے کے حوالے کر دی گئی ۔ محکُمہ انرجی اور زراعت بھی صوبے کے حوالے ۔ آبی ذخیرة کے لیے ڈیم کی تعمیر سے پہلے صوبے سے مشاورت لینا پڑیگا وفاق کو ۔ اس طرح ان ساری چیزوں سے وفاق کا عمل دخل ختم ہو گیا اس ترمیم سے مُقامی اور بینُ الاقوامی اداروں سے قرض لینے کی بھی اجازت حاصل ہو گئی اگر کسی صوبے کی زمین سے تیل اور گیس نکل آے تو صوبہ ۵۰ فی صد منافے کا حقدار ہوگا ۔
جرنل ضیا اُلا حق نے جتنے ائینی ترامیم کئے تھے وة سب ختم کردئے گئے اور جرنل پرویز اشرف نے جو آئینی ترامیم کئیے تھیے وة بھی ختم کر دئے گیے ۔ یہ ۱۸ وں ترمیم کا ایک شاندار کارنامہ ہے ۔
ہر ۹۰ دن کے بعد مُشترکہ مُفادات کونسل کا اجلاس ہو نا لازمی قرار پایا ہے ۔ مگر اب تک شاید ہی کہیں مُشترکہ اجلاس ہوا ہے ۔ کیوں کہ اس اجلاس سے صوبے کو کوئی دائدة نہیں ۔
کیا اس ترمیم کو حتمی شکل دینے سے پہلے باقی پارلیمانی سیاسی پارٹیوں سے بھی کوی راے مشورہ لیے گئیے یا نہیں ۔ کسی کے کوی تحفُظات تو نہیں تھیے ۔ کیا پارلیمینٹ میں اس پر کوی بحث وغیرہ ہوی یا نہیں ؟
جب یہ ۱۸ ویں تر میم منظور ہوی اس وقت جناب آصف علی زرداری مملکتِ خُداد پاکستان کے صدر مُحترم تھیے ۔ اور وہ اپنے پارٹی کے کو چیرمین بھی ۔ اور اس وقت کے وزیر اعظم جناب سید یوسُف رضا گیلانی تھیں ۔
یہ ترمیم ۸ اپریل۲۰۱۰ میں قومی اسمبلی سے منظور ہوئی ا ُسکے بعد ۱۹ اپریل کو صدر ملکت نے اس پر دستخط کر دیئے تو اب یہ ترامیم آئین کا حصہ بن گئی ۔
۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے اس ۱۸ ویں ترمیم کو بغیر کسی بحث و مُباحثہ کے منوں من مقبول و منظور کر لیا گیا
اس ترمیم کی وجہ سے جو صدر مملکت کے پاس جو ایکزیکیٹوکے اختیارات تھیں وہ سب اب پارلیمان کے سُپرد کردیے گیے ہیں یہاں پارلیمانی نظام حکومت میں چونکہ وزیراعظم قائد ایوان ہوتا ہے اس لیے یہ سارے کے سارے ائینی اختیارات اب ۔ وزیر اعظم کے پاس آگیے ہیں
اس ترمیم کے ذریے صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے خیبر ہختون خوا رکھ دیا گیا ہے ۔
وفاق سے زیادہ تر آئنی اختیارات لیکر صوبوں کو دے دیے گئے ہیں ۔ الیکشن لڑنے والوں کے لیے پڑہے لکھے گریجویشن ہونے کی شرط ختم کر دی گئی ہے ۔ یاد رہے کہ یہ لوگ الیکشن جیت کر اسمبلی میں اتے ہیں جہاں قانون سازی ہوتی ہے یا ہونا چاہیے یہ ہمارے ملک و قوم کے لیڈر اور نُمائندے بنتے ہیں ۔ یہ جیتے ہوے نُمائندوں کو دنیا کے مختلف ملکوں میں جانا پڑتا ہے ملک کی نُمائندگی کر نے کے لئے۔ تیسری بار اور بار بار وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بننے پر پابندی لگ گئی تھی ۔ اب کوی پابندی نہیں ہے موجیں کرو ۔ تاحیات اقتدار اب ان کا حق ہے جب تک سانس تب تک آآآآس
ماہر قانون کے نزدیک مختلف رائے
ماہر قانون کے نزدیک یہ ترمیم دراصل ایک آئینی پیکیج تھا جو آئین کی مختلیف شیقوں میں پائے جانے والے ابہام اور مختلف اوقات میں کی جانے والی غیر جمہوری آئینی ترمیم کا جائزہ لینے کے بعد ۱۸ ویں ترمیم میں مُناسب اضافے اور ترامیم کیے گیے ہیں ۔
اس کے ۲۵ آئینی شقوں میں ردُوبدل کئے گئیے ہیں ۔ اور ۱۰ مختلف نوعیت کے پارلیمانی فیصلوں کو اس آئین کا حصہ نبایا گیا ہے ۔
بہرحال یہ ایک مُسلمہ سوال ہے کہ اسمبلی میں اس پر بحث کیوں نہیں ہوی ؟ جب کہ یہ بحث آئین کا بنیادی تقاضہ تھا ۔ واللہ اعٰلم
0 Comments