غصّے میں آکر لوگ گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں ۔ پھر ہاتھا پائی ۔ پھر خون خرابہ ۔ پھر کورٹ کچہری ۔ پھر پولس کی گالی گلوچ پھر مار دھاڑ ۔ پھر جیل کی ہوا ۔ پھر افرا تفری ۔ پھر گھڑ کی بربادی ۔ پھر گالی گالی ۔
جن گھروں میں لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں ۔ اس گھر سے خیر و برکت ختم ہو جاتی ہے ۔ دلوں سے ایک دوسرے کی عزّت ختم ہو جاتی ہے ۔ اور یہی لوگ معاشرے کو خراب کرتے ہیں ۔ گالیوں کی ابتدا گھر سے ہوتی ہے ۔ پھر باہر تک پہنچتی ہے ۔
ہم گالیاں دینے والی قوم بن رہے ہیں
باپ گالی دیتا ہے ۔ماں سُنتی ہے اور خاموش رہتی ہے بیچاری ۔ پھر بچے باپ کی تقلید کرتے ہیں ۔ پھر بچے گالی بکتے ہیں۔ماں سُنتی رہتی ہے ۔کیوں کہ ماں عادی ہو چکی ہوتی ہے ۔ اس گالی گلوج کے ماحول کی ۔ پھر بچے اسی ماحول میں بڑے ہوجاتے ہیں ۔ پھر ایک وقت ایسا بھی اتا ہے کہ انہیں گالیاں گالی نہیں لگتی ہیں ۔ یہ روز مرّة کی گفتگو کا حصّہ بن چکی ہوتی ہے ۔اب گالی گلوج انکے کردار کا ایک اہم حصّہ بن چکی ہے ۔
کیوں کہ ان کے خیال میں گالی دینا کوئی بُری بات نہیں ہے ۔ اسی لیئے اب ہمارے معاشرے میں مرد تو مرد ، عورتیں بھی روانگی سے گالیاں بکتی ہیں ۔ روکے نہ انہیں کوئی ۔ ٹوکے نہ انہیں کوئی ۔ جو جو کچھ کرتا ہے اسے وة کر نے دو ۔ جس نے کی نصیحت اسی کو فصیحت ۔
میں نے بڑے بڑے لوگوں کو دیکھا ہے ۔ وة یہ کہتے ہیں کہ اگر گالیاں نہ ہوں تو گفتگو میں مزة نہیں رہتا رسول اللّہ ﷺ نے فرمایا ۔ مسلمان کو گالی دینا گناة ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے ۔ صحیح بخاری
اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرة گناة ہے
حضرت عبداللّہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ۔ رسول اللّہ ﷺ نے فرمایا ۔: کبیرة گناہوں میں سے ایک بڑا گناة یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعن طعن کرے ۔ پوچھا گیا ۔ یا رسول اللّہ ﷺ ادمی بزات خود اپنے والدین پر کیسے لعن طعن کر سکتا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ۔صحیح بخاری ۔
جب کوئی شخص دوسرے کے والد کو گالی دے گا تو دوسرا شخص بھی جواب میں اس کے والد اور والدة کو گالی دیگا ۔ ” گویا پہلا شخص اپنے والدین کو گالی دلوانے کا خود سبب بنا “۔
اللّہ فرماتا ہے کہ : اور میرے بندوں سے کہہ دیں کہ وة ایسی باتیں کہا کریں جو بہت اچھی “اور پسندیدة ” ہوں ۔ کیوں کہ شیطان ” بری باتوں سے ” ان میں فساد ڈلوا دیتا ہے ۔ کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے ۔
ہم پبلک ٹوائلیٹس میں اگر کبھی جاتے ہیں تو وہاں صفائی تو نہیں ملتی ۔ البتہ در و دیوار پر گالیوں اور فحش منظر کشی کے زریعے اخلاقیات کا جنازة نکلتا نظر اتا ہے ۔
اللّہ فرماتا ہے کہ : اور خبر دار تم لوگ انہیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ اللّہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے اللّہ کو برا بھلا کہیں گے ہم نے اسی طرح ہر قوم کے لیئے اس کے عمل کو آراستہ کردیا ہے ۔ اُس کے بعد سب کی باز گزشت پروردگار ہی کی بارگاة میں ہے ۔ اور وہی سب کو ان کے اعمال کے بارے میں با خبر کرے گا ۔
اسلام میں گالی سنگین جُرم اور گناة کبیرة ہے
اسلام ایک مہذّب دین ہے ۔ اس لیئے اس نے گالی کو سنگین جرم اور گناة کبیرة قرار دیا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو یہ بات اشکار ہوتی ہے کہ اسلام میں تو ایک غیر مسلم کو بھی گالی دینا جائز نہیں ہے ۔ مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں گالم گلوج کو لوگ بطور ہتھیار اور آخری حربہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔
اگر ہمارا کسی سے کوئی ااختلاف ہو جائے تو ہم اس اختلاف کو دلیل سے دور کریں ۔ نہ کہ گالی گلوچ سے ۔ یاد رکھیئے گالی دینے والا شخص مہذّب نہیں ہوتا ۔ وة بُزدل اور ناکارة ہوتا ہے ۔ وة اپنے پرائے سب کی نظروں سے گر جاتا ہے ۔
چار خصلتیں منافقوں کی نشانی
چار خصلتیں جس میں ہونگی وة منافق ہوگا اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک بات ہوگی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی جب تک وة اس کو چھوڑ نہ دے ۔
امانت میں خیانت ۔ بات بات پر جھوٹ بولنا ۔ عہد توڑنا ” یعنی وعدة کرے تو پورا نہ کرے ” ۔ اور جھگڑے کے وقت گالیاں دینا ۔ فرمان رسول اللّہ ﷺ
صحیح بخاری ۔ کتابُ الاِیمان ۔ حدیث نمبر ۔: 34
گلوبل معاشرے میں گالی گلوج کا ارتقاء
کیا
گالی دینا مردانگی ہے ۔ گالی دینا چودراہٹ ہے ۔ گالی جذبوں کی بہترین ترجُمانی ہے ۔ گالی ایک آرٹ ہے ۔ اور اگر گالی انگریزی میں دی جائے تو لا جواب ہے ۔ واة واة
اور اب تو علماء حضرات بھی گالی کو سُر سنگیت میں دیتے ہیں ۔ اور اپنے مخالفین کو خود بھی موٹی موٹی گالیاں دیتے ہیں اور اپنے مُریدان کی بھی تربیت گالی گلوچ سے کرتے ہیں ۔ اپنے مُریدوں اور فالو ورز کو باضابطہ بتاتے ہیں کہ جب تم خانے کعبہ کا طواف کرو تو فلاں فلاں مسلکی مخالفین کو خوب گالیاں دو ۔ تمہیں ہر گالی کا ثواب ملے گا ۔ یعنی حج اور عمرے کے لیئے جاو تو ۔ حرمین شرفین کے میزبانوں کو دل بھر کے گالیاں بکّو ۔
اخلاقیات کا خاتمہ گالی کی ابتدا
جہاں دلیل ختم ہو جائے وہاں سے گالیاں شروع ۔
جہاں منطق ختم ہو جائے وہاں سے گالیاں شروع ۔
بے بسی کی انتہا تو گالیوں کی ابتدا ۔ گالیوں کی نشانیاں جہالت کی پہچان ۔
۔ اللّہ ہماری حفاظت فرمائے ۔ آمین ۔
0 Comments