شعوری اور لاشعوری طور پر انسانی دماغ کیسے کام کرتا ہے ؟

Conces & Sub conces & Deep conces

انسانی شعور میں عام طور پر چیزیں باہر سے آتی ہیں ۔ اور دل و دماغ میں آکر جمع ہوتی رہتی ہیں ۔ جسکا ہمیں پتہ ہوتا ہے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ انسانی عادتیں ہیں ۔ اس کا ہمیں پہچان ہے۔ اور اس کا ہم گاہے بگاہے اپنے روز مرّہ کے رویوں میں اظہار بھی کرتے رہتے ہیں ۔

لاشعور یا فطرتِ ثانیہ Sub concise or Deep Concise

لاشعور میں چیزیں چھوپی ہوئی ہوتی ہیں ۔ جیسے کمپیوٹر میں چیپس ۔ ہم جو بچوں کے دماغ میں ڈاون لوڈ کرتے ہیں ۔ اس دماغ میں جو چیز بھرتے ہیں وہی محفوظ رہتا ہے ۔ یہ پیدائش سے 7 سال کی عمر تک کے بچوں کے دماغ میں جمع ہوتا رہتا ہے ۔

جس کا انسانی شخصیت پر بڑا گہڑا اثر پڑتا ہے ۔ اور یہ اچانک انسانی رویوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے ۔

انسانی دل اور دماغ کی تربیت کون کرتا ہے؟

ماں کی گود ۔ باپ کی شفقت وَ محبت ۔ گھر کا پورا ماحول ۔ رتشہ دار اور دوست یار اور احباب پروسی ۔ اسکول وَ مدرسہ اور کتابںیں ، میڈیا اور یہ سب ملکر بچے کی بنیادی تربیت کرتے ہیں ۔سماعت سے تربیت بصری تربیت یعنی انکھوں سے جو کچھ دیکھتے ہیں اور کان سے جو کچھ سُنتے ہیں اور حادثات اور روز مرہ کے واقعات سے جو کچھ سیکھتے ہیں وہی ان کی بنیادی تربیت ہوتی ہے ۔ خونی اور خاندانی وراسطی عادتیں بھی بچوں میں منتقل ہوتی ہے ۔ احساسات کے ذریعے بچہ اپنے دماغ میں سب کچھ ریکارڈ کرتا رہتا ہے ۔ یہ ساری چیزیں بچے کی دل و دماغ میں ریکارڈ ہو جاتی ہے اپنے ارد گرد کے ماحول سے ۔ بات چیت سے ۔ کھانے پینے کی چیزوں سے ۔ سونے اور جاگنے سے ۔ جسے فطرت ثانیہ بھی کہتے ہیں ۔ اس سے بھی بچے بہت کچھ سیکھتے رہتے ہیں ۔

آپ نے کیا سوننا ہے ؟ اور آپ کیا سُننا چاہتے ہیں ۔آپ کیا سننا پسند کرتے ہیں ۔ آپ نے کیا سمجھا ۔ اور آپ کیا سمجھنا چاہتے ہیں؟

آپ کے لاشعور میں آپ کے بڑوں نے کیا پروگرام ڈاون لوڈ کیا ہے ؟

انسانی احساسات کیا ہے؟یہ دل کی کیفیت کا نام ہے ۔ گھر کے ماحول باہر کےماحول اورفطرتی ماحول سے پروان چرھتا ہے

انسان بے حس کیوں کب اور کیسے ہوتا ہے؟ خود غرض کیوں کب اور کیسے بنتا ہے؟ مفاد پرست کب ، کیوں اور کیسے ہوتا ہے ؟ ظالم اور جابر کب ، کیوں اور کیسے ہوتا ہے؟ دوسروں کو بیوقوف بنا کر اس کا حق کب ، کیوں اور کیسے مار تا ہے ؟

احساس

احساس آپ کے اندر کی کفیت کا نام ہے ۔ جو دل ، دماغ روح کی گہرائی میں رچا بسا ہوا ہوتا ہے ۔ اور اس کو آپ صرف محسوس کر سکتے ہیں ۔ یا تو یہ آپ کے خون میں شامل ہے ۔ یا خاندانی وراست کا تحفہ ہوتا ہے یا بنیادی تعلیم و تربیت سے آپ کو ملتی ہے ۔ یا پس منظر سے آپ کو ملتی ہے۔

انسانی خیالات انسانی احساسات کا سایہ ہے

انسانی خیالات اپنے اپنے دل یا من یا طبیت کے اندر گفتگو کرنے کا نام ہے۔ یہ ایک ان کہی دھندلا سا سایہ ہوتا ہے ۔ جو کہ انکھوں سے نمایا اور ظاہر ہوتا ہے ۔ پیشانی کی سیلوٹیوں سے شکنوں سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ ایک باڈی لینگویج بھی ہے ۔

احساسات خیالات کو جنم دیتے ہیں اور خیالات الفاظ کو جنم دیتے ہیں اور اس سےواقعات رونما ہوتے ہیں اور اس طرح انسانی رویوں میں واضع تبدیلی آتی ہے ۔ ان ہی چیزوں سے انسان انسان کا دوست یاانسان انسان کا دشمن بنتا ہے۔

انسانی دماغ میں الفاظ آنے سے پہلے سامنے والے کی تصویر خیالات کی صورت میں اس کے ذہن میں آتی ہے ۔ اس کے خیالات اس کے دماغ میں آتے ہیں کہ یہ سامنے والا جو شخص ہے وہ کیسا ہے ؟ وہ ایسا ہے؟ وہ ویسا ہے یا تھا ؟پھر جا کر کہیں الفاظ آتے ہیں ۔

مثلاً : ۔ ایک شخص کورٹ کے کسی جج کے سامنے ایک بات کیسے کرتا ہے اور وہی شخص وہی بات اپنے ماتحت کے سامنے کیسے کرتا ہے ۔ اور اپنے دوستوں کے ساتھ کیسے کرتا ہے؟

اس کو کہتے ہیں شعوری گفتگو جو آدمی آدمی کو دیکھ کر بات کرتا ہے۔اپنے جذبے کا اظہار کرتا ہے ۔ لوگوں سے پیش آتا ہے ۔

اگر انسانی احساسات اور خیالات کو توانائی یا انرجی مل جائے تو انسان کو غصہ آتا ہے یا سامنے والے سے شکایت ہوتی ہے یا محبت ہو جاتی ہے یا نفرت کرنے لگتا ہے ؟

اور اگر احساسات میں اور اس کے خیالات میں کوئی جزبہ نہ ہو ۔کوئی انرجی نہ ہو ۔ کوئی تونائی نہ ہو ۔ کوئی طاقت نہ ہو تو انسان کے رویوں میں بھی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ۔ وہ ایک نارمل انسان ہوتا ہے ۔ ہر قسم کے منفی یا مثبت جزبات سے دور وہ شخص رہتا ہے ۔

انسانی رویوں میں تبدیلی کب آتی ہے؟

اس کا تعلق اس کے علم یا جانکاری سے ہے یا واسطہ پڑنے پر ہے ۔ یا اچھے یا برے سلوک یا برتاو یا الفاظ سے رویوں میں تبدیلی آتی ہے ۔ تجربہ ہے کہ فلاں شخص کیسا ہے؟ اب وہ جان گیا کہ سامنے والا شخص کیسا ہے؟ اور الفاظ وغیرہ کی ادائگی کی بنیاد پر بھی انسانی رویوں میں تبدیلی آتی ہے۔

منفی احساسات اور منفی خیالات کو اگر انرجی مل جائے تو انسان کو غصہ آتا ہے

وہ اپنے سے چھوٹوں پر جتنا ہو سکے ظاہری یا باطنی غصہ کرتا ہے ۔ ظلم و زیادتی کرتا ہے ۔ اور اپنے بڑوں سے اپنے دل میں نفرت تو کرتا ہے ۔ حسد کرتا ہے ۔ مگر اظہار نہیں کر سکتا ۔ کیوں کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے سے بڑوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے ۔مگر چھوٹوں کی شامت آتی ہے ۔

احساس کا سایہ خیال ہے ۔اور ان دونوں کو اگر طاقت مل جائے یا انرجی مل جائے یاکوئی اور موقع مل جائے تو اللّٰہ کی پناہ ۔ یا تو زندگی بن جائے گی یا زندگی بگڑ جائے گی ۔ یا تو اس میں خیر آئے گا یا شر آئے گا ۔ واللّٰہُ عالم بثواب ۔

محمد رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا :۔کسی کو پچھاڑ دینے والا بہادر نہیں

۔ بہادر تو وہ ہے جو غصے میں اپنے آپ کو قابو میں رکھے

راوی ابو ہریرہؓ ہیں ۔ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم

اس حدیث میں اپنے حریف اور دشمن کو معاف کرنے اور اس معاملے کو در گزر کرنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے ۔

آدمی طاقت رکھنے کے باوجود غصے کی حالت میں اپنے مد مقبل سے انتقامی کاروائی نہ کرے اور غصے جیسے نازک موقع پر اپنے آپ کو قابو میں رکھے ۔

حقیقت یہ ہے کہ نفس کا جہاد کفّار کے خلاف جہاد سے بھی مشکل ہے ۔

اسی بنا پر رسول ﷺ نے غصے کے موقع پر اپنے نفس پر قابو پالینے والے کو تمام لوگوں سے زیادہ طاقت رو اور قوی شمار کیا ہے ۔

اللّٰہ پاک ہمیں استقامت عطاء فرما، آمین


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *