پارٹ وَن

نبی ﷺ اپنے عہد نبوت میں مسلمانوں کے لیے محض ایک پیر و مُرشد اور واعظ نہیں تھے بلکہ عملاً اُن کی جماعت کے قائد۔ رہنُما ۔ حاکم ۔ قاضی ۔ شارع ۔ مُربّی معلّم اور سب کُچھ تھے ۔ عقائد و تصورات سے لیکر عمَلی زندگی کے تمام گوشوں تک مسلم سوسائیٹی کی پوری تشکیل آپ ہی کے بتائے ، سیکھائے اور مقرّر کیے ہوئے طریقوں پر ہوئی تھی

اس لیئے کبھی یہ نہیں ہوا کہ آپ ﷺ نے نماز۔ روز ے ۔ زکواة ۔ اور منسک حج وغیرة کی جو تعلیم دی ہو وہی بس مسلمانوں میں رواج پا گئی ہو اور باقی باتیں محض واعظ اور ارشاد میں مسلمان سُن کر کیا خالی خولی رة جاتے ہونگے ؟ بلکہ فی الواقع جو کچھ ہوا وة یہ تھا کہ جس طرح آپ ﷺ کی سیکھائی ہوئی نماز فوراً مسجدوں میں رائج ہوئی اور اُسی وقت جماعتیں اس پر قائم ہونے لگی ۔ بلکل اُسی طرح شادی بیاة ۔ طلاق و خُلاء کے مسائل ۔ والی و واریث ، وراثت و جائیداد کے مُتعلق جو قوانین آپ ﷺ نے مقرّر کیئے ۔ اُنہی پر اُسی وقت سے مسلم خاندانوں میں عمل درامد شروع ہوگیا ۔ لین دین کے جو ضابطے آپ ﷺ نے مُقرّر کیئے اسی وقت سے بازاروں میں عمل درامد شروع ہو گیا ۔ جو فیصلے آپ ﷺ نے کیئے وہی ملک کا قانون قرار پایا ۔ ہر قسم کے لڑائیوں میں جو معاملات آپ ﷺ نے دشمنوں کے ساتھ اور فتح پا کر مفتوح علاقوں کی ابادی کے ساتھ کیئے ۔ وہی مسلم مملکت کے ضابطے بن گئے ۔ اور فی الجملہ اسلامی معاشرة اور اس کا نظام حیات اپنے تمام پہلووں کے ساتھ ، اُنہی سُنتوں پر قائم ہوا ۔ جو آپ ﷺ نے خود رائیج کیں ۔ اور جنہیں پہلے کے مروج طریقوں میں سے بعض کو برقرار رکھ کر سُنت اسلام کا جُز بنا لیا ۔

Categories: Uncategorized

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *