اللّہ تعلیٰ سب کی محنت و کاوش کو قبول فرمائے ۔ آمین

خطابت اپنے مافیِ الضمیر کے اظہار اور اپنے جزبات و احساسات اور اپنی اندر کی کیفیت کو دوسروں تک مُنتقل کرنے اور عوامُ الناس کو اپنے افکار اور عقائد اور

نظریات کا قائل بنانے کے لیئے کامیاب اور موّثر ترین فن ہے ۔ اور اگر اس فن کو سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم مل جائے تو کیا کہنا ۔

یا رب دلِ مسلم کو وة زندة تمنّا دے جو روح کو تڑپا دے جسم کو گرما دے

اور اگر ایک حق گو با عمل قاَدرُ الکلام خطیب اور شاندار شعلہ بیںاں مُقرر مختصر وقت میں میڈیا اور جدید سآئنس & ٹکنالوجی کے زریعے مختصر وقت میں ہزاروں اور لاکھوں اور کروڑوں افراد تک حق کا پیغام پہنچا سکتا ہے ۔

سچائی پر مشتمل شعلہ بیانی خطباء موجودة بگرتے ہوئے حالات کو تبدیل کر سکتا ہے ۔ ہواوں کا رُخ تبدیل کر سکتا ہے ۔ معاشرئے میں سماجی اور اخلاقی انقلاب برپا کر سکتا ہے ۔ انسانی تمنّاوں کے خون کو گرما سکتا ہے ۔ انسانی سوچ اور سمجھ کو حقیقت پسند بنا سکتا ہے ۔ انسان کو با عمل با نصیب بنا سکتا ہے ۔ محنت اور جدوجہد کے زریعے اپنے حال کو بہتر بنا سکتا ہے ۔ یقین مُحکم عملِ پیرہن ایمان کے ساتھ زندة قوم بنا سکتا ہے ۔

اے بُلبُل کہ ہو تیرے ترنُم سے کبوتر کے تن و من نازُک میں شاہین کا جِگر پیدا

دور اسلام میں فن خطابت اپنے عروج اور بلندیوں کو چھوتے ہوے نظر اتا تھا ۔

خطابت کی مثال اس دھات کی سی ہے ۔ کہ جس میں اکثر استعمال سے نکھار اور اُبھار اجاتا ہے ۔ اسلام میں اسے بعض عبادات کا حصہ قرار دیا گیا ہے ۔ جیسا کہ خطبہ جمعہ اور عیدین کا خُطبہ اور نماز استسقاء اور سورج گرہن اور چاند گرہن کی نماز کے وقت خطبہ اور خطبہ حج وغیرة

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اُس دور کے طاغوت اکبر فرعون کو دعوت الیٰ اللّہ دینے کا حکم ملا تو اس فریضہ کی کما حقہ ادئیگی اور فرمان الہٰی کی بجا آوری کے لیئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جس چیز کی اس وقت اشد ضرورت محسوس کی ۔ وة ملکہ خطابت ہی تو تھا ۔ اُنہوں نے اللہ تعلیٰ سے دُعا کی کہ ۔

وَاحلُل عُقدَةً مِّن لِّسَنِی ۔ یَفتَھُو اقُولِی

سورة طة : 26 . 25 . سورة القصص : 34 ۔ ترجمعہ کہ مجھے فصیح اللسان بنا دے تاکہ وة میرے بیان کو سمجھ سکیں ۔ اور ساتھ ہی یہ استدعا کی بھی کی کہ میری تائید اور حمایت کے لیئے میرے بھائی ہارون کو بھی میرے ہمراة کر دیجئے کیونکہ وة مجھ سے برھ کر فصیح اللسان ہے ۔

اسی طرح 9 هجری میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر ؓ کو امیر حج مقرّر کر کے مسلمانوں کو فریضہ حج کی ادائگی کا حکم ارشاد فرمایا اور بعد میں جب سورة برات یعنی سورة توبہ نازل ہوئی تو حضرت علی ؓ کو حکم دیا کہ یہ سورة لے کر جائیں اور موسم حج میں لوگوں کو سُنایئں تو انہوں نے فوری طور پر جس امر کی ضرورت محسوس کی وة بھی اس فن کی اہمیت اور ضرورت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

مگر یہ سب صرف اللہ کو راضی کرنے کے لیئے ہو امین ۔ نمبر : 30

Categories: Uncategorized

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *