• اسلامی قانون
  • مسلمانوں کے عمومی زوال
  • قانون سازی
  • جرم و سزا کا اسلامی تصور
  • اسلامی قانون سازی کی ضرورت اور اہمیت کیوں

مسلمانوں کے عمومی زوال کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ دین اسلام سے مسلاموں کا رشتہ کمزور ہوگیا ہے ۔ آج مسلمانوں نے اسلام کے نظام قانون کو سرد خانے میں ڈال دیا ہے ۔ یہ اسلامی نظام حیات نہ صرف میری/ہماری زندگی کو خوبصورت بناتا ہے بلکہ ساری انسانیت کے لیے خوبصورتی کا سبب ہے۔ اور حیات جاویداں ہے ۔ اسلامی نظام میں پوری انسانیت کے لیے رہنمائی ہے ۔

افسوس سد افسوس: – آج مسلمان اپنا مقام بھول چکے ہیں ۔ اپنی بنیادی زمہ داری بھول چکے ہیں ۔ اپنا اصل کا م بھول چکے ہیں ۔ اپنی تاریخ کو بھول چکے ہیں ۔ اور انسانی نفس کے نظام پر چل رہے ہیں ۔ آج مسلمان اپنے اصلاف کی تاریخ کو بھول چکے ہیں ۔ اپنی تاریخ سے بے خبر ہیں ۔ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ہم کس خدائی منصب پر فائز ہیں ۔ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ہم کس خدائی نظام کو لیکر اس دنیا میں آئیں ہیں؟ ہماری بنیادی زمہ داری کیا ہے ؟ ہم دنیا کے لیے رہبر بنا کر بھیجے گئیے ہیں نا کہ تاغوت کے فالوور ؟

، مسلمان اپنا مقام بھول گئے، انہیں اپنی حقیقت کا عرفان نہ رہا ،انہیں یاد نہ رہا کہ وہ کس خدائی منصب اور خدائی نظام کو لے کر اس انسانی دنیا میں آئے ہیں؟ بلکہ وہ دنیا کی دوسری قوموں کی طرح صرف مادہ پرستی، دنیا طلبی کے میدان میں کود پڑے اور شیطانی نظام یہی چاہتاہے کہ دوسروں کو جگانے والی قوم خود سوجائے۔کاش کوئی ایسی صورت پیدا ہوتی کہ مسلمان پھر اپنے گھر کی طرف پلٹیں،اپنا کھویا ہوا خزانہ واپس لے لیتیں، انہیں ہمیں ایسی آنکھ نصیب ہو کہ، جو ہیرے موتی اور کنکر پتھر میں فرق کرسکیں اور وہ پوری ہوشمندی اور بصیرت کے ساتھ جان سکیں کہ انسانوں کا بنایا ہوا مصنوعی نظام کبھی خالق کائنات کے عطا کردہ قانونی نظام کا ہم پلّہ نہیں ہوسکتا ،پھر ۔ برابری نہیں کر سکتا ۔ یہ کیسی نادانی ہے کہ خالق کا راستہ چھوڑ کر مخلوق کے راستے پر چل رہے ہیں ؟ اللہ کے نظام حیات، نظام زندگی کو چھوڑ کر، مخلوق کے بنائے ہوئے نظام زندگی اور شیطانی راستے پر چل رہے ہیں ۔ الللہ کو چھوڑ کر مخلوق کے پیچھے دوڑ رہی ہے یہ قوم ۔

ارشاد باری تعلی ہے :- دنیا ولے آگ کی طرف بُلا رہے ہیں اور اللہ تمہیں جنَت کی طرف پکار رہا ہے ۔ سورۃ البقرۃ ۔

جُرم و سزا کا اسلامی تصورِ قانون

جرم وسزا کا اسلامی فلسفہ اور اسلامی قانون معاشرے میں عدل ومساوات اور امن و سلامتی کا ضامن ہے۔اسلامی شریعت اور اسلامی قانون ہر دور اور ہر عہد کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے ۔ موجودہ دور میں انتہا پسندی ،بدامنی ،دہشت گردی اور لاقانونیت کی بنیادی وجہ اسلامی قانون سے لا علمی ، لاتعلقی ، اسلامی شریعت سے انحراف اور اسلامی قانون پرعمل نہ کرنا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلامی قانون انسانی معاشرے کی فلاح و بہبود کا ضامن ہے اور اس میں تمام مسائل کا حل موجود ہے۔

اس ضمن میں ہمیں اسلامی قانون کے مزاج کو اپنے پیش نظر رکھنا بہت مفید اور دائدے مند ہوگا ، اس طرح اسلامی قانون کی افادیت اور اہمیت کو ہم اور اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔

اسلامی قانون میں تمام اقوام عالم اور دنیا کے ہر خطے کی نفسیات اور طبعی میلانات کی رعایت رکھی گئی ہے، خیال رکھا گیا ہے ۔ اسی مقصد کے پیش نظر اسلامی قانون کی تشکیل کے وقت چند بنیادی امور کا لحاظ کیا گیا جن سے اسلامی قانون کے ذوق ومزاج پر روشنی پڑتی ہے،مثلاً: پورا لحاظ کوئی ایسا حکم صادر نہ کیا جائے ایسا حکم نہ دیا جائے جو عام لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہو۔ عبادات میں طبعی رغبت و میلان کو اہمیت دی گئی اور ان تمام محرکات و عوامل کی اجازت دی گئی ہے جو اس میں معاون و مددگار ثابت ہو۔ بشرطیکہ ان میں کوئی قباحت نہ ہو۔ جو چیزیں طبع سلیم پر گراں گزرتی ہیں، انہیں ممنوع قراردیا گیا ہے ۔ تعلیم وتعلّم اور علم و اُستاد اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو دائمی شکل دی گئی ہیں ۔ تاکہ انسانی فطرت کو اسلامی مزاج کے مطابق ڈھالنے میں مدد ملتی رہے۔ بعض احکام کی ادائیگی میں عزیمت اور رخصت دی گئی ہے، یعنی چھوٹ دی گئی ہیں ۔

اس کے دو درجے مقرر کی گئی ہیں :- تاکہ انسان اپنی سہولت کے مطابق جسے چاہے اختیار کرے۔ بعض احکام میں رسول اللہ ﷺسے دو مختلف قسم کے عمل منقول ہیں اور حالات کے پیش نظر دونوں پر عمل کی گنجائش رکھی گئی۔ بعض برائیوں میں مادّی نفع سے محروم کرنے کا حکم دیاگیا ہے ۔ احکام کے نفاذ میں بتدریجی ارتقا کو ملحوظ رکھا گیا ہے ، یعنی۔

ایک ہی وقت میں تمام احکام نافذ نہیں کردئیے گئے اور نہ ساری پابندیاں عائد کردی گئیں۔

انسانی تعمیری اصلاح میں قومی اور معاشرتی کردار کی پختگی اور انسانی ، بشری خامی کو ملحوظ رکھی گئی ہے ۔ اسی لیے ان کو اس میں حالات کے لحاظ سے رعایت اور چھوٹ دی گئی ہے ۔ نیکی کے زیادہ تر اعمال کی مکمل تفصیل بیان کردی گئی اور اسے انسانوں کی فہم پر نہیں چھوڑا گیا ورنہ بڑی دشواری پیش آتی۔ بعض احکام کے نفاذ میں حالات کی رعایت کی گئی اور بعض میں اشخاص وافراد کی۔

قرآن وحدیث میں متعدد صراحتیں اور ا شارے ایسے موجود ہیں جن سے مندرجہ بالا ذکر کردہ اصولوں پر روشنی ڈالی گئی ہے،

مثلاً:ترجمہ :- اللہ ہی کی رحمت سے آپ ان کے لئے اتنے نرم دل ہیں، اگر آپ ترش رو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے چلے جاتے ۔

(سورہ ٔآل عمران)سورۃ البقرہ میں ہے: ”اللہ کسی شخص کو اس کی قدرت وطاقت سے زیادہ مکلّف نہیں بناتا۔اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے دشواری اور تنگی نہیں چاہتا۔‘‘

ترجمہ: ’’اللہ نے دین کے معاملے میں تمہارے لئے کوئی تنگی نہیں رکھی‘‘۔

(سورۃ الحج)ترجمہ: ’’اللہ نہیں چاہتا کہ تمہیں کسی دشواری میں مبتلا کرے، بلکہ اس کا مقصد تمہیں پاک وصاف کرنا ہے‘‘۔ (سورۃ المائدہ)

رسولِ اکرم ﷺ نے حضرت موسیٰ اشعری ؓاور حضرت معاذ بن جبل ؓکو دینی معاملات کا انتظام سپرد کرتے وقت فرمایا: ترجمہ: آسانی پیداکرو، مشکل میں نہ ڈالو، رغبت دلاؤ، نفرت نہ دلاؤ، جذبہٴ اتحاد واتفاق کو فروغ دو۔(متفق علیہ)ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:’’میں آسان دین حنیف دے کر بھیجا گیا ہوں‘‘۔(مشکوٰۃ)ابن ماجہ کی روایت میں ہے: ’’اسلام میں نہ کسی کو تکلیف پہنچانا ہے اور نہ خود تکلیف اٹھانا ہے‘‘۔

آپﷺ کا عام دستور تھا کہ جب آپ ﷺکو دو چیزوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا جاتا تو آپ ﷺاس میں آسان تر کو اختیار فرماتے، بشرطیکہ اس میں گناہ نہ ہوتا۔ ا

ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہؓنے حضرت ابن عباس ؓسے پوچھا کہ دین میں تنگی نہ ہونے کا کیا مطلب ہے؟ جب کہ ہمیں بدکاری، چوری اور دوسری بہت سی سفلی خواہشات کی چیزوں سے روک دیاگیا ہے،

حضرت ابن عباسؓ نے جواب دیا، تنگی نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ سخت قسم کے جن احکام کا جو بوجھ بنی اسرائیل پر تھا ،وہ اس امت پر نہیں ہے۔(کشاف ص ۲۹۲، تفسیر کبیر ج۶ ص ۱۲۸)ان آیات واحادیث سے اسلامی قانون کا مزاج سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے اور عام انسانی مفادات کے لیے اس میں کتنی گنجائش ہے، اس کا اندازہ ہوتا ہے۔علاوہ ازیں ۔

اسلامی قانون میں جو جامعیت، ابدیت، معنویت، زندگی، نفاست اور ہر دور کے حالات پر اس کی تطبیقی صلاحیت پائی جاتی ہے ،وہ دنیا کے کسی قانون میں نہیں ہے، اسی لئے ہر عہد میں اسی کو قیادت کا حق بنتا ہے۔

انسانی قانون قوت نفاذ کے لحاظ سے بھی کمزور واقع ہوا ہے، اسے اپنے افراد پر مکمل قابو نہیں ہوتا اور نہ تنہا قانون جرائم کے انسداد کے لئے کافی ہوتا ہے، اسے اپنے کسی بھی قانون کے عملی نفاذ کے لئے مضبوط معاونین کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لئے اس قانون میں مجرموں کے بچ نکلنے کے بہت سے امکانات موجود ہوتے ہیں۔

اس کے برخلاف اسلامی قانون کا آغاز ہی فکر آخرت اور حلال و حرام کے احساس سے ہوتا ہے ،وہ انسانی ضمیر کی تربیت کرتا ہے اور اس کے ظاہر وباطن کو قانون کے لیے تیار کرتا ہے، وہ اپنے ہر شہری کے دل ودماغ میں یہ احساس راسخ کرتا ہے ۔

کہ ترجمہ: ’’تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی متعلقہ ذمہ داری کے بارے میں بازپُرس ہوگی‘‘۔(متفق علیہ)

رسول اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:’’میں ایک انسان ہوں، میرے پاس مقدمات آتے ہیں، ممکن ہے کہ کوئی فریق اپنے مدمقابل سے زیادہ چرب زبان ہو اور میں اس کے ظاہری دلائل کی بناء پر اسے سچ گمان کروں اور اس کے حق میں فیصلہ کردوں ،اس لئے اگر میں کسی بھائی کے لیے دوسرے مسلمان بھائی کے حق کا فیصلہ کردوں تو محض فیصلے کی بنا ءپر وہ درست نہیں ہوجائے گا ،وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہوگا جو چاہے لے اور جو چاہے، چھوڑ دے‘‘۔(مشکوٰۃ)

ملک کے نظام کو چلانے کے لیے انسان صدیوں سےآئین و قانون سازی کر رہا ہے

صدیوں سے انسان قانون سازی کے میدان میں کوشش کررہا ہے ،اگرچہ اس میں اللہ کے قوانین سے بڑی حد تک استفادہ حاصل کیا گیا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ابھی تک کوئی ایسا مکمل قانون وضع یا بنایا نہں جا سکا ، جسےانسان ناقابلِ ترمیم قرار دے اور انسانی جذبات وافعال کا مکمل آئینہ دار ہو اور مکمل ترجُمان ہو ۔ اسے کمپیلیٹ مکمل آئین و قانون کہا اور سمجھا جاسکے۔ ایسا بلکل نہیں ہے اور نہ ہی قیامت تک ہو سکتا ہے ۔

یہ صرف اسلامی قانون ہے جو اپنے آپ کو کامل ومکمل بھی کہتا ہے اور ناقابل تنسیخ بھی قرار دیتا ہے۔اور ناقابل ترمیم بھی قرار دیتا ہے ۔ سورۃ : – ترجمہ –’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمتیں تمام کردیں اور بحیثیت دین ،اسلام کو پسند کیا‘‘۔(سورۃ المائدہ)ترجمہ: ’’اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جس میں ہر چیز کا واضح بیان اور مسلمانوں کے لئے ہدایت ورحمت وبشارت موجود ہے‘‘۔ (سورۃ الاعراف)

قرآن ایسے اصول وکلّیات سے بحث کرتا ہے جن پر ہر زمانے اور ہر خطّے میں پیش آنے والی جُزئیات کو شامل کیا ہے اور ہر دور کے حالات و واقعات کو قرآنی نظائر کی روشنی سےحاصل کیا گیا ہے ۔

قرآن کا یہ دعویٰ واقعات وتجربات کی روشنی میں بالکل درست ثابت ہو رہا ہے ۔ سورۃ الزُّمر :-

اس کا ترجمہ یہ ہے کہ :- اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر طرح کی مثالیں بیان کردی ہیں ۔ اس حقیقت کا اعتراف مغربی ماہرین نے بھی کیا ہے کہ شریعتِ اسلامیہ میں زندگی کے تمام مسائل ومشکلات کے حل کی پوری صلاحیت موجود ہے


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *