کرپشن بے ایمانی یا بدعنوانی

کرپشن:- بدعنوانی، بے ایمانی، ذاتی فائدے کے لیے اختیارات کا ناجائز استعمال. رشوت لینا یا دینا، امانت میں خیانت، غبن، دھوکہ دہی، بدچلنی، اخلاقی بگاڑ، فساد، اثر و رسوخ کا غلط استعمال۔ کرپشن کا مطلب ہے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا۔ بد دیانتی، ایمان داری کے برخلاف عمل کرنا۔کرپشن سے معاشرے میں عدم مساوات اور بے انصافی پیدا ہوتی ہے۔ انہی خرابیوں کو کرپشن کہتے ہیں۔

کرپشن ایک مزاج بن چکا ہے

کرپشن سے مراد؟ غیر قانونی، غیر اخلاقی اور بے ایمانی پر مبنی رویہ ہے جس میں کوئی فرد، خاص طور پر جو لوگ با اختیار عہدے پر فائز ہیں جیسے سرکاری افسر یا سیاست دان۔ اپنے منصب یا طاقت کا ناجائز استعمال ذاتی فائدے یا کسی دوسرے غیر قانونی مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

کرپشن کیا ہوتا ہے؟ Corruption

کرپشن کا لفظ خراب، ٹوٹے ہوئے، عیبی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، مشہور فلسفی ارسطو اور بعد میں سسرو نے اسے بدعنوانی کے معنوں میں استعمال کیا۔ یعنی رشوت لینا، اپنے اختیارات کا نا جائز فائدہ اٹھا کر کسی دوسرے کا وہ کام کرنا جس کا وہ اہل نہیں ہے۔

رشوت ایک کرپشن


رشوت لینا:- دوسروں سے پیسے یا کوئی اور مراعات لے یا کوئی ناجائز فائدہ حاصل کرے۔ تاکہ ان کا وہ کام کیا جا سکے جس کا وہ اہل نہیں ہے۔ رشوت سے مراد یہ بھی ہے کہ اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنا فائدہ حاصل کیا جائے۔

اختیارات کا غلط استعمال :- اپنے عہدے یا اختیار کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال عام ہو چکا ہے۔

 کرپشن بدعنوانی آج کل سیاست میں بہت زیادہ آچکا ہے۔

مالی کرپشن اور اقربا پروری جیسے امراض اب ہمارے ملک و معاشرے میں اتنے زیادہ سرائیت کرگئے ہیں کہ اب یوں لگتا ہے کہ کوئی معجزہ ہی ہمیں ان امراض سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔

کرپشن اب کوئی بُرائی نہ رہا؟

کرپشن کو ہم نے دل سے قبول کر لیا ہے:- آزادی کے فوراََ بعد جس طرح وطن عزیز میں زمین کے بدلے زمین، متروکہ املاک و جائداد کی لوٹ گھسوٹ اور قبضہ گردی۔ رشوت خوری، سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال۔ غیر قانونی عمل عام ہوگیا۔ لامحدود اختیارات کا استعمال شروع ہوگیا۔ ملک و معاشرے میں جانبدارآنہ رویہ اور اقربا پروری عام ہوچکی ہے۔ اب کسی قسم کی برائیوں کو برائی نہیں سمجھا جارہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں برائی کو مجبوری سمجھا جا رہا ہے۔ خوفناک صورتحال یہ ہے کہ آج کرپشن کو ہمارے معاشرے نے دل سے قبول کرلیا ہے۔

اگر جزا اور سزا کا تصور ہی ختم ہوجائے؟

ہر شخص کو اپنے اعمال کی سزا خود بھگتنا ہوگی :- جس معاشر ے میں جزا اور سزا کا تصور ختم ہوجائے اُس معاشرے کو کون برائی سے بچا سکتا ہے؟ اگر یہ اصول ہو گا تو زمین پر فساد ازخود برپا ہوجائے گا۔ ہر ایک کو ایک دوسرے سے شکایت شروع ہوجائے گی۔ کسی کو کسی کی پرواہ نہیں۔ ہر ایک شخص غیر زمہ دار ہوجائے گا۔

مشرکین کا عقیدہ؟

مشرکین کی سوچ:- مکہ کے مشرکین کی سوچ یہی تھی۔ اُن کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس لیے زندگی یہی دنیا کی زندگی ہے۔ اس میں جو کچھ کر سکتے ہو کر لو۔ وہ بار بار پوچھتے تھے کہ جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے، خاک میں مل جائیں گے، راکھ بن جائیں گے تو پھر دوبارہ کیسے اٹھائے جائیں گے؟

اللّہ پاک کا فرمان

اللہ تعالیٰ :- اللّہ سبحان تعلیٰ نے ان تینوں فلسفوں کو رد کیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ نہ کسی نسبت کی وجہ سے گناہوں سے چھٹکارا ملے گا، نہ کی دوسرے کا کوئی کفارہ کام آئے گا اور نہ ہی موت کی وجہ سے کوئی انسان اپنی بداعمالیوں کی سزا سے بچ سکے گا۔ بلکہ ہر شخص کو اپنے اعمال کی جزا اور سزا کے مرحلہ سے گزرنا ہوگا اور جس شخص نے بھی کوئی برا کام کیا اسے اس کا بدلہ مل کر رہے گا

نبی صلی اللّہ علیہ وسلم فرماتے ہیں؟

 نبی اکرم صلی اللّہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنی پھوپھی حضرت صفیہؓ، اپنے چچا حضرت عباسؓ اور اپنی سب سے لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اس خیال میں نہ رہنا کہ رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم سے تعلق داری ہے لہٰذا کچھ نہیں کہا جائےگا، بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی کام آئے گی اس لیے ایسے اعمال کرتے رہنا جو اللّہ تعالیٰ کی رحمت کا باعث بنتے ہیں۔

ہر ادارے میں کرپشن

ملک سے ہجرت کی فکر:-ہر ادارہ کرپشن اگر اپنے ملک کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پچاس کی تاریک دہائی سے شروع ہونے والے عہدِ زوال سے قبل کا معاشرہ قدرے محفوظ تھا۔ آج کرپشن کے میگا اسکینڈل ہر طرف پھیلتا جارہا ہے۔ کرپشن بد امنی دیکھنے اور سننے کو ہر طرف مل رہے ہیں۔ آج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک عزیز کا ہر ادارہ کرپشن جیسی لعنت کی گرفت میں آچکا ہے۔

پیسہ کما کر باہر جانے کی کوششوں میں لگے لوگ

ملک سے ہجرت کی فکر:-وطن عزیز کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہر چھوٹا بڑا افسر، چاہے وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو۔ اس ملک سے جلد از جلد پیسہ کما کر باہر جانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ آج کے وطن میں افسران، سرماری داروں کی بڑی تعداد بیرون ملک شفٹ ہوچکی ہے۔ اور ساتھ ہی وہ اپنے ساتھ اثر و رسوخ سے حاصل کردہ ناجائز دولت کو بیرون ملک منتقل کرچکے ہیں۔

آئین اور قانون سے ماورا ادارے

اُن کے نزدیک قانون کی کوئی باسداری نہیں:- آزادی کے بعد تقریباً کئی دہائیوں تک ملک کے حکمرانوں کی بیرون ملک بیش قیمت جائیدادوں کا سراغ بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتے تھے۔ لیکن آج صورتحال کے برعکس ہے۔ آج اس حمام میں سب ننگے ہیں ایک جیسے ہیں۔۔ جن حکمرانوں نے اس ملک سے اس ناسور کو ختم کرنا تھا وہ خود اُس ناسور کے مریض بن گئے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سرکاری ادارے آئین اور قانون سے ماورا ہو چکے ہیں۔ اُن کے نزدیک آئین اور قانون کی کوئی پروہ نہیں۔

کرپشن کی انتہا

رشوت کرپشن عروج پر:- ایک سابق وزیراعظم کا ٹی وی پر یہ بیان کہ ایوان بالا یعنی سینیٹ کے آدھے سے زیادہ ممبران صرف پیسے دے کر سینیٹر منتخب ہوئے ہیں، یہ اس ملک کےلیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جب لوگ صرف پیسے کے بل بوتے پر حکومتوں میں شامل ہوں گے تو نتیجتاً وہ اپنے منظور نظر افراد کو ہی اہم عہدوں پر تعینات کروائیں گے اور مالی بدعنوانیوں میں بھی ملوث ہوں گے۔ آج ہمارا معاشرہ اس حد تک گرگیا ہے کہ ایک علاقے کا ایس ایچ او بھی اپنی پوسٹنگ پیسے دے کر اور سفارش کروا کر مطلب کا تھانہ لے رہا ہے۔

کرپشن کے جدید طریقے؟

کرپشن کے نئیے طریقے:- جو اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے کسی دوسرے شخص کو ناجائز فائدہ یا نقصان پہنچائے۔ کرپٹ ریجیم نے کرپشن کے بھی جدید طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔ جس کی وجہ سے مجرم تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔

کرمنلز بھی محفوظ نہیں ہیں

اس ملک کے ساتھ جو سلوک آمروں اور حکمرانوں نے کیا ہے۔ اس کے نتائج اب یہ نکل رہے ہیں کہ آج ان حکمرانوں کے بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔ مگر اُن کی بیرون ملک جائیدادوں میں ضرور اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی دیکھیں کہ آج ہمارے ملک کا کوئی ادارہ یا عدالت ناقابل تردید ثبوتوں کے باوجود کرمنلز کو سزا نہیں دے پا رہا ہے۔

کرپشن اس کو بھی کیتے ہیں

کرپشن:- بدعنوانی، بے ایمانی، ذاتی فائدے کے لیے اختیارات کا ناجائز استعمال. رشوت لینا یا دینا، امانت میں خیانت، غبن، دھوکہ دہی، بدچلنی، اخلاقی بگاڑ، فساد، اثر و رسوخ کا غلط استعمال۔ کرپشن کا مطلب ہے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا۔ دیانت داری اور ایمان داری کے برخلاف عمل کرنا۔ جس سے معاشرے میں عدم مساوات اور بے انصافی پیدا ہوتی ہو اُس کو کرپشن کہتے ہیں۔

کرپشن معاشرتی بگاڑ

کرپشن معاشرت کا حصہ بنتا جا رہا ہے:- بدعنوانی، بے ایمانی، ذاتی فائدہ، اختیارات کا استعمال. رشوت، امانت، خیانت، غبن، فساد، اثر و رسوخ، بددیانت، عدم مساوات، بے انصافی۔

کرپشن بے ایمانی بدعنوانی کا خاتمہ کیسے ہو؟

بدعنوانی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟

بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ایک مضبوط عدالتی نظام، شفافیت اور جواب دہی کا موثر نظام ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ عوام میں شعور بیدار کرنا، قوانین کا نفاذ اور سخت سزائیں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں۔ بدعنوانی کا خاتمہ ایک خوش حال اور ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل کے لیے ناگزیر ہے۔


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *