اصلاحِ معاشرہ میں علماے کرام کا کردار – معاشرے میں علماء کا کردار۔ معاشرے میں علماء کرام اور دینی مدارس کا کردار۔ دور حاضر میں علماء کا کردار – اصلاح معاشرہ کیوں اور کیسے؟ علماء کا مقام اور اُن کی زمہ داریاں؟ قیام امن میں علماء کا کردار ؟ معاشرے کی تشکیل میں علماء اور مساجید کا کردار؟ علما کا عمل دخل کیا ہونا چاہیے؟
کسی بھی معاشرے کا بنیادی یونٹ اس معاشرے کا خاندانی نظام ہے اور اس معاشرے کو بنانے کے لیے تین بہت اہم کردار ہیں جو اسے مہذب اور تعلیم یافتہ بناتے ہیں، جن میں اساتذہ کرام، علماء کرام اور والدین۔ ان تینوں کا کردار ایک معاشرے کی تشکیل میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔
اگر ہم صرف علمائےکرام کا ذکر کریں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ ایک مہذب معاشرے میں علماء کرام کا کردار ایک قابل احترام ہستی کے طور پر مانا جاتا ہے۔ علماء کرام کی سب لوگ عزت کرتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ انہوں نے انسانی زندگی کا وہ درس انسانوں تک پہنچانا ہوتا ہے۔ جو انبیاء کرام علیہ السلام کی ذمہ داری تھا اور وہی علم جو انبیاء کرام علیہ السلام نے اپنی امتوں کو دیا وہی پیغام علماء کرام کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے۔
قیام پاکستان سے پہلے بھی اور قیام پاکستان کے بعد بھی پاکستان میں بہت سارے علماء کرام آئے اور انہوں نے اپنا ایسا کردار نبھایا جس کو نسلیں آج تک یاد رکھتی ہیں اور بہت سے علماء کرام بھی مسلمانوں اور ہمارے معاشرے کے لوگوں کی تعلیم و تربیت میں اپنا بہترین کردار ادا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: “اللہ ان لوگوں کے درجات بلند کرے گا جو ایمان لائے اور جنہیں علم عطا کیا گیا” (المجادلہ58:11)
حدیث سیره نبوی صلی الله علیه و آله وسلم میں آیا ہے: “علماء انبیاء کے وارث ہیں” (ابو داؤد، ترمذی)
چونکہ نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے اور ہمارے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے اللہ تعالی کا پیغام ہم تک مکمل انداز میں پہنچا دیا ہے۔ بالکل اسی طرح اس پیغام کو آگے نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے علماء کرام کا کردار انتہائی اہم ہے۔
دور حاضر میں علماء کا کردار: اور آج کا دور جو مکمل طور پر میڈیا اور جدید مواصلاتی نظام سے لیس ہے، اس دور میں علماء کرام کا کردار اور بھی زیادہ اہم ہو جاتا ہے کیونکہ ہماری نوجوان نسل کا بڑا حصہ بلکہ یوں کہیں کہ تقریبا تمام نوجوان اور بچے سوشل میڈیا پر اس قدر مصروف عمل ہیں کہ ان کو تعلیم تربیت کے لیے ہر مواد کا حصول سوشل میڈیا کے ذریعے ہی دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ اس لیے اگر علمائے کرام بھی اپنے آپ کو جدید علوم سے لیس کر کے اس میڈیا کے ذریعے اپنا پیغام ان لوگوں تک پہنچائیں تو میرے خیال سے ان کا پیغام پوری دنیا کے انسانوں تک بہت آسانی کے ساتھ پہنچ سکتا ہے۔ میڈیا کی طاقت یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے پیغام کو بہت اچھے طریقے سے نوجوانوں میں منتقل بھی کیا جا سکتا ہے۔
اگر ہم معلوماتی انداز سے جائزہ لیں تو ہمیں اس بات کا اندازہ ہوگا کہ کہ کئی دہائیوں سے علماء کرام ٹی وی اور میڈیا کے ذریعے اپنا کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں،بہت سے اساتذہ اور علماء کرام میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ منسلک ہیں اور انہوں نے اپنا بہت مثبت کردار ادا کیا ہے۔
ٹی وی چینل کا اجراء: اہل حق کا اپنا ٹی وی چینل ہونا ضروری ہے جہاں انتظامی امور سے لے کر صحافیوں کی تعلیم اور ٹریننگ بھی اسلامی انداز سے ہو۔ جس میں سچائی، دیانتداری اور خوف خدا کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہر کوئی اپنی ذمہ داری بخوبی انجام دے۔ ایسا ٹی وی چینل جس میں اسلام کے پیغام کو صحیح معنوں اور اسلام کو خالص انداز میں دنیا میں پھیلایا جائے۔ یہ اسلام کی تبلیغ اور ترویج کا بہترین موقع ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان شاء اللہ۔
مسلم دنیا کی نامور سیاسی و علمی شخصیت ، ڈاکٹر عبد اللّٰہ عبد المحسن الترکی جو چندسال سے رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل کے فرائض انجام دے رہے ہیں، 22 نومبر 2015ء کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی دعوت پر اسلام آباد تشریف لائے۔ اس موقع پر اُنہوں نے بین المذہبی مکالمہ کے موضوع پر کی بین الاقوامی کانفرنس کے علاوہ اپنے اعزاز میں دیے گئے متعدد استقبالیوں میں شرکت کی، جبکہ اسلامی یونیورسٹی میں ’دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خاتمے میں علماے کرام کا کردار‘کے عنوان پر پاکستان بھر سے تشریف لانے والے علماءاور اہل علم ودانش کے نمائندہ اجتماع سے بھی خطاب کیا۔ فیصل مسجد سے ملحقہ شریعہ اکادمی کے سیمینارہال میں منعقد ہونے والے اس مذاکرہ میں سینیٹر راجہ ظفر الحق، ترکی کے نائب وزیر مذہبی اُمور،مولانا سمیع الحق، پروفیسر ساجد میر، ڈاکٹر احمد یوسف دُریویش، شیخ محمد سعد دَوسری، محمد عبدہ عتین ، مولانا یٰسین ظفر، صاحبزادہ ساجد الرحمٰن اورڈاکٹر سہیل حسن سمیت یونیورسٹی اور جامعات کے فاضل اساتذہ کرام نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر راقم الحروف کے مقالہ کا متن ،بعض اضافہ جات کے ساتھ ذیل میں ہدیۂ قارئین ہے …
’اسلامی معاشره‘ ایک نظریاتی معاشرہ ہے جس میں بسنے والے مسلمان اسلامی عقائد اور مسلم نظام حیات کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں۔ اسلامی معاشرہ انسانی حاکمیت کے بجائے اتباع واطاعتِ الٰہی پر مبنی ہوتا ہے۔ اور اس نظامِ اطاعت کی وضاحت علماے کرام کرتے ہیں، اور حکام ووالیان ِامر اس نظام کی تنفیذ کرتے ہیں۔ قرآن وسنت کے بیان کردہ دائرہ کار میں ہی حکام کی اطاعت مشروع ہے، اگر وہ اللّٰہ کے حکم کی نافرمانی کریں تو ان کی اطاعت کی ضرورت نہیں، گویا حکام کی اطاعت کی بنیاد بھی کتاب وسنت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ نبی کریمﷺ نے آگ میں کودجانے کے حکم پر مشتمل مشہور واقعہ میں ارشاد فرمایا:
لاَ طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي المَعْرُوف
’’اللّٰہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں، طاعت تو معروف معاملہ میں ہے۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ اطاعت ولی الامر والی آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:
فإذا أمروا بمعصية الله فَلَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ فَإِنْ تَنَازَعُوا فِي شَيْءٍ رَدُّوهُ إلَى كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ ﷺ، وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ وُلَاةُ الْأَمْرِ ذَلِكَ، أُطِيعُوا فِيمَا يأمرون به من طاعة الله ورسوله، لِأَنَّ ذَلِكَ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ﷺ، وَأُدِّيَتْ حقوقهم إليهم كما أمر الله ورسوله، قال تعالىٰ: ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾[3]
’’اگر حکام اللّٰہ کی معصیت کا کوئی حکم دیں، تو خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں ۔ اگر خالق ومخلوق میں کوئی اختلاف ہوجائے تو وہ اس اختلاف کا فیصلہ کتاب وسنت کی روشنی میں کریں گے۔ اگر حکام ایسا نہ کریں تو ان کی اسی امر میں اطاعت کی جائے جہاں وہ اللّٰہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت کا مطالبہ کریں کیونکہ یہ دراصل اللّٰہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت ہی ہے۔اور حکام کے حقوق ادا کئے جائیں گے، جیسا اللّٰہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے: نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو، اور گناہ وسرکشی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔‘‘
اس لحاظ سے مسلم معاشرہ میں علمائے کرام کی اہمیت غیرمعمولی ہے کیونکہ کتاب وسنت کا کسی معاملہ پر اطلاق اُن کی تشریح ورہنمائی کا ہی محتاج ہے۔ معاشروں کی صلاح وفلاح اور حکمرانوں کی اطاعت کے باب میں ان کی ہدایت ورہنمائی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ شیخ الاسلام احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
وَأُولُوا الْأَمْرِ صِنْفَانِ: الْأُمَرَاءُ وَالْعُلَمَاءُ، وَهُمْ الَّذِينَ إذَا صَلَحُوا صَلَحَ النَّاسُ، فَعَلَى كُلٍّ مِنْهُمَا أن يتحرّى بما يَقُولُهُ وَيَفْعَلُهُ طَاعَةَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَاتِّبَاعَ كِتَابِ اللَّهِ. وَمَتَى أَمْكَنَ فِي الْحَوَادِثِ الْمُشْكِلَةِ مَعْرِفَةُ مَا دَلَّ عَلَيْهِ الْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ كَانَ هُوَ الْوَاجِبَ[4]
’’مسلم معاشرے کے اُولی الامر دو قسموں پر ہیں: حکام اور علما… جب ان دونوں کی اصلاح ہوگئی تو عوام کی بھی اصلاح ہوجائے گی۔ ان دونوں کو اپنے قول وکردار میں اللّٰہ اور اس کے رسول کی اطاعت او راتباع کی جستجو کرنا چاہیے۔اور جب بھی مشکل مسائل میں کتاب وسنت کے دلائل کی معرفت ممکن ہو تو اُسی کو لینا ضروری ہے۔‘‘
غرض مسلم معاشرے کی صلاح وفلاح، علما واُمراء کی صلاح پر موقوف ہے۔ کیونکہ ایک نظریۂ حکم واضح کرتے ہیں تو دوسرے اس کی تنفیذ کرتے ہیں۔ وہی مسلم معاشرے دین ودنیا میں کامیاب وکامران ہوتے ہیں جہاں اُمراء وعلما ہم آہنگی کے ساتھ معاشرے کو درست سمت لے کر چلتے ہیں۔
منصبِ رُشد وہدایت
اس بات کو ایک اور انداز سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ اسلام میں منصب ِنبوت سب سے اہم اور برتر حیثیت رکھتا ہے، جس پر تمام اُمور کا ابلاغ اور تشریح وتشکیل موقوف ہے۔ نبی کریمﷺ نے حیاتِ طیبہ میں تین بنیادی فرائض انجام دیے:
1. رسالت: اللّٰہ سے وحی کی صورت میں ہدایات لے کر بطورِ رسول بنی نوع انسانیت تک پہنچائیں۔
1. اُسوۂ حسنہ: صرف ہدایات ہی نہ دیں، بلکہ ان پر عمل کرکے دکھایا، اور ایک مبارک اُسوۂ حسنہ دیا۔
3. تبلیغ : اور پھر اپنے قول وعمل اور زبان سے اس پیغام رسالت کو پھیلانے کی تمام تر مساعی بروئے کار لائے۔
نبی کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ اور پیغمبرانہ جدوجہد کو اِن تین دائروں میں مختصراً سمیٹا جاسکتا ہے۔ ایک عالم دین بھی انہی مقاصد کے لیے مصروفِ کار ہوتا ہے اور یہی اس کا مطمح حیات ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماے حق کو بزبانِ رسالت انبیاے کرام علیہم السلام کا وارث قرار دیا گیا ہے۔ جیساکہ صحیح بخاری میں ایک باب کا عنوان یوں قائم کیا گیا ہے:
باب العِلْمُ قَبْلَ القَوْلِ وَالعَمَلِ لِقَوْلِ اللهِ تَعَالَى:﴿فَاعْلَمْ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ…﴾ فَبَدَأَ بِالعِلْمِ «وَأَنَّ العُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ، وَرَّثُوا العِلْمَ، مَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ…»[5]
’’باب کہ علم کا مقام ، قول وکردار سے پہلے ہے۔کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا: ’’اے نبی ! جان لیں کہ اللّٰہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔‘‘ سو اللّٰہ تعالیٰ نے عمل (استغفار )سے قبل عِلم (توحید) کو بیان فرمایا۔اور فرمان نبوی ہے : کہ علماء انبیاے کرام کے وارث ہیں، انبیا نے علم کی وراثت دی ہے۔ جس کو علم مل گیا، اسے بہترین نعمت میسر آگئی۔‘‘
گویا کسی بھی مسئلے ومعاملے پر عمل درآمد سے قبل علم ونظریہ کو بیان کرکے نکھارا جاتا ہے اور اس کی روشنی میں عمل کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ قرآن بھی اپنے ماننے والوں سے عقل وبصیرت کا مطالبہ کرتا اور سوچے سمجھے بغیر مسلمانوں کو آیاتِ قرآن کی اتباع سے بھی روکتا[6] ہے۔اس لحاظ سے علماے کرام انبیا ورُسل کے وارث ہیں، جو کتاب وسنت کی تشریح کرتے ہیں، حالات پر ان کا اطلاق کرتے ہیں اور پھر حکام ووالیان ان تشریحات کی روشنی میں افراد ومعاشروں کے لیے اپنی زندگیاں سنوارنے کا عملی نظام قائم کردیتے ہیں۔
کسی بھی فرد واجتماع پر اُس کے مسلمہ عقائد ونظریات کی حکومت ہوتی ہے۔ بہت سے انسانوں سے ایک معاشرہ اور حکومت وملت تشکیل پاتی ہے۔ انسان جس نظریہ کا حامل ہوتا ہے، اپنے قول وکردار سے اسی پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ اس عقیدہ ونظریہ کی سب سے مؤثر تشکیل کتاب وسنت کے ذریعے ہوتی ہے۔ اللّٰہ کے قرآن اور نبی کے فرمان سے بڑھ کر کوئی ایسا مؤثر ذریعہ نہیں، جو کسی مسلمان کی ذہنی تشکیل میں کارگر ثابت ہو۔ قرآن وسنت سے متعلقہ ہدایت کی نشاندہی ، ان کی تبلیغ اور حالات پر ان کا اطلاق علماے کرام ہی کرتے ہیں۔ اس ناطے علما ے کرام کا کردار مسلم معاشرے میں غیرمعمولی تقدس اور اہمیت رکھتا ہے، بالخصوص ان حالات میں وہ جب وہ اس پر خود خلوص دل سے عمل پیرا بھی ہوں تو ان کے قول وکردار کی تاثیر دو چند ہوجاتی ہے۔
عمل سے قبل نظریہ کی اصلاح
نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بت شکنی سے قبل ، برسہا برس تک تبلیغ ودعوت میں صرف کیے۔ فتح مکہ كے موقع پر بتوں کو پاش پاش کرنے سے قبل بھی آپ کے پاس ہمیشہ ایسے جانثار موجود رہے جو اللّٰہ کے گھر کو بتوں سے پاک کرسکتے تھے، لیکن جب تک نظریاتی وعلمی طورپر آپ نے بت پرستی کی گمراہانہ بنیادوں کو واضح ؍ختم نہ کرلیا، اس وقت تک آپ نے بتوں کو ڈھانے سے گریز کیا۔ اس سے بھی علم ہوتا ہے کہ عمل واقدام سے پہلے ذہنی خلفشار کا خاتمہ اور علمی نکھار ضروری ہے۔
آپ ﷺ اپنے داعیوں کو دیگر علاقوں میں بھیجتے اور انہیں اقدام سے قبل دعوت کی تلقین کرتے، جیساکہ سیدنا معاذ بن جبل کی مشہور احادیث میں ہے، سیدنا ابن عباس سے مروی ہے:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لَمَّا بَعَثَ مُعَاذًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى اليَمَنِ، قَالَ: «إِنَّكَ تَقْدَمُ عَلَى قَوْمٍ أَهْلِ كِتَابٍ، فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ عِبَادَةُ اللَّهِ، فَإِذَا عَرَفُوا اللَّهَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِهِمْ وَلَيْلَتِهِمْ…»[7]
’’جب نبی کریم ﷺنے سیدنا معاذ کو یمن کی طرف (عامل بنا کر )بھیجا تو تلقین فرمائی: تو اہل کتاب میں سے ایک قوم کی طرف جارہا ہے۔ سب سے پہلے تجھے چاہئے کہ اُنہیں اللّٰہ کی بندگی کی دعوت دے، جب وہ اللّٰہ کو پہچان لیں تو اُنہیں بتانا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اُن پر ان کے دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں…‘‘
مذکورہ بالا نکات سے مسلم معاشرے میں دینی قیادت کا کردار بالکل اظہر من الشمس ہوجاتا ہے اور اُن کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے۔ بالفرض کوئی تبدیلی یا اقدام کسی وقتی دباؤ یا سختی کے نتیجے میں نافذ کربھی دیا جائے لیکن ذہنوں میں اس کی اہمیت اور نوعیت راسخ نہ ہو تو کچھ ہی عرصے میں اس دباؤ کے ختم ہوتے ہی حالات دوبارہ پرانی ڈگر پر واپس لوٹ آتے ہیں او رمسلم معاشرہ باہمی خلفشار کا شکار رہتا ہے ۔اس لحاظ سے مسلم معاشرہ جبر وتحکم کی بجائے ارشاد واتباع ِ الٰہی کا رجحان رکھتا ہے۔
دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خاتمے میں علما کا کردار
دہشت گردی ایک ناسور ہے اور فرقہ واریت مسلم معاشروں کی طاقت کو کھوکھلا کیے دے رہی ہے۔ یہ دونوں مسئلے ، فی زمانہ ملتِ اسلامیہ کے اہم ترین مسائل ہیں۔ ایک کے نتیجے میں امن وامان جیسی عظیم الشان نعمت سے محرومی اور دوسری کے نتیجے میں اتحاد جیسی ملی قوت کا خاتمہ سامنے آرہا ہے۔ ان دونوں مسائل کا تعلق اور ان کی بنیادیں، کسی اور نہیں بلکہ خالص مذہبی نظریات میں ہی پیوست ہیں۔ ان دونوں مسائل کا استدلال بھی خالص مذہبی نوعیت کا ہے اور اُن سے زیادہ متاثر ہونے والا بھی مذہبی طبقہ ہی ہے، اوراس سلسلے میں پائے جانے والے افراط وتفریط کو کتاب وسنت کی روشنی میں ہی واضح کیا جاسکتا ہے۔ جب تک ان مسائل کی مذہبی حیثیت ونوعیت کو واضح نہیں کیا جاتا، دینی پلیٹ فارم سے اُن کے بارے میں واضح اور دوٹوک رہنمائی نہیں کی جاتی، اس وقت تک محض حکومتی اقدامات اور جبر ودباؤ سے اُن پر دائمی قابو نہیں پایا جاسکتا۔
مذہبی قیادت کی مختلف صورتیں ہیں: مفتیان وقاضیان،ائمہ وخطبا، واعظین وداعیان،علما ،مدرّسین علوم اسلامیہ، منتظمین مراکز ومدارسِ دینیہ، قائدین وذمہ دارانِ تحریکاتِ اسلامیہ، اہل علم وقلم، اہل فکر ودانش،سرکاری جامعات میں علوم اسلامیہ کے اساتذہ وپروفیسرز، تحقیقی اور اشاعتی وابلاغی اداروں کے ذمّہ داران او رقائدین ، مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ذمّہ داران وغیرہ [8]…
اور ان میں اکثر کے پاس ابلاغ کی مؤثر ترین صورت مسجد کا مقدس منبر او ر خطباتِ جمعہ ہیں، جن میں ہمہ تن گوش ہوکر شریک ہونا ہر مسلمان کا شرعی فریضہ ہے۔ اس سٹیج پر پورے تقدس وانہماک سے ہرمسلمان سر جھکاکر، دین کا پیغام سنتا ہے۔اتنا بڑا سٹیج اور ایسا مقدس پلیٹ فارم کسی بڑے سے بڑے حکمران کو بھی میسر نہیں۔ یہ مالک الملوک اور خالق کائنات کے گھر میں، خالق کی پیش کردہ رہنمائی کا نظام ہے۔ ان خطبا کے استدلال کا محور اللّٰہ کا قرآن اور نبی کریم ﷺکا فرمان ہوتا ہے جو اہم ومقدس ترین استدلال ہے۔
دینی قیادات اس سلسلے میں درج ذیل پہلؤوں سے اپنا کردار ادا کرسکتی ہے:
1. شرعی تعلیمات کی وضاحت اور علمی نکھار کے ذریعے… دہشت گردی کا مفہوم کیا ہے؟ اس کا مصداق کیا ہے اور کیا نہیں؟شریعت میں دہشت گردی کی مذمت کس کس طرح کی گئی ہے ، اور فساد فی الارض کی بدترین سزا [9] کیا بتلائی گئی ہے؟علماے کرام اپنے شرعی موقف کو کتاب وسنت کے دلائل ، عقلی ومنطقی استدلال، تاريخی مثالوں اور عبرت آموز واقعات سے مزین کرکے مختلف اسالیب ووسائل سے معاشرے میں پھیلاسکتے ہیں۔مثلاً
1. خطاباتِ جمعہ کے ذریعے
2. دعوتی دروس وخطابات کے ذریعے
3. تعلیم وتعلم او راپنے طلبہ کے فکری نکھار اور علمی رسوخ کے ذریعے
4. ٹی وی مذاکروں، مباحثوں او رخطابات کے ذریعے
5. اخبارات میں مضامین واشتہارات او رخبروں و سیمینارز کے ذریعے
6. مختصر تحریروں، کتابچوں، پمفلٹوں ، کارڈز، ہینڈبلوں کی تیاری اور عوامی مقامات پر اُن کی تقسیم ، اشتہارات، بل بورڈز، وال ہینگنگز،بینروں وغیرہ کی صورت میں
2. علماے حق کا ہر مسلمان کے ہاں خاص احترام پایا جاتا ہے۔ بالخصوص دینی دلائل کی بنا پر گمراہی کا شکار ہونے والے دراصل حق اور صلاح کے جویا ہوتے ہیں، اپنی کم علمی اور وافر دینی جذبہ کے سبب غلط اور انتہا پسندانہ موقف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگر ان سے ملاقاتوں اور تبادلہ خیال میں علما کو آگے بڑھایا جائے تو اس سے ان کے علم واحترام کی بنا پر حالات میں بہت سی اصلاح ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
3. علماے کرام اس موضوع پر پائے جانے والے ابہام اور اعتراضات کا شرعی دلائل سے خاتمہ کرکے اور درست واقعاتی صورتِ حال کو جان کر، اور اس کو مثبت انداز میں پھیلا کربھی ذہنی خلفشار کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے حکومت راست فکراور ممتاز علما کو متحد کرکے، ان کے زیر اثر حلقوں میں اُن کے پیغام کو پھیلاسکتی ہے، جس کے لیے ان کے براہِ راست خطابات اور ان کی تحریریں مؤثر کردار ادا کرسکتی ہیں۔
4. مساجد کے خطبات ودروس، مدارس ووفاقات کے نصابات، سکول وکالج اور جامعات کے نصابات، جلسہ جات وسیمینار کے موضوعات،مباحثوں مذاکروں کے موضوعات میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کی تردید اور متوازن ومعتدل رہنمائی کو مختلف اسالیب میں متعارف کرایا جائے۔
5. سلیم الفکر علما کے ساتھ ، معروف اور مؤثر میڈیا پرسنز کی میٹنگیں کرائی جائیں اور متفقہ نکات پر مشتمل ٹی وی پروگرام کرائے جائیں ، جس میں دلچسپی اور تاثیر کے لئے بطورِ خاص منصوبہ بندی اور تیاری کی جائے۔
نوٹ: عالم دین کی قدرومنزلت، اس کے قول وکردار کی راستی سے مشروط ہوتی ہے۔ اگر کسی عالم یا تنظیم کے بارے میں یہ شبہ پیدا ہوجائے کہ وہ حکام واُمرا کی خوشامد او رتائید کے لیے قرآن وسنت سے استدلال کرتا ہے، یا اس کا اپنا کردار اس کے موقف کی تصدیق وتائید نہیں کرتا ، تو اہل اسلام ایسے علماے سوء سے متنفر ہوجاتے اور ایسی صورت حال میں عوام کی ذہن سازی کی بجائے، مزید انتشار جنم لیتا ہے۔ اس لیے اس امر کی بطور خاص ضرورت ہے کہ مخلص اور راسخ علما کو صورتِ واقعہ میں پوری طرح شریک کیا جائے، اور ان کی رائے کو وزن دیا جائے اور نفس مسئلہ میں ان کو اس حل پر آمادہ کیا جائے ، ان پر جبر یا ترغیبات کے نتیجے میں حاصل ہونے والا موقف عوامی تاثیر سے محروم ہوتا ہے۔ جب اور جس وقت ، جس مسئلہ میں علما اور حکام کی رائے متفق ہوگئی اور علما نے خلوص سے شرعی دلائل ومصالح کو پیش نظررکھتے ہوئے خالص رہنمائی کی تو اس سے صورتِ حال میں لازماً بہتری پیدا ہوجائے گی۔
6. علماکے مختلف رجحانات میں بعض اوقات عام مسلمان اُلجھ کررہ جاتا ہے۔ اکثر اوقات علما کے مختلف رجحانات حقیقی ہونے کے بجائے، بعض حقائق سے لاعلمی یا معلومات کی کمی بیشی کی بنا پر ہوتے ہیں۔ اگر مخلص ومتدین علماے کرام کو باہم مل بیٹھنے اور دلائل کے ساتھ اپنا موقف بیان کرنے اور سمجھنے سمجھانے کا موقع دیا جائے تو اس سے بہت سا ظاہری اختلاف پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اس بنا پر علما کو باہم مل بیٹھنے اور سمجھنے سمجھانے کا مستقل سلسلہ جاری رہنا چاہیے اور عوام الناس کو علماکی طرف سے ایک مشترکہ پیغام ہی جاری ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی طرح علما کا ایک عوامی پلیٹ فارم بھی ہونا چاہیے جو عوام کو رہنمائی دیں اور ان کی آرا کو عوام وحکومت ہردو کو وزن دینا چاہیے۔
7. پاکستان میں مختلف فقہی مکاتبِ ہائے فکر پائے جاتے ہیں۔ ان مکاتبِ فکر کے فقہی کے ساتھ ساتھ فکری وسیاسی رجحانات اور تشخص بھی جداگانہ ہیں۔ یہ تشخص اس قدر پختہ ہیں کہ حکومت کے لیے اُن سب کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ان مکاتب فکر کے فقہی امتیازات میں کمی لانےکے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہیے کہ قرآن وسنت کی بنا پر باہمی اتفاق واتحاد کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جائے ۔ کیونکہ یہی وہ واحد بنیاد ہے، جس پر اللّٰہ کی رسی ہونے کے ناطے سب کا اتفاق اور آخر کار ملت کا اتحاد ممکن ہے۔
8. جس طرح دینی وفکری بنیادوں پر فرقہ واریت حرام ہے۔ تمام مسلمانوں کو ایک ہی اسلامی اکائی اور اخوت پر مشتمل ہونا چاہیے، اسی طرح حکام کی سیاسی بنیادوں: رنگ ونسل، زبان وقوم، علاقہ ووطن کی بنا پر پر فرقہ واریت بھی ایک مذموم امر ہے۔ اگر مختلف حکام اپنی رعایا کو علیحدہ علیحدہ وطنیت یا تشخص کے نام پر علیحدہ کرنا چاہیں تو یہ بھی شرعاً ایک قابل مذمت امر ہے۔ مذہبی فرقہ واریت کی طرح نسلی، لسانی، علاقائی،وطنی اور سیاسی فرقہ واریت بھی ناجائز اور قابل مذمت ہے۔ اسلامی اخوت ایک بالا تر نظریہ ہے ، جس کی رو سے نبی کریم ﷺکا ہر اُمّتی ، اسلامی اخوت میں پرویا ہوا اور ایک جیسے حقوق رکھتا ہے۔ اور اسی بات کی نبی کریمﷺ نے ملت اسلامیہ کو خطبہ حجۃ الوداع میں تلقین فرمائی ہے۔
شرعی تعلیم وتبلیغ کی ذمّہ داری سے حکومتی گریز
جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ مسلم معاشرہ حاکمیتِ الٰہیہ پر استوار ہوتا ہے اور اس حاکمیتِ الٰہیہ کا موجودہ حالات پر انطباق اور اس میں شریعت کے مقصود ومنشا کی نشاندہی علماے کرام کی ذمہ داری اور اُن کے علم وفضل کی مرہونِ منت ہے۔ دیگر معاشروں کی بہ نسبت اپنی بنیادی ساخت میں اس اہم ترین عنصر کی بدولت مسلم معاشروں میں دین اور اس کے ماہرین کا کردار بہت کثیرالجہت ہوتا ہے۔ دین کی اس غیرمعمولی اہمیت کا اندازہ لگانا ہو تو غور کیجئے کہ ہمارے ملک، قوم، اور فرد کے تشخص میں دین ہی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے نام میں اسلامی کا سابقہ، ہمارے شہروں کے ناموں میں اسلامی مناسبتیں اور افراد کے نام اور تشخص میں اسلامی حوالے بتاتے ہیں کہ ہرمقام پر دین کا کردار بنیادی ہے۔ گویا دین کسی قوم وفرد کی دنیا وآخرت میں اہم ترین شناخت ہے!!
دین بیزاری کے اس دور میں بہت سی کوششیں کی گئیں کہ دین کے حوالے کو اضافی قرار دے دیا جائے لیکن آج بھی یہ مسلم معاشروں اور مسلم ممالک کا یہ بنیادی تقاضا ہے۔ اسلامی ممالک کے دساتیر اس کو اوّلین حیثیت دیتے ہیں اور کم ازکم زبانی ؍تحریری حد تک اس کے اتباع او رفروغ کا دم بھرتے ہیں۔ مزید برآں دینی اعتقادات کی اہمیت کو آج بھی دنیا کے ہر فورم پر بنیادی تعارف حاصل ہے۔ ڈالر کے نوٹ پر ’اللّٰہ پر اعتماد کا دعویٰ‘ ہو یا امریکی صدر کا اپنے عہدے کے حلف نامہ، مذہب کے حوالے کے بغیر کہیں بات نہیں بنتی۔اس لیے دین کے معاشرتی کردار سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ایک اسلامی ریاست ہونے کے ناطے بھی پاکستانی حکومت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ اپنے شہریوں کے دینی حقوق کی پاسداری کرے، اُن کو ان کے دین کےبارے مستند تعلیم دے۔ ان کے مذہبی اداروں اور مساجد ومدارس کو قائم کرے، ان کا قبلہ خالص اسلام پر جاری وساری کرے اور اپنے باشندوں کے دینی فرائض سے بخوبی عہدہ براہو۔ کیونکہ ایک اسلامی ریاست کا معاصر مغربی ریاست سے یہی بنیادی امتیاز ہے۔
افسو س کہ اہل مغرب سے مختلف علوم وفنون سیکھتے سیکھتے ہم اپنے اسلامی اعتقادات ونظریات سے بھی محروم ہوگئے اور پاکستانی حکومت، اُتنے ہی دینی فرائض انجام دینے پر قانع ہوگئی جتنا کوئی یورپی سیکولر ریاست اپنے عوام کے دینی فرائض کی پاسبان ہوتی ہے۔ جس طرح کسی مغربی ریاست کو اپنے بسنے والوں کی دینی تعلیم، عبادت گاہوں، اور دینی رہنمائی سے کوئی غرض نہیں ہوتی،یہی صورتِ حال پاکستانی حکومت کی بھی ہے۔ البتہ رسمی طورپر چند برائے نام اور روح سے عاری اقدامات کی خال خال کوششیں نظر آتی ہیں۔
اسلامی ریاست کا یہ بنیادی فریضہ ہے کہ ایک نظریاتی ریاست ہونے کے ناطے وہ اپنے شہریوں کے جان ومال کے ساتھ ان کے دین وایمان کی بھی محافظ اور معاون بنے۔ یہی بات قرآن کریم ، احادیثِ نبویہ اور ائمہ اسلام کے فرامین سے ہمیں معلوم ہوتی ہے۔ قرآن کریم نے اہل ایمان کو زمین پر جب اقتدار دینے کی بات کی تو فرمایا:
﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّـٰهُم فِى الأَرضِ أَقامُوا الصَّلوٰةَ وَءاتَوُا الزَّكوٰةَ وَأَمَروا بِالمَعروفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ وَلِلَّهِ عـٰقِبَةُ الأُمورِ ﴿٤١﴾[10]
’’اُنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
سورۃ النور کی آیت نمبر 55 میں اسلامی ریاست میں اللّٰہ کی بندگی کا فروغ اور شرک وبدعات کے خاتمہ کو حکومتی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔
شاہ ولی اللّٰہ دہلوی اسلامی حکومت کے فرائض بیان کرتے ہوے لکھتے ہیں:
هي الرياسة العامة في التصدي لإقامة الدين بإحياء العلوم الدينية وإقامة أركان الاسلام والقيام بالجهاد وما يتعلق به من ترتيب الجيوش والفرض للمقاتلة وإعطاءهم من الفيء والقيام بالقضاء وإقامة الحدود ورفع المظالم والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر نيابةً عن النبي ﷺ[11]
’’ ایسی عمومی حکومت جو نبی مکرم کی نیابت میں نفاذِ دین کے فرض کو پورا کرتی ہے کہ وہ دینی علوم کا احیا کرے، ارکانِ اسلام (توحید ورسالت، نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج) کو قائم کرے، جہاد کو جاری کرے، متعلقہ لشکروں کی تنظیم کرے،وجوبِِ جہاد کا اعلان اور مجاہدین میں مالِ فے وغنیمت تقسیم کرے، شرعی نظامِ عدل کو قائم کرے، حدوود کا نفاذ کرے، مظالم کی بیخ کنی کرے،اور معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو جاری کرے۔‘‘
مذکورہ بالا اُمور کی مختصراً نشاندہی سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی حکومت کے فرائض مغربی ریاست سے کہیں زیادہ ہیں۔اس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو زندگی کے ہر پہلو میں اللّٰہ تعالیٰ کی بندگی کروانا اور اس کے اسباب ووسائل میسر کرکے دینا ہے، اور اسی عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے ہی اس کی اطاعت ضروری ہوتی ہے تاکہ وہ مسلمانوں کی نگرانی کرکے اُنہیں دین ودنیا کی سعادت سے بہرہ مند کرسکے۔
آج ہم بے شمارقومی مسائل کا اس لیے شکار ہیں کہ ہم نے دین کو ، جو مسلم فرد ومعاشرہ کی عظیم ترین قوت ہے، حب رسول اور اتباع رسالت کو جو ہر فردِ مسلم کی اوّلین زینت اور ایمانی تقاضا ہے، انسان کا ذاتی مسئلہ بنا کررکھ دیا اور اس کی ذمّہ داری سے غافل ہوگئے۔ لوگوں کی دینی رہنمائی کو اتنا غیر اہم سمجھ لیا گیا کہ جو جس کے جی میں آئے، اسلام کے نام پر لوگوں کے ذہنوں میں اُنڈیلتا رہے، چنانچہ لوگوں نے مسلمانوں کے جذبۂ ایمانی کا استحصال کرنا شروع کردیا۔حکومت کا اپنی اس ذمہ داری سے انحراف کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی معاشرہ دین کے نام پر گوناگوں اور منتشر خیالات وافکار کی آماجگاہ بن گیا ہے۔مفاد پرستوں نے اپنے اپنے مفاد کے لیے ایک دین کو کئی ایک فرقوں میں بانٹ کر اپنے اپنے پیروکار جمع اور مفادات منظّم کرلیے۔ اسلام کے نام پر اتنے منتشر ومتفرق پہلو لوگوں کو بتائے اور سکھائے گئے کہ ایک ملت کا تصور خواب ہوکر رہ گیا ۔
پاکستانی معاشرہ کے ایک اسلامی معاشرہ ہونے کے ناطے یہاں دین کی اہمیت سے انکار کیا نہیں جاسکتا، اسلامی معاشرے میں دینی مسندات اور منبر ومحراب کو تقدس کو ختم کرنا ایک گناہِ عظیم کے مترادف ہے، لیکن اتنی بڑی مؤثر نظریاتی قوت کے کسی قبلہ اور مرکز ومحور کا تعین ہی نہ کرنا اور اس کی ذمہ داری سے بالکل غافل ہوجانا ایک سنگین ملّی مسئلہ ہے۔ ہم نظریاتی او رفکری انتشار کا اس وقت تک خاتمہ نہیں کرسکتے ،ان مسائل سے ا س وقت تک عہدہ برا نہیں ہوسکتے، جب تک اس کی ایک سنجیدہ ذمہ داری حکومتِ وقت اپنے سر نہ لے۔ اس مسئلہ کا یہ حل نہیں کہ مذہب کے نام پر ہر خیال کی مذمت کرکے، مغربی تہذیب کو پروان چڑھا دیا جائ۔ اسلامی معاشروں میں ایسا ہونا ناممکن ہے ، کیونکہ دنیا بھر کے مسلمان رسولِ کریم ﷺسے قلبی تعلق کو آخر کا رنہیں چھوڑ سکتے۔اس کا حل یہی ہے کہ مسلم حکومت اپنے باشندوں کی دینی وفکری ذمہ داری کو قبول کرے اور عوام کی اصلاح وارشاد کا ایک منضبط ومنظم اور جامع پروگرام تشکیل دے۔
اوّل تو حکومتیں دینی ذمّہ داری سے ہی غافل ہیں اور اگر کبھی کسی کو اس شرعی ذمہ داری کا خیال آہی جائے تو مختلف فرقہ وارانہ رجحانات اور تنظیمیں اپنے اپنے معتقدات ونظریات کو سرکاری پلیٹ فارم سے فروغ دینےکے لیے پیش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس سلسلے میں واضح رہنا چاہیے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور یہاں اسلامی حکومت کے فرائض بیان ہورہے ہیں، اس لیے حکومت کو سرکاری طور پر اسے ہی نافذ اور جاری کرنا چاہیے جو کسی مزید حوالے کے بغیر صرف اور صرف اسلا م ہو۔ اور صرف اسلام کے سلسلے میں قرآن کریم یہ واضح ہدایت دیتا ہے کہ ’’جب بھی تمہارا اختلاف ہو تو اسے اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو۔‘‘[12] اور نبی کریمﷺ کا یہ فرمان بھی صریح موجود ہے کہ ’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں: قرآنِ کریم اور میری سنت جب تک ان کو تھامے رکھو گے، گمراہ نہ ہوگے۔‘‘ [13]چنانچہ قرآن کریم اور سنتِ رسول کو ہی اُصولی طور پر نافذ کرنے کی کوشش ہونی چاہیے اور انہی دو اساسات پر ملتِ اسلامیہ کا حقیقی اتحاد ہوسکتا ہے۔ اگر حکومت اسلام کے کسی مخصوص برانڈ کو نافذ کرنے کی جدوجہد کرے گی تو اوّل تو وہ اسلام کا کلی مصداق نہ ہوگا اور اس پر کبھی اختلاف کا خاتمہ بھی نہ ہوسکے گا۔ نتیجۃً جس قومی انتشار کی بات کی جارہی ہے، اس کا خاتمہ ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔
اسلام میں پاپائیت یا تھیا کریسی کا کوئی تصور نہیں، یعنی مذہب کے نام پر بعض انسانوں کا اپنے جیسے انسانوں پر حاکم بن بیٹھنا اور اللّٰہ کی منشا ومرضی کے نام پر، لوگوں پر اپنی حکومت چلانا۔ اسلام کا دامن ان علتوں سے پاک ہے۔ اللّٰہ کی منشا ومرضی معلوم کرنے کا واضح طریقہ ہمارے پاس قرآن کریم اور سنتِ رسول ﷺ ہے۔ چنانچہ انہی دنوں کا حقیقی نفاذ ہی اسلام کا تقاضا ہے، وگرنہ اسلام کے نام پر بعض فقہاے عظام کی تشریحات کوشریعت قرار دے کر نافذ کردینا، پاپائیت کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ قرآن وسنت کی تشریح ایک علمی اہلیت کی متقاضی ہے جس کے اہل علمائے کرام ہی ہیں، لیکن اس اہلیت کے نام پر اُنہیں قرآن وسنت کو ہی نافذ کرنا چاہیے نہ کہ اپنی ذاتی آرا کو۔ اس لیے حکومتوں کو ایسے انفرادی رجحانات کے نفاذ سے بچنا چاہیے۔
الغرض اصلاحِ معاشرہ میں دین کا کردار غیرمعمولی حیثیت رکھتا ہے ، اور اس سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں، تاہم حکومتِ وقت کو اپنے شہریوں کی دینی ضروریات کی ذمہ داری بھی قبول کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں خالص کتاب وسنت کو فروغ دینے کی مساعی کرنا چاہیئں، کسی مخصوص فرقے یا نظریے کو پروان چڑھانے سے قومی اتفاق واتحاد کو مزید نقصان پہنچے گا۔
حوالہ جات
[1] صحیح بخاری: 7257
[2] ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ …﴿٥٩﴾ سورة النساء
[3] السياسۃالشرعيۃفی الراعی والرعیۃ از شیخ ابن تیمیہ: ص 6
[4] السياسۃالشرعيۃفی الراعی والرعیۃ:ص 127، فصل فی المشورة
[5] صحیح بخاری: کتاب العلم
[6] ﴿وَالَّذينَ إِذا ذُكِّروا بِـٔايـٰتِ رَبِّهِم لَم يَخِرّوا عَلَيها صُمًّا وَعُميانًا ﴿٧٣﴾ سورةالفرقان
[7] صحيح بخاری: 1458، كتاب الزكاة
[8] امام غزالی نے اہل سیاست کی چار قسمیں اور درجہ بندی کی ہے: سیاستِ وعاظ، سیاستِ علما وفقہا،سیاستِ خلفا وملوک، سیاستِ انبیا ء ورسل (احیاء العلوم:کتاب العلم، باب اوّل، ج1؍ص9)
[9] سود ایسا بدترگناہ ہے جس کے ارتکاب کو اللّٰہ نے اپنے سے جنگ قرار دیا ہے اور دوسرا گناہ حرابہ یعنی فساد فی الارض بھی اتنا سنگین ہے جو اللّٰہ ورسول سے جنگ کے متراف قرار دیا گیا۔اس کی سزا بھی بڑی سنگین ہے۔ دیکھئے سورة المائدة:33
[10] سورة الحج:41
[11] ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء از شاہ ولی اللّٰہ دہلوی: 1؍5
[12] ﴿وَمَا اختَلَفتُم فيهِ مِن شَىءٍ فَحُكمُهُ إِلَى﴾ (الشوریٰ: 10) اور
فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِ﴾ (النساء: 59)
[13] «تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ» (صحيح الجامع:2937)
وعدہ معاف گواہ
وعدہ معاف گواہ یا سہولت کار؟
ان دنوں ملک میں معافی کے وعدے پر گواہی دینے کا سلسلہ زوروں پر ہے۔ ایسے میں بہت سے ذہنوں میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ جب کسی شخص نے جرم کرنے یا شریکِ جرم ہونے کا اقرار کرلیا ہوتو اسے معافی کیسے مل سکتی ہے،یہ معافی صرف چند افراد کو کیوں ملتی ہے اور وہ بھی صرف ہائی پروفائل مقدمات میں اور صرف بڑے لوگوں کو؟
برطانوی قانون دان فرنے چارلس (Fearne Charles-1742-1794)نےاٹھارہویں صدی عیسوی میں’’ کرائون وِٹنیس‘‘کی قانونی اصطلاح متعارف کرائی تھی۔لیکن اس نے ایسا کچھ اور سوچ کر کیا تھا۔وہاں عدالتوں میں استغاثہ کو شدید مشکلات پیش آتی تھیں۔ شہادتوں اور شواہد کی عدم دست یابی کی وجہ سے ملزم صاف بچ نکلتے تھے۔چناں چہ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ کسی شریک ِجرم شخص کو رہائی کا لالچ دے کر کرائون وِٹنیس بنالیا جائے تاکہ مرکزی ملزم کے خلاف اس کی گواہی کو بنیاد بناکر اسےسزا دی جا سکے۔اس قانونی اختراع پراس وقت بھی انصاف پسند حلقوں نے سوالات اٹھائے تھے اور اب بھی ایسی گواہی معتبر خیال نہیں کی جاتی کیوں کہ ذاتی فائدے کی غرض سے ملزم کچھ بھی کہہ سکتا ہے
متعیّن تعریف نہیں
دراصل ہمارے فوج داری قانون میں وعدہ معاف گواہ کی کوئی تعریف متعیّن نہیں ہے۔ جب کسی فوج داری مقدمے میں واضح اورقابل اعتماد شہادتیں موجود نہ ہوں تو شریک ملزموں میں سے کسی ایک کو مقدمے کے اختتام پر رہائی دینے کے وعدے پر اقبالی بیان دینے پر تیار کیا جاتا ہے جس میں وہ وقوعہ میں ان افراد یا فرد کا نام اورکردار بیان کرتا ہے جس کی ایما پر اس نے یہ سب کچھ کیا تھا۔ رہائی کے وعدے پر اقبالی بیان دینے والا یہ ملزم وعدہ معاف گواہ کہلاتا ہے۔
استغاثے کے لیے سہولت
ہمارے سیاسی راہ نما جب حزبِ اختلاف میں ہوتے ہیں تو بہت سے قاعدے ،قوانین پر اعتراضات کرتے ہیں ،لیکن جوں ہی وہ اقتدار میں آتے ہیں وہ تمام اعتراضات ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں۔چناں چہ آج بھی ہمارا قانون(جس کا بیش تر حصہ انگریزوں کے بنائے ہوئے قوانین پر مشتمل ہے) استغاثے کو یہ سہولت دیتا ہے کہ وہ اپنے مقدمے کے اصل ملزم کے خلاف جرم ثابت کرنے کے لیے کسی دوسرے ملزم یا ملزمان کو وعدہ معاف گواہ بنا کر ان کی اصل ملزم یا ملزمان کے جرم میں اعانت کی ان کے اقبالی بیانات کے ذریعے تصدیق کرائے اور اس کی بنیاد پر اصل ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانے کی راہ ہم وار کر دے۔اس قانون کی موجودگی ہی کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹوکسی طرح تختہ دار تک پہنچائے گئے تھے۔لیکن بعد میں حکومت میں آنے والے سیاست دانوں نے بھی اس میں شاید یہ سوچ کر ترمیم نہیں کی کہ وہ اسے حزبِ مخالف کے خلاف استعمال کریں گے۔لیکن وقت انہیں غلط ثابت کرچکا ہے۔چناں چہ آج بڑے بڑے سیاست دانوں کے خلاف مقدمات میں وعدہ معاف گواہوں کا تانتا بندھا ہوا۔اور گواہ بھی وہ جو کبھی ان سیاست دانوں کے منظورِ نظر تھے۔
وعدہ معاف گواہ یا سہولت کار؟
دراصل استغاثہ نے بعض مقدمات قائم کرنےکے لیے ’’مخبروں‘‘کی خدمات حاصل کر رکھی ہوتی ہیں اور کیس ثابت کرنے کے لیے کبھی کبھار ایسے ملزمان میں سے کسی کووعدہ معاف گواہ (Approver) بنانے کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ اس طرح وعدہ معاف گواہ درحقیقت سہولت کار ہوتا ہے جو کسی کم زور کیس کو کسی ملزم کے خلاف مضبوط بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے صلے میں استغاثہ اسے متعلقہ مقدمے سے نکال دیتا ہے۔ تاہم یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ وہ وعدہ معاف گواہ کو جو درحقیقت متعلقہ مقدمے میں ملزم ہوتا ہے استغاثہ کی جانب سے اس کے ساتھ کیے گئے وعد ے کے مطابق اعترافِ جرم کے باوجود مقدمے سے نکال دے یا اس کے اعترافِ جرم کی بنیاد پر اسے سزا سْنا دے ۔ اس طرح وعدہ معاف گواہ کا مستقبل متعلقہ ٹرائل کورٹ کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔
ایک بہت بری مثال
اس ضمن میں پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سب سے اہم، مگربہت بری مثال 1977ء میں نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں ملوث ایف ایس ایف کے پانچ افسران اور اہل کاروں بہ شمول ڈی جی ایف ایس ایف، مسعود محمود اور ڈپٹی ڈائریکٹر غلام عباس کو وعدہ معاف گواہ بنانے کی ہے جنہوں نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف گواہی دی تھی کہ انہوں نے نواب محمد احمد خاں کو ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت پر قتل کیا اورکرایا تھا۔یہ گواہی ان کے اقبالی بیانات کی صورت میں دی گئی جن کے ذریعے انہوں نے خود بھی اپنے شریکِ جرم ہونےکا اعتراف کیا۔ چناں چہ اس مقدمے میں ٹرائل کورٹ بنائے گئے اور لاہور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کر کے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ایف ایس ایف کے اہل کار چار وعدہ معاف گواہوں کو بھی موت کی سزا سْنا دی۔ صرف مسعود محمود کو کیس سے باہر نکالے جانے کی رعایت ملی جنہوں نے اپنی باقی ماندہ زندگی جلاوطنی میں گزاری۔ایسے کیس کے فیصلہ کے بعد کوئی ملزم سوچ سمجھ کر ہی وعدہ معاف گواہ بنتا ہے کیوں کہ اس صورت میں اسے اپنے جرم کا اعتراف بہ ہر صورت کرنا ہوتا ہے جس سے اصل ملزم کے گلے میں پھانسی کا پھندہ ڈالنا تو آسان ہو جاتا ہے، مگر اعترافِ جرم کی بنیاد پر یہ پھندہ وعدہ معاف گواہ یا گواہوں کے گلے میں بھی پڑ سکتا ہے۔
ان گواہوں کی ضرورت کیوں؟
ایسے گواہان دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص مل ہی جاتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی پیدائش کا آغازکب اور کیسے ہوا۔دراصل برطانوی قانون دان فرنے چارلس (Fearne Charles-1742-1794)نےاٹھارہویں صدی عیسوی میں’’ کرائون وِٹنیس‘‘کی قانونی اصطلاح متعارف کرائی تھی۔لیکن اس نے ایسا کچھ اور سوچ کر کیا تھا۔وہاں عدالتوں میں استغاثہ کو شدید مشکلات پیش آتی تھیں۔ شہادتوں اور شواہد کی عدم دست یابی کی وجہ سے ملزم صاف بچ نکلتے تھے۔چناں چہ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ کسی شریک ِجرم شخص کو رہائی کا لالچ دے کر کرائون وِٹنیس بنالیا جائے تاکہ مرکزی ملزم کے خلاف اس کی گواہی کو بنیاد بناکر اسےسزا دی جا سکے۔ اس قانونی اختراع پراس وقت بھی انصاف پسند حلقوں نے سوالات اٹھائے تھے اور اب بھی ایسی گواہی کو معتبر خیال نہیں کیا جاتاکیوں کہ ذاتی فائدے کی غرض سے ملزم کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔یہ قانونی گنجائش تو شریک ِملزم کو سلطانی گواہ بنانے کی حد تک تھی، مگر استغاثہ نے یہ راستہ بھی نکال لیا کہ کسی بے گناہ شخص کو زبردستی شریک ملزم بنا کر گرفتار کرلیا جائے اور پھر اسے سلطانی گواہ بننے کے عوض رہائی کی پیش کش کی جائے۔
اخلاقیات اور انصاف کے بارے میں سوالات
دراصل وعدہ معاف گواہ ،یعنی شریکِ جرم شخص کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ وہ پھنسا ہے تو اس کی ساری لوٹ کھسوٹ اور ناجائز کام صرف اس شرط پر معاف ہو سکتے ہیں کہ وہ سچ بتا دے اور ایسے ثبوت مہیا کر دے جس سے دوسرے شخص کو سزا ہو جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں وعدہ معاف گواہ بننے والے مسعود محمود فیڈرل سیکیورٹی فورس کے سر براہ تھے۔ لہذا انہیں اپنے پھانسی چڑھنے کا خطرہ تھا۔آج بھی بعض سرکاری ملازم ایسے گواہ بن رہے ہیں۔حالاں کہ وہ برسوں مزے کرتے رہے اورمبینہ ناجائز کاموں میں معاونِ خصوصی بنے رہے۔دوسری جانب پاکستان کا قانون کہتا ہے کہ غیر قانونی کاموں سے انکار کر دیا جائے ۔سرکاری ملازم، وہ بھی بیوروکریٹس کی نوکری اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوتی ۔باس ناراض ہوجائے تو ان کا تبادلہ ایسی جگہ کردیا جاتا ہے جہاں یا تو ’’خشکا‘‘ ہوتا ہے یا وہ دور دراز علاقہ ہوتا ہے۔ اگرآج وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے اوپر والوں نے ان سے غلط کام کرائے تو ان لوگوں کا جرم بھی بڑے ملزم کے برابر ہے اور انہیں بھی سزا ملنی چاہیے۔ممتاز قانون داں وسیم سجاد کے بہ قول ان کی مدد اس لیے ضروری ہوتی ہے کہ نا قابلِ تردید ثبوت حاصل کیے جاسکیں۔لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ یہ سہولت صرف ہائی پروفائل کیسز میں کیوں فراہم کی جاتی ہے اور یہ رعایت صرف اعلی سرکاری عہدے داروں کے نصیب میں ہی کیوں آتی ہے؟اصولا تو یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ معاملات پر نظر رکھے۔ اینٹی کرپشن، ایف ائی اے اور بہت سے محکمے کس کام کے ہیں؟پاکستان کا آئین اسے اسلامی،جمہوری ملک قرار دیتا ہے۔اسلام کسی چور کو صرف اس لیے چھوڑدینے کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوسرے چور کو پکڑوا دے۔چناں چہ ہمیں اس قانون پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ایسا ہوتا رہا تو غلط کام کرنے والے بیروکریٹس ہمیشہ صاف بچ نکلیں گے اور اپنی حرام کی کمائی سے گلچھرے اڑانے بیرون ملک چلے جائیں گے۔ایسا ہوتا رہا تو اس ضمن میں اخلاقیات اور انصاف کے بارے میں سوالات اٹھتے رہیں گے۔
قانون کے غلط استعمال کی مثالیں
اس قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے ماضی میں بعض اہم مقدمات کے متنازع فیصلے دیے گئے۔ہمارے ملک میں ذوالفقار علی کی پھانسی کا فیصلہ اس کی بدترین مثال ہے۔لیکن ایسا اس سے قبل بھی ہوا تھا۔ بھگت سنگھ جسے بھارت اور پاکستان میں جدوجہد ازادی کا ہیرو سمجھا جاتا ہے، اسے سلطانی گواہوں کے ذریعے ہی قتل کے مقدمے میں پھنسا کر پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔بھگت سنگھ اور بی کے دَت نے 8اپریل 1929ء کو مرکزی دستور ساز اسمبلی میں بم پھینکے اور موقعے پر ہی خود کو سرنڈر کر دیا۔اس مقدمے میں دونوں کوچودہ برس قید کی سزا سنائی گئی۔ مگر بھگت سنگھ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوف زدہ انگریز حکومت نے انہیں ایک اور مقدمے میں پھنسانے کا فیصلہ کیا۔ہوا کچھ یوں تھا کہ لاہور میں برطانوی پولیس افسر جان پی سینڈرز اور ہیڈ کانسٹیبل چنان سنگھ کو قتل کر دیا گیا تھاجس کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج تھی مگر اسے بھی بھگت سنگھ کے کھاتے میںڈال دیا گیا۔یکم مئی 1930ء کو وائسرائے لارڈ اِروِن نے ایک آرڈی نینس کے ذریعے ا سپیشل ٹریبونل قائم کیا تاکہ بھگت سنگھ کا ٹرائل کیا جا سکے۔سماعت شروع ہوئی تو جے گوپال،پھندر گوش اور صبح سنگھ کو سلطانی گواہ بنا لیا گیا۔ٹریبونل نے بھگت سنگھ اور راج گرو کو سزائے موت سنا دی اور 23مارچ 1931ء کو انہیں لاہور میں پھانسی دے دی گئی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس ٹریبونل نے یہ سزا سنائی، اس کی اپنی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی کیوں کہ مقدمے کا فیصلہ ہونے کے تین ہفتے بعد ہی وہ آرڈی نینس اسمبلی سے منظور نہ ہونے کی وجہ سے کالعدم ہو گیا جس کی رُو سے ٹریبونل قائم کیا گیا تھا۔
انگریز تو چلا گیا ،لیکن اپنے پیچھے جو قانون چھوڑ کر گیا ہم نے اسے نام بدل کر اپنے سینے سے لگالیا ۔چناں چہ قیام پاکستان کے بعد اس نوعیت کا سب سے بڑا مقدمہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا تھا۔ اس وقت کی قومی اسمبلی کے رکن احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کو قتل کر دیے گئے تھے۔احمد رضا قصوری کے مطابق بھٹو صاحب انہیں قتل کی دھمکی دے چکے تھے اور چوں کہ اس وقت حکومت پیوپی پی کی تھی لہذا اس قتل کا الزام ایف ایس ایف (بھٹو صاحب کی بنائی ہوئی فیڈرل سیکورٹی فورس)پر لگایاگیا۔بنیادی طور پر اس مقدمے کے مرکزی ملزم ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود تھے جنہیں ضیاء الحق کے دور میں سلطانی گواہ بنا کر معاف کر دیا گیا اور پھر پھانسی کا پھندا ذوالفقار علی بھٹو کے گلے میں فِٹ کر دیا گیا۔مسعود محمود نے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ انہیں یہ حکم وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے دیا گیا تھا۔
چوبیس اکتوبر1977 کو احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کا مقدمہ مختلف مراحل سے گزرتا ہوا لاہور ہائی کورٹ پہنچا جہاں مولوی مشتاق حسین چیف جسٹس تھے ۔ وہ 1965 میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ وزیرِ خارجہ کے طور پر کام کرچکے تھے ،مگر وہ ذوالفقار علی بھٹو کے کھلم کھلا مخالف مشہور تھے۔کہا جاتا ہے کہ خود ذوالفقار علی بھٹو نے چیف جسٹس کے ساتھ اپنے ذاتی اختلاف کا معاملہ اٹھایا تھا اور جیسے ہی مقدمہ شروع ہوا انہوں نے اپنا اعتراض درج کروایا جس پر مولوی مشتاق نے کہا کہ یہ فیصلہ اعلیٰ عدلیہ کو کرنے دیں کہ مقدمے کی سماعت کون کرے گا۔ میں ہائی کورٹ کا جج ہوں، مقدمہ بھی میں سنوں گا اور فیصلہ بھی میں ہی کروں گا۔اس جواب پر بھٹو صاحب نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا۔
مقدمہ ٹرائل کورٹ کے بعد ہائی کورٹ سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ میں پہنچا تو سات رکنی بنچ نے تین کے مقابلے میں چار کے اکثریتی فیصلے سے ان کی سزا برقرار رکھی۔جسٹس غلام صفدر شاہ نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ مسعود محمود کے بعض بیانات صرف سنی سنائی باتوں کی ذیل میںآتے ہیں اس لیے بہ طور شہادت قابلِ قبول نہیں ہو سکتے۔علاوہ ازیں وعدہ معاف گواہ بہ ذاتِ خود کوئی ایسا قابلِ اعتماد گواہ نہ تھا۔ جسٹس محمد حلیم نے جسٹس غلام صفدر شاہ کی بات سے اتفاق کیا ۔جسٹس دُراب پٹیل نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا کہ سلطانی گواہ مسعود محمود کوئی قابلِ اعتبار گواہ نہ تھا اور اس قسم کے مقدمے میں اس کی شہادت سے زیادہ کوئی معتبر شہادت درکار تھی۔
پھر زمانہ بدلا تو قانون شہادت میں ترمیم کی گئی مگر وعدہ معاف گواہ بننے کا راستہ نہیں روکا گیابلکہ اس کا نام ’’سلطانی گواہ ‘‘ سے بدل کر ’’وعدہ معاف گواہ‘‘ کردیا گیا ۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں اسحاق ڈار کو وعدہ معاف گواہ بنا کر نوازشریف کو سزا دی گئی اور شریک ملزموں کے لیے وعدہ معاف گواہ بن کر رہائی پانے کی فراخ دلانہ پیش کش کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔آج مسلم لیگ (ن) ہی نہیں پیپلز پارٹی کی قیادت کا بھی اسیانداز سے سخت احتساب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
حکم رانوں کے لیے سبق
ہمارے حکم راں جب سرکاری حکام سے اپنے ناجائز احکا ما ت کی تعمیل میں مگن ہوتے ہیں تو انہیں قطعاً یاد نہیں رہتا کہ اقتدار سدا رہنے والی چیز نہیں اور کسی نہ کسی روز یہی غیر قانونی احکامات گلے کا پھندا بن سکتے ہیں اور ان کے حکومت میں ہونے کے وقت یس سر‘ یس سر کہنے والے شریکِ جرم سرکاری حکام مخبری کریں گے اوروعدہ معاف گواہ بنیں گے۔ ریڑھ کی ہڈی سے محروم سرکاری افسران طاقت ور حکم رانوں کی ہاں میں ہاں ملاتے‘ انہیں قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر من مانی کے طریقے بتاتے، غلط کاری پر اکساتے اور یہ باور کراتے ہیں کہ آپ سیاہ کو سفید کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔اس تابع داری اور اطاعت شعاری کی آڑ میں وہ اپنی اگلی نسلوں کا مستقبل سنوارتے ہیں، مگر جب کڑا وقت آتا ہے تو سارا ملبہ باس پر ڈال کر اپنی جان بچالیتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد بڑے بڑے حکم رانوں کے نفسِ ناطقہ کہلانے والے بیورو کریٹس کے انٹرویوز اور سوانح عمریاں پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ ان سے زیادہ دیانت دار،قابل، پارسا اور محب وطن سرکاری افسر پیدا نہیں ہوا۔ البتہ ان لوگوں کا جن حکم رانوں سے واسطہ پڑا وہ پرلے درجےکے کم عقل، بددیانت،قانون شکن اورمفاد پرست تھے۔ غلام محمد، اسکندر مرزا، ایوب خان اور ضیاء الحق جیسے حکم رانوں کا امیج مخالفین سے زیادہ صبح و شام ان کے نام کا ورد کرنے والے سول اور فوجی ساتھیوں نے خراب کیا اور انہیں برائی کا محور بتایا۔لیکن وہ اپنی اصلیت نہیں بتاتے۔
ماضی بھلائے نہیں بھولتا
آج ملک میں احتساب کا جو عمل شدت سے جاری ہے اگروہ کسی امتیاز و تفریق اور رُو رعایت کے بغیر جاری رہے توبہت اچھی بات ہے۔لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر آج سابق حکم راںزد میں ہیں تو کسی نہ کسی دن موجودہ حکومت کے غلط کار لوگ بھی اپنے کیے کی سزا بھگتیں گے کہ یہ مکافات عمل ہے۔ دوسری جانب نیب پر اعتراضات کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کل تک میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے اتفاق رائے سے چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے والے جسٹس (ر) جاوید اقبال کی مدح و ثنا میں مشغول تھے اور اسے صدی کا عظیم کارنامہ قرار دے رہے تھے۔ پھر آج ان کے خلاف اتنا واویلا کیوں؟
ایسا صرف ہمارے ہاں ہی ہوتا ہےکہ قائد حزب اختلاف کی گرفتاری سے جمہوریت خطرے میں پڑجاتی ہے۔ اسرائیل کا وزیر اعظم چودہویں بار تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوا۔ کوریا کے ایک سابق صدر کی حال ہی میں گرفتاری عمل میں آئی اور صدر پارک اپنے منصب پر موجودگی کے دوران گرفتارہوئیں۔ مگر دونوں ممالک میں سیاسی نظام کو کوئی خطرہ درپیش ہونے کی بات نہیں کی گئی۔ایک حقیقت یہ بھی ہےہمارے معاشرے میں طاقت وروں کے احتساب کی روایت نہیں ہے۔بدقسمتی سے پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں جرائم پیشہ عناصر سیاست اور سیاسی جماعتوں کی آڑ میں اپنا گھنائونا کاروبار کرتے اور حرام کی دولت اور طاقت کے بل بوتے پر پارلیمانی ایوانوں میں پہنچ کر مزید دولت و اختیار سمیٹتے ہیں۔ماضی میں کئی جرائم پیشہ اس راستے سے اسمبلیز میں پہنچے اور کئی سیاسی جماعتوں کاکاروبار ان ہی کے دم قدم سے چلتا ہے۔
آج نواز شریف کو بھٹو سے ملانے والے اور مریم صفدر کے ساتھ بے نظیر بھٹو جیسا برتائوکرنے کی باتیں کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اسی بے نظیر بھٹو کے خلاف میاںنواز شریف‘ نون لیگ اور اسلامی جمہوری اتحاد نے 1988ء اور 1990ء کے انتخابات کے دوران کیا زبان استعمال کی تھی اور ایک دن جب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پیلا سوٹ پہن کر قومی اسمبلی میں پہنچی تھیں تو مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے اراکین نے ان پر کیسی کیسی آوازیں کسی تھیں۔اس وقت میاں نواز شریف مسکراتے اور ڈیسک بجاتے دکھائی دیے تھے۔نواز شریف نے اپنے دو ادوار میں بے نظیر بھٹو کے خلاف 17 سے زاید مقدمات بنوائے۔ان کے بھائی شہباز شریف اور احتساب سیل کے سربراہ سیف الرحمن کا ان مقدمات میں کیا کردار تھا، یہ ذھکی چھپی بات نہیں۔ نواز شریف کے حکم کو سیف الرحمن نے جسٹس ملک قیوم تک پہنچایا تھا کہ بے نظیر بھٹو اورآصف زرداری کو کم از کم سات سال کی سزا دی جائے۔اس ٹیلی فونک گفتگو کی ریکارڈنگ منظر عام پر آئی تو دو ججز کو منصب سے الگ ہونا پڑاتھا اور سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر مقدمے کی دوبارہ سماعت کاحکم دیاتھا۔
احتساب بہ جا،لیکن انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے
احتساب کیجیے لیکن بھونڈے انداز میں نہیں،اسے مذاق نہ بنائیے۔ نیب کو ایسے وکلا دیں جو نامی گرامی وکیلوں کے پلّے کے ہوں۔ کہاجاتا ہے کہ نیب نے میاں نواز شریف کے کیس میں بہت سی غلطیاں کیں جن کا فائدہ میاں صاحب کے وکلا نے خوب خوب اٹھایا۔مریم صفدر کی جانب سے جھوٹی ٹرسٹ ڈیڈکے خلاف درخواست دینے کا خیال نیب کو اس وقت آیا جب اس کا وقت گزرچکا تھا۔کیا اس بارے میں کوئی پوچھ گچھ ہوگی یا نہیں؟ یا یہ خفیہ طورپر کیس خراب کرنے کی کسی طے شدہ حکمت عملی کا حصہ تھا؟
پاکستان کا ہر قانون پسند شہری یہ چاہتا ہے کہ اپنے جائز ناجائز اختیارات یا اپنی حیثیت سے فائدہ اٹھا کر جس نے بھی جو بھی جرم کیا ہو اس کے معاملہ میں کسی رو رعایت سے کام لینے یا اپنی کسی سہولت کی خاطر اسے قانون و انصاف سے بچانے کی سہولت دینے کے بجائے اسے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور اس کے جرم کی جو قانونی سزا ہے اس پربلا خوف و خطر عمل درآمد کرایا جائے۔ لیکن اگر آج بھی مقصد کسی کو اس کے جرم کی سزا دلانے اور دینے کے بجائے اسے اپنے مقاصد کے لیے محض دبائو میں رکھنے اور مقصد پورا ہونے پر اس کے جرائم پرپردہ ڈالنا ہے تو اسے انصاف نہیں کہا جا سکتا ۔ انصاف تو وہ ہوتا ہے جو ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔وعدہ معاف گواہ یا سہولت کار؟
ان دنوں ملک میں معافی کے وعدے پر گواہی دینے کا سلسلہ زوروں پر ہے۔ ایسے میں بہت سے ذہنوں میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ جب کسی شخص نے جرم کرنے یا شریکِ جرم ہونے کا اقرار کرلیا ہوتو اسے معافی کیسے مل سکتی ہے،یہ معافی صرف چند افراد کو کیوں ملتی ہے اور وہ بھی صرف ہائی پروفائل مقدمات میں اور صرف بڑے لوگوں کو؟
برطانوی قانون دان فرنے چارلس (Fearne Charles-1742-1794)نےاٹھارہویں صدی عیسوی میں’’ کرائون وِٹنیس‘‘کی قانونی اصطلاح متعارف کرائی تھی۔لیکن اس نے ایسا کچھ اور سوچ کر کیا تھا۔وہاں عدالتوں میں استغاثہ کو شدید مشکلات پیش آتی تھیں۔ شہادتوں اور شواہد کی عدم دست یابی کی وجہ سے ملزم صاف بچ نکلتے تھے۔چناں چہ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ کسی شریک ِجرم شخص کو رہائی کا لالچ دے کر کرائون وِٹنیس بنالیا جائے تاکہ مرکزی ملزم کے خلاف اس کی گواہی کو بنیاد بناکر اسےسزا دی جا سکے۔اس قانونی اختراع پراس وقت بھی انصاف پسند حلقوں نے سوالات اٹھائے تھے اور اب بھی ایسی گواہی معتبر خیال نہیں کی جاتی کیوں کہ ذاتی فائدے کی غرض سے ملزم کچھ بھی کہہ سکتا ہے
متعیّن تعریف نہیں
دراصل ہمارے فوج داری قانون میں وعدہ معاف گواہ کی کوئی تعریف متعیّن نہیں ہے۔ جب کسی فوج داری مقدمے میں واضح اورقابل اعتماد شہادتیں موجود نہ ہوں تو شریک ملزموں میں سے کسی ایک کو مقدمے کے اختتام پر رہائی دینے کے وعدے پر اقبالی بیان دینے پر تیار کیا جاتا ہے جس میں وہ وقوعہ میں ان افراد یا فرد کا نام اورکردار بیان کرتا ہے جس کی ایما پر اس نے یہ سب کچھ کیا تھا۔ رہائی کے وعدے پر اقبالی بیان دینے والا یہ ملزم وعدہ معاف گواہ کہلاتا ہے۔
استغاثے کے لیے سہولت
ہمارے سیاسی راہ نما جب حزبِ اختلاف میں ہوتے ہیں تو بہت سے قاعدے ،قوانین پر اعتراضات کرتے ہیں ،لیکن جوں ہی وہ اقتدار میں آتے ہیں وہ تمام اعتراضات ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں۔چناں چہ آج بھی ہمارا قانون(جس کا بیش تر حصہ انگریزوں کے بنائے ہوئے قوانین پر مشتمل ہے) استغاثے کو یہ سہولت دیتا ہے کہ وہ اپنے مقدمے کے اصل ملزم کے خلاف جرم ثابت کرنے کے لیے کسی دوسرے ملزم یا ملزمان کو وعدہ معاف گواہ بنا کر ان کی اصل ملزم یا ملزمان کے جرم میں اعانت کی ان کے اقبالی بیانات کے ذریعے تصدیق کرائے اور اس کی بنیاد پر اصل ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانے کی راہ ہم وار کر دے۔اس قانون کی موجودگی ہی کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹوکسی طرح تختہ دار تک پہنچائے گئے تھے۔لیکن بعد میں حکومت میں آنے والے سیاست دانوں نے بھی اس میں شاید یہ سوچ کر ترمیم نہیں کی کہ وہ اسے حزبِ مخالف کے خلاف استعمال کریں گے۔لیکن وقت انہیں غلط ثابت کرچکا ہے۔چناں چہ آج بڑے بڑے سیاست دانوں کے خلاف مقدمات میں وعدہ معاف گواہوں کا تانتا بندھا ہوا۔اور گواہ بھی وہ جو کبھی ان سیاست دانوں کے منظورِ نظر تھے۔
وعدہ معاف گواہ یا سہولت کار؟
دراصل استغاثہ نے بعض مقدمات قائم کرنےکے لیے ’’مخبروں‘‘کی خدمات حاصل کر رکھی ہوتی ہیں اور کیس ثابت کرنے کے لیے کبھی کبھار ایسے ملزمان میں سے کسی کووعدہ معاف گواہ (Approver) بنانے کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ اس طرح وعدہ معاف گواہ درحقیقت سہولت کار ہوتا ہے جو کسی کم زور کیس کو کسی ملزم کے خلاف مضبوط بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے صلے میں استغاثہ اسے متعلقہ مقدمے سے نکال دیتا ہے۔ تاہم یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ وہ وعدہ معاف گواہ کو جو درحقیقت متعلقہ مقدمے میں ملزم ہوتا ہے استغاثہ کی جانب سے اس کے ساتھ کیے گئے وعد ے کے مطابق اعترافِ جرم کے باوجود مقدمے سے نکال دے یا اس کے اعترافِ جرم کی بنیاد پر اسے سزا سْنا دے ۔ اس طرح وعدہ معاف گواہ کا مستقبل متعلقہ ٹرائل کورٹ کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔
ایک بہت بری مثال
اس ضمن میں پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سب سے اہم، مگربہت بری مثال 1977ء میں نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں ملوث ایف ایس ایف کے پانچ افسران اور اہل کاروں بہ شمول ڈی جی ایف ایس ایف، مسعود محمود اور ڈپٹی ڈائریکٹر غلام عباس کو وعدہ معاف گواہ بنانے کی ہے جنہوں نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف گواہی دی تھی کہ انہوں نے نواب محمد احمد خاں کو ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت پر قتل کیا اورکرایا تھا۔یہ گواہی ان کے اقبالی بیانات کی صورت میں دی گئی جن کے ذریعے انہوں نے خود بھی اپنے شریکِ جرم ہونےکا اعتراف کیا۔ چناں چہ اس مقدمے میں ٹرائل کورٹ بنائے گئے اور لاہور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کر کے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ایف ایس ایف کے اہل کار چار وعدہ معاف گواہوں کو بھی موت کی سزا سْنا دی۔ صرف مسعود محمود کو کیس سے باہر نکالے جانے کی رعایت ملی جنہوں نے اپنی باقی ماندہ زندگی جلاوطنی میں گزاری۔ایسے کیس کے فیصلہ کے بعد کوئی ملزم سوچ سمجھ کر ہی وعدہ معاف گواہ بنتا ہے کیوں کہ اس صورت میں اسے اپنے جرم کا اعتراف بہ ہر صورت کرنا ہوتا ہے جس سے اصل ملزم کے گلے میں پھانسی کا پھندہ ڈالنا تو آسان ہو جاتا ہے، مگر اعترافِ جرم کی بنیاد پر یہ پھندہ وعدہ معاف گواہ یا گواہوں کے گلے میں بھی پڑ سکتا ہے۔
ان گواہوں کی ضرورت کیوں؟
ایسے گواہان دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص مل ہی جاتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی پیدائش کا آغازکب اور کیسے ہوا۔دراصل برطانوی قانون دان فرنے چارلس (Fearne Charles-1742-1794)نےاٹھارہویں صدی عیسوی میں’’ کرائون وِٹنیس‘‘کی قانونی اصطلاح متعارف کرائی تھی۔لیکن اس نے ایسا کچھ اور سوچ کر کیا تھا۔وہاں عدالتوں میں استغاثہ کو شدید مشکلات پیش آتی تھیں۔ شہادتوں اور شواہد کی عدم دست یابی کی وجہ سے ملزم صاف بچ نکلتے تھے۔چناں چہ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ کسی شریک ِجرم شخص کو رہائی کا لالچ دے کر کرائون وِٹنیس بنالیا جائے تاکہ مرکزی ملزم کے خلاف اس کی گواہی کو بنیاد بناکر اسےسزا دی جا سکے۔ اس قانونی اختراع پراس وقت بھی انصاف پسند حلقوں نے سوالات اٹھائے تھے اور اب بھی ایسی گواہی کو معتبر خیال نہیں کیا جاتاکیوں کہ ذاتی فائدے کی غرض سے ملزم کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔یہ قانونی گنجائش تو شریک ِملزم کو سلطانی گواہ بنانے کی حد تک تھی، مگر استغاثہ نے یہ راستہ بھی نکال لیا کہ کسی بے گناہ شخص کو زبردستی شریک ملزم بنا کر گرفتار کرلیا جائے اور پھر اسے سلطانی گواہ بننے کے عوض رہائی کی پیش کش کی جائے۔
اخلاقیات اور انصاف کے بارے میں سوالات
دراصل وعدہ معاف گواہ ،یعنی شریکِ جرم شخص کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ وہ پھنسا ہے تو اس کی ساری لوٹ کھسوٹ اور ناجائز کام صرف اس شرط پر معاف ہو سکتے ہیں کہ وہ سچ بتا دے اور ایسے ثبوت مہیا کر دے جس سے دوسرے شخص کو سزا ہو جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں وعدہ معاف گواہ بننے والے مسعود محمود فیڈرل سیکیورٹی فورس کے سر براہ تھے۔ لہذا انہیں اپنے پھانسی چڑھنے کا خطرہ تھا۔آج بھی بعض سرکاری ملازم ایسے گواہ بن رہے ہیں۔حالاں کہ وہ برسوں مزے کرتے رہے اورمبینہ ناجائز کاموں میں معاونِ خصوصی بنے رہے۔دوسری جانب پاکستان کا قانون کہتا ہے کہ غیر قانونی کاموں سے انکار کر دیا جائے ۔سرکاری ملازم، وہ بھی بیوروکریٹس کی نوکری اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوتی ۔باس ناراض ہوجائے تو ان کا تبادلہ ایسی جگہ کردیا جاتا ہے جہاں یا تو ’’خشکا‘‘ ہوتا ہے یا وہ دور دراز علاقہ ہوتا ہے۔ اگرآج وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے اوپر والوں نے ان سے غلط کام کرائے تو ان لوگوں کا جرم بھی بڑے ملزم کے برابر ہے اور انہیں بھی سزا ملنی چاہیے۔ممتاز قانون داں وسیم سجاد کے بہ قول ان کی مدد اس لیے ضروری ہوتی ہے کہ نا قابلِ تردید ثبوت حاصل کیے جاسکیں۔لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ یہ سہولت صرف ہائی پروفائل کیسز میں کیوں فراہم کی جاتی ہے اور یہ رعایت صرف اعلی سرکاری عہدے داروں کے نصیب میں ہی کیوں آتی ہے؟اصولا تو یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ معاملات پر نظر رکھے۔ اینٹی کرپشن، ایف ائی اے اور بہت سے محکمے کس کام کے ہیں؟پاکستان کا آئین اسے اسلامی،جمہوری ملک قرار دیتا ہے۔اسلام کسی چور کو صرف اس لیے چھوڑدینے کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوسرے چور کو پکڑوا دے۔چناں چہ ہمیں اس قانون پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ایسا ہوتا رہا تو غلط کام کرنے والے بیروکریٹس ہمیشہ صاف بچ نکلیں گے اور اپنی حرام کی کمائی سے گلچھرے اڑانے بیرون ملک چلے جائیں گے۔ایسا ہوتا رہا تو اس ضمن میں اخلاقیات اور انصاف کے بارے میں سوالات اٹھتے رہیں گے۔
قانون کے غلط استعمال کی مثالیں
اس قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے ماضی میں بعض اہم مقدمات کے متنازع فیصلے دیے گئے۔ہمارے ملک میں ذوالفقار علی کی پھانسی کا فیصلہ اس کی بدترین مثال ہے۔لیکن ایسا اس سے قبل بھی ہوا تھا۔ بھگت سنگھ جسے بھارت اور پاکستان میں جدوجہد ازادی کا ہیرو سمجھا جاتا ہے، اسے سلطانی گواہوں کے ذریعے ہی قتل کے مقدمے میں پھنسا کر پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔بھگت سنگھ اور بی کے دَت نے 8اپریل 1929ء کو مرکزی دستور ساز اسمبلی میں بم پھینکے اور موقعے پر ہی خود کو سرنڈر کر دیا۔اس مقدمے میں دونوں کوچودہ برس قید کی سزا سنائی گئی۔ مگر بھگت سنگھ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوف زدہ انگریز حکومت نے انہیں ایک اور مقدمے میں پھنسانے کا فیصلہ کیا۔ہوا کچھ یوں تھا کہ لاہور میں برطانوی پولیس افسر جان پی سینڈرز اور ہیڈ کانسٹیبل چنان سنگھ کو قتل کر دیا گیا تھاجس کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج تھی مگر اسے بھی بھگت سنگھ کے کھاتے میںڈال دیا گیا۔یکم مئی 1930ء کو وائسرائے لارڈ اِروِن نے ایک آرڈی نینس کے ذریعے ا سپیشل ٹریبونل قائم کیا تاکہ بھگت سنگھ کا ٹرائل کیا جا سکے۔سماعت شروع ہوئی تو جے گوپال،پھندر گوش اور صبح سنگھ کو سلطانی گواہ بنا لیا گیا۔ٹریبونل نے بھگت سنگھ اور راج گرو کو سزائے موت سنا دی اور 23مارچ 1931ء کو انہیں لاہور میں پھانسی دے دی گئی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس ٹریبونل نے یہ سزا سنائی، اس کی اپنی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی کیوں کہ مقدمے کا فیصلہ ہونے کے تین ہفتے بعد ہی وہ آرڈی نینس اسمبلی سے منظور نہ ہونے کی وجہ سے کالعدم ہو گیا جس کی رُو سے ٹریبونل قائم کیا گیا تھا۔
انگریز تو چلا گیا ،لیکن اپنے پیچھے جو قانون چھوڑ کر گیا ہم نے اسے نام بدل کر اپنے سینے سے لگالیا ۔چناں چہ قیام پاکستان کے بعد اس نوعیت کا سب سے بڑا مقدمہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا تھا۔ اس وقت کی قومی اسمبلی کے رکن احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کو قتل کر دیے گئے تھے۔احمد رضا قصوری کے مطابق بھٹو صاحب انہیں قتل کی دھمکی دے چکے تھے اور چوں کہ اس وقت حکومت پیوپی پی کی تھی لہذا اس قتل کا الزام ایف ایس ایف (بھٹو صاحب کی بنائی ہوئی فیڈرل سیکورٹی فورس)پر لگایاگیا۔بنیادی طور پر اس مقدمے کے مرکزی ملزم ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود تھے جنہیں ضیاء الحق کے دور میں سلطانی گواہ بنا کر معاف کر دیا گیا اور پھر پھانسی کا پھندا ذوالفقار علی بھٹو کے گلے میں فِٹ کر دیا گیا۔مسعود محمود نے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ انہیں یہ حکم وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے دیا گیا تھا۔
چوبیس اکتوبر1977 کو احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کا مقدمہ مختلف مراحل سے گزرتا ہوا لاہور ہائی کورٹ پہنچا جہاں مولوی مشتاق حسین چیف جسٹس تھے ۔ وہ 1965 میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ وزیرِ خارجہ کے طور پر کام کرچکے تھے ،مگر وہ ذوالفقار علی بھٹو کے کھلم کھلا مخالف مشہور تھے۔کہا جاتا ہے کہ خود ذوالفقار علی بھٹو نے چیف جسٹس کے ساتھ اپنے ذاتی اختلاف کا معاملہ اٹھایا تھا اور جیسے ہی مقدمہ شروع ہوا انہوں نے اپنا اعتراض درج کروایا جس پر مولوی مشتاق نے کہا کہ یہ فیصلہ اعلیٰ عدلیہ کو کرنے دیں کہ مقدمے کی سماعت کون کرے گا۔ میں ہائی کورٹ کا جج ہوں، مقدمہ بھی میں سنوں گا اور فیصلہ بھی میں ہی کروں گا۔اس جواب پر بھٹو صاحب نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا۔
مقدمہ ٹرائل کورٹ کے بعد ہائی کورٹ سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ میں پہنچا تو سات رکنی بنچ نے تین کے مقابلے میں چار کے اکثریتی فیصلے سے ان کی سزا برقرار رکھی۔جسٹس غلام صفدر شاہ نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ مسعود محمود کے بعض بیانات صرف سنی سنائی باتوں کی ذیل میںآتے ہیں اس لیے بہ طور شہادت قابلِ قبول نہیں ہو سکتے۔علاوہ ازیں وعدہ معاف گواہ بہ ذاتِ خود کوئی ایسا قابلِ اعتماد گواہ نہ تھا۔ جسٹس محمد حلیم نے جسٹس غلام صفدر شاہ کی بات سے اتفاق کیا ۔جسٹس دُراب پٹیل نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا کہ سلطانی گواہ مسعود محمود کوئی قابلِ اعتبار گواہ نہ تھا اور اس قسم کے مقدمے میں اس کی شہادت سے زیادہ کوئی معتبر شہادت درکار تھی۔
پھر زمانہ بدلا تو قانون شہادت میں ترمیم کی گئی مگر وعدہ معاف گواہ بننے کا راستہ نہیں روکا گیابلکہ اس کا نام ’’سلطانی گواہ ‘‘ سے بدل کر ’’وعدہ معاف گواہ‘‘ کردیا گیا ۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں اسحاق ڈار کو وعدہ معاف گواہ بنا کر نوازشریف کو سزا دی گئی اور شریک ملزموں کے لیے وعدہ معاف گواہ بن کر رہائی پانے کی فراخ دلانہ پیش کش کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔آج مسلم لیگ (ن) ہی نہیں پیپلز پارٹی کی قیادت کا بھی اسیانداز سے سخت احتساب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
حکم رانوں کے لیے سبق
ہمارے حکم راں جب سرکاری حکام سے اپنے ناجائز احکا ما ت کی تعمیل میں مگن ہوتے ہیں تو انہیں قطعاً یاد نہیں رہتا کہ اقتدار سدا رہنے والی چیز نہیں اور کسی نہ کسی روز یہی غیر قانونی احکامات گلے کا پھندا بن سکتے ہیں اور ان کے حکومت میں ہونے کے وقت یس سر‘ یس سر کہنے والے شریکِ جرم سرکاری حکام مخبری کریں گے اوروعدہ معاف گواہ بنیں گے۔ ریڑھ کی ہڈی سے محروم سرکاری افسران طاقت ور حکم رانوں کی ہاں میں ہاں ملاتے‘ انہیں قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر من مانی کے طریقے بتاتے، غلط کاری پر اکساتے اور یہ باور کراتے ہیں کہ آپ سیاہ کو سفید کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔اس تابع داری اور اطاعت شعاری کی آڑ میں وہ اپنی اگلی نسلوں کا مستقبل سنوارتے ہیں، مگر جب کڑا وقت آتا ہے تو سارا ملبہ باس پر ڈال کر اپنی جان بچالیتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد بڑے بڑے حکم رانوں کے نفسِ ناطقہ کہلانے والے بیورو کریٹس کے انٹرویوز اور سوانح عمریاں پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ ان سے زیادہ دیانت دار،قابل، پارسا اور محب وطن سرکاری افسر پیدا نہیں ہوا۔ البتہ ان لوگوں کا جن حکم رانوں سے واسطہ پڑا وہ پرلے درجےکے کم عقل، بددیانت،قانون شکن اورمفاد پرست تھے۔ غلام محمد، اسکندر مرزا، ایوب خان اور ضیاء الحق جیسے حکم رانوں کا امیج مخالفین سے زیادہ صبح و شام ان کے نام کا ورد کرنے والے سول اور فوجی ساتھیوں نے خراب کیا اور انہیں برائی کا محور بتایا۔لیکن وہ اپنی اصلیت نہیں بتاتے۔
ماضی بھلائے نہیں بھولتا
آج ملک میں احتساب کا جو عمل شدت سے جاری ہے اگروہ کسی امتیاز و تفریق اور رُو رعایت کے بغیر جاری رہے توبہت اچھی بات ہے۔لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر آج سابق حکم راںزد میں ہیں تو کسی نہ کسی دن موجودہ حکومت کے غلط کار لوگ بھی اپنے کیے کی سزا بھگتیں گے کہ یہ مکافات عمل ہے۔ دوسری جانب نیب پر اعتراضات کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کل تک میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے اتفاق رائے سے چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے والے جسٹس (ر) جاوید اقبال کی مدح و ثنا میں مشغول تھے اور اسے صدی کا عظیم کارنامہ قرار دے رہے تھے۔ پھر آج ان کے خلاف اتنا واویلا کیوں؟
ایسا صرف ہمارے ہاں ہی ہوتا ہےکہ قائد حزب اختلاف کی گرفتاری سے جمہوریت خطرے میں پڑجاتی ہے۔ اسرائیل کا وزیر اعظم چودہویں بار تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوا۔ کوریا کے ایک سابق صدر کی حال ہی میں گرفتاری عمل میں آئی اور صدر پارک اپنے منصب پر موجودگی کے دوران گرفتارہوئیں۔ مگر دونوں ممالک میں سیاسی نظام کو کوئی خطرہ درپیش ہونے کی بات نہیں کی گئی۔ایک حقیقت یہ بھی ہےہمارے معاشرے میں طاقت وروں کے احتساب کی روایت نہیں ہے۔بدقسمتی سے پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں جرائم پیشہ عناصر سیاست اور سیاسی جماعتوں کی آڑ میں اپنا گھنائونا کاروبار کرتے اور حرام کی دولت اور طاقت کے بل بوتے پر پارلیمانی ایوانوں میں پہنچ کر مزید دولت و اختیار سمیٹتے ہیں۔ماضی میں کئی جرائم پیشہ اس راستے سے اسمبلیز میں پہنچے اور کئی سیاسی جماعتوں کاکاروبار ان ہی کے دم قدم سے چلتا ہے۔
آج نواز شریف کو بھٹو سے ملانے والے اور مریم صفدر کے ساتھ بے نظیر بھٹو جیسا برتائوکرنے کی باتیں کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اسی بے نظیر بھٹو کے خلاف میاںنواز شریف‘ نون لیگ اور اسلامی جمہوری اتحاد نے 1988ء اور 1990ء کے انتخابات کے دوران کیا زبان استعمال کی تھی اور ایک دن جب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پیلا سوٹ پہن کر قومی اسمبلی میں پہنچی تھیں تو مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے اراکین نے ان پر کیسی کیسی آوازیں کسی تھیں۔اس وقت میاں نواز شریف مسکراتے اور ڈیسک بجاتے دکھائی دیے تھے۔نواز شریف نے اپنے دو ادوار میں بے نظیر بھٹو کے خلاف 17 سے زاید مقدمات بنوائے۔ان کے بھائی شہباز شریف اور احتساب سیل کے سربراہ سیف الرحمن کا ان مقدمات میں کیا کردار تھا، یہ ذھکی چھپی بات نہیں۔ نواز شریف کے حکم کو سیف الرحمن نے جسٹس ملک قیوم تک پہنچایا تھا کہ بے نظیر بھٹو اورآصف زرداری کو کم از کم سات سال کی سزا دی جائے۔اس ٹیلی فونک گفتگو کی ریکارڈنگ منظر عام پر آئی تو دو ججز کو منصب سے الگ ہونا پڑاتھا اور سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر مقدمے کی دوبارہ سماعت کاحکم دیاتھا۔
احتساب بہ جا،لیکن انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے
احتساب کیجیے لیکن بھونڈے انداز میں نہیں،اسے مذاق نہ بنائیے۔ نیب کو ایسے وکلا دیں جو نامی گرامی وکیلوں کے پلّے کے ہوں۔ کہاجاتا ہے کہ نیب نے میاں نواز شریف کے کیس میں بہت سی غلطیاں کیں جن کا فائدہ میاں صاحب کے وکلا نے خوب خوب اٹھایا۔مریم صفدر کی جانب سے جھوٹی ٹرسٹ ڈیڈکے خلاف درخواست دینے کا خیال نیب کو اس وقت آیا جب اس کا وقت گزرچکا تھا۔کیا اس بارے میں کوئی پوچھ گچھ ہوگی یا نہیں؟ یا یہ خفیہ طورپر کیس خراب کرنے کی کسی طے شدہ حکمت عملی کا حصہ تھا؟
پاکستان کا ہر قانون پسند شہری یہ چاہتا ہے کہ اپنے جائز ناجائز اختیارات یا اپنی حیثیت سے فائدہ اٹھا کر جس نے بھی جو بھی جرم کیا ہو اس کے معاملہ میں کسی رو رعایت سے کام لینے یا اپنی کسی سہولت کی خاطر اسے قانون و انصاف سے بچانے کی سہولت دینے کے بجائے اسے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور اس کے جرم کی جو قانونی سزا ہے اس پربلا خوف و خطر عمل درآمد کرایا جائے۔ لیکن اگر آج بھی مقصد کسی کو اس کے جرم کی سزا دلانے اور دینے کے بجائے اسے اپنے مقاصد کے لیے محض دبائو میں رکھنے اور مقصد پورا ہونے پر اس کے جرائم پرپردہ ڈالنا ہے تو اسے انصاف نہیں کہا جا سکتا ۔ انصاف تو وہ ہوتا ہے جو ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔
0 Comments