کسی بھی ریاست کو چلانے کے لیے کچھ طور طریقہ سلیقے سے، قائدے سے ایک ضابطہ بنایا جاتا ہے۔ بیلینس کے ساتھ ایک نظام بنایا جاتا ہے ۔ تاکہ حکومت اور ریاست اور عوام کے درمیان ایک مضبوط رشتہ قائم ہوسکے اور کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو ۔ اصل میں ملک اور عوام کو مضبوط بنانے کے لیے ۔ طاقتور بنانے کے لیے ملک میں ریاست میں ایک نظام بنایا جاتا ہے ۔زمین بھی خوش اور زمین والا بھی خوش ۔ مالک بھی خوش اور نوکر بھی خوش ۔ اللّٰہ بھی خوش بندہ بھی خوش!۔

ملک کو چلانے کے لیے ایک نظام کا ہونا ضروری ہے ۔نظام کے زریعے عوام کی جان مال عزت و آبرو کی حفاظت کی جاتی ہے اور اس کو کو یقینی بنایا جاتا ہے اداروں کے زریعے ۔ اورعوام کی بہتر مستقبل کے لیے ان کو جدید تعلیم تربیت دی جاتی ہے ۔مختلف تعلیمی اداروں کے زریعے ۔ اور ہر قسم کی میڈیا کے زریعے ۔ اسکول اور مدارس کے سیلیبرس کے زریعے ۔ لیٹریچرز کے زریعے ۔ تاکہ عوام کی بنیادی تعلیم میں اضافہ ہو سکے ۔ عوام میں بنیادی شعور ہو ۔ عوام اچھے اور بروں کی پہچان کر سکیں ۔ عوام تعلیم کے زریعے اپنی پیشہ ورانہ مستقبل کا فیصلہ خود کریں ۔

آئین بنائی جاتی ہے ملک اور عوام کی بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے ۔

زمانے کے لہاز سے ۔ دنیا کی ترقی کے حساب سے ملک میں آئین سازی اور آئین میں ہمیشہ امنڈ مینٹس ہوتے رہتے ہیں ۔ آئین میں ترمیم ہوتی رہتی ہے ۔ ملکی اور عوامی مفاد عامہ کے پیش نظر ۔

اسی طرح عوام کی بہتری کے لیے۔ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ملک میں قانون سازی ہوتی رہتی ہے ۔ تاکہ عوام کی زندگی میں سکون رہے اور ڈیلی کے ڈیلی ہونے والے حالات و واقیات اور مسائل کو قانون کے زریعے انصاف سے حل کیا جا سکے ۔

آخر اس نظام میں کیا خرابی ہے ؟

اس نظام میں بنیادی خرابی یہ ہے کہ ۔ یہ نظام زمانے کے حساب سے اپ ٹو ڈیٹ نہیں ہے ۔ یہ کم از کم200 سال پورانا سامراجی نظام ہے ۔ اس کو غلامی کا نظام بھی کہتے ہیں ۔اس نظام کے زریعے گوڑے آقا ہم غلاموں پر حکومت کیا کرتے تھے۔

اس کو کوئی نہیں پکڑ سکتا

اس نظام میں چھوٹا آدمی ہمیشہ پریشان رہے گا ۔غریب ہمیشہ غریب رہے گا ۔ شریف ہمیشہ بیوقوف کہلاتا رہے گا ۔ اس نظام کے تحت ۔عام عوام نئے نئے مسائل میں گھیرے رہیں گے ۔

اور جس نے اس نظام کو استعمال کیا وہ ترقی کرتا رہے گا کرتا رہے گا ۔۔ جب تک کہ اس کے نصیب خراب نہ ہو ں۔یعنی وہ خدا کی پکڑ میں نہ آجائے ۔

اور آج اسی نظام کے زریعے ہمارے لوگ ہم پر حکومت کر رہے ہیں ۔

دنیا بدل گئی مگر ہمارا نظام سیاست طرز سیاست نہیں بدلا ۔ انداز سیاست میں تبدیلی نہیں آئی ۔ دنیا ترقی کر گئی مگر اس نظام کو ترقی نصیب نہیں ہوئی ۔

جن قوتوں نے اس نظام کو ہمارے یہاں لایا تھا حکومت کرنے کے لیے ۔ اس کے اپنے ملک میں اب یہ نظام نہیں چلتا ۔

اس نظام کے زریعے عوام کو قابو میں رکھا جاتا ہے ۔

فرض کیجئے آپ کے یہاں : ۔

بجلی ۔ گیس ۔ پانی یا کوئی ٹیکس وغیرہ کا زیادہ بلز آجائے ۔یا کسی بھی قسم کا کوئی غلط بل آجائے تو آپ سے کیا کہا جاتا ہے ۔

پہلے بل جمع کرو۔ پھر ہمارے پاس آو ؟ ایسا وہ کیوں کہتے ہیں ؟ یہ ہے نظام ۔

اس نظام کے زریعے وہ ہم پر حکومت کیا کرتے تھے

بیروکرٰیٹس کے زریعے حکومت کیا کرتا تھا ۔

عوام کو پولیس قابو میں رکھتی تھی ۔ اور پولیس کو ایس ڈی ایم وغیرہ قابو میں رکھتے تھے ۔اور ایس ڈی ایم کو ڈیپٹی کمیشنر اور اسیسٹنٹ کمیشنر قابو میں رکھتے تھے ۔ اور ڈپٹی اور اسیسٹنٹ کمیشنر کو کمیشنر قابو میں رکھتے تھے ۔ اور کمیشنرز کو گورنر قابو میں رکھتے تھے اور گورنر کو صدر یا لارڈ قابو میں رکھتے تھے ۔ اور یہ سب مل کر ملکہ برطانیہ کے وفادار تھے ۔

یہ تھا اس نظام کا مقصد۔

اور اگر عوام کو کوئی شکایت ہو تو وہ عدالت کو جائیں گے انصاف کے لیے ۔

اب اگر عوام کے عوام کے ساتھ کوئی مسائل ہے تو ٹھیک ہے ۔ عدالت ایکٹیو رول پلے کرتی تھی ۔ انصاف نظر آجاتا تھا ۔ مگر ۔۔۔

اگر عوام کا کوئی مسلہ خواص کے ساتھ ہوتا تھا تو انصاف اور قانون کی ہمدردیاں خواص کے ساتھ ہو تی تھی ۔

جس کا زندہ نمونہ آپ اپنے ارد گرد آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔

اگر آج کوئی بڑا آدمی ۔ ہر لہاز سے بڑا آدمی ۔ خواہ سیاسی طور پر بڑا ہو ۔ خواہ بڑا بیروکریٹس ہو ۔خواہ بڑا سرمایہ دار ہو ۔یا ان بڑوں کا کوئی دوست یار ، رشتہ دار ہو ۔ اگر وہ کوئی جرم کرتا ہے ۔کسی کو اپنے گاڑیوں تلے کچل دیتا ہے ۔ اور رنگے ہاتھوں پکڑا بھی جاتا ہے ۔ تو بھی اس کو اس نظام کے تحت سزا نہیں ہوتی ۔

خواہ وہ ملک اور ملک کے عوام کو لوٹ کر اپنی ذاتی تجوڑی بھرتا ہے پھر بھی انصاف اور قانون کے پاس اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہوتا اس بنا پر مجرم با عزت بڑی ہو جاتے ہیں ۔

تمام اداروں کو اس نظام کے تحت ہر قیمت پر خرید لیا جاتا ہے ۔

اور اب وہ لوٹیرا دوبارہ الیکشن اور سیلیکشن کے پروسیس کے زریعے ملک اور عوام کے وسائل پر دوبارہ ر مسلت ہوجاتا ہے ۔

اس کو کہتے ہیں آج کا سامراجی نظام

اگر کوئی اچھا اور مخلص حکمران ملک اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی کام کرنا بھی چاہیے تو وہ نہیں کر سکتا ۔

یہ بیروکریٹس کے زریعے ۔ گوڑا کالا سامراجی نظام ملک و عوام کی ترقی میں رکاوٹ ہے

وہ جب چاہیں عدالتی نظام کو ٹھپ کر دیں ۔

پولیس کے نظام کو ٹھپ کردیں ۔

تمام ملکی اداروں کو ٹھپ کر دیں ۔

تمام عوامی اداروں کو ٹھپ کر دیں ۔

اس سامراجی نظام کے زریعے


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *