کیا عوام کا پیٹ ہمیشہ ناروں سے بھرا جائے گا ؟ کبھی روٹی کپڑا اور مکان کا نعرة تو کبھی ملک بچاو قرض چکاو ۔تو کبھی 9 ستاروں کا اسلام خطرے میں ۔ تو کبھی پاکستان خطرے میں ۔ اور کبھی سب سے پہلے پاکستان کا نعرة لگایا گیا ۔ اور آج تبدیلی کا نعرة چاروں سمت گونج رہا ہے ۔

کیا ناچ گانے سے دنیا میں کوئی تبدیلی آئی ہے ۔

عوام کو بہت ہی زیادة توقعات اور اُمیدیں دلائی گئی کہ ہم ائے گے تو 3 مہینے میں ملک کی تقدیر بدل دیئں گے ۔ آئی ایم ایف کا قرضہ یوں اُتار دیا جائے گا ۔ اور مزید آی ایم ایف سے قرضہ نہیں لیں گے ۔ اور ملک سے غربت کا خاتمہ ہو جائے گا ۔اور کرپٹ عناصر سے چھوٹکارة مل جائے گا ۔ نجات مل جائے گا ۔ ملک کا لوٹا ہوا دولت ملک میں واپس لائے گے ۔ چوڑ حکمراں سے دولت کی ریکوری ہوگی اور ان کو عدالت سے سزائیں دیلوائیں گے ۔

توقعات کی حد سے زیادة بڑہاوا عمران خان نے دیا مگر تیاری نہیں کیا Without home work High expectation

جب انسان کسی کو بہت اُمیدیں دلاتا ہے ۔ اور کام نہیں کرتا ہے ۔ تو وہی آج کا دوست کل کا دشمن بن جاتا ہے ۔ کیوں کہ وة شخص اپنی غرض سے اپ کے قریب آیا تھا ۔ آپ کی محبّت نے نہیں اُسے آپ کے قریب لایا تھا ۔

بلکل ایسا ہی کچھ معاملا عمران خان کے ساتھ ہوا ۔

عمران خان کے پاس ہُنر مند لوگ نہیں تھے ہاں بھیر ضرور جمع کیا ہوا تھا عوام کو خواب دیکھا کر

عمران خان نے جو پہلی غلطی کی وة یہ ہے کہ الیکٹیڈ لوگوں کو ۔کرپٹ لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل کیا ۔ جو پہلے ہی سے سیاست کے ہر داو پیج سے واقف تھے ۔ ان کو سب معلوم تھا کہ کیسے حکومت کی جاتی ہے ۔ اور کہاں کہاں سے مال کمایا جاتا ہے ۔ اور عوام کو کیسے بیوقوف بنایا جاتا ہے ۔

عمران خان نے ایک وقت میں سارے مافیہ کے خلاف مہاز کھول لیئے

یہ مخلیصی تو ہو سکتی ہے مگر حکمت عملی نہیں ۔ ریاست جزبات سے نہیں چلائے جاتے ۔ 70 سال کی غلاظت کو 70 دن میں صاف نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ وة بھی اناڑی کھیلاڑی کے ٹیم کے ساتھ ۔ اگر ان کی ٹیم عقلمند اور مخلص ہوتی تو ایک ایک کر کے کرپٹ سیاست دانوں کا احتساب کرتے ایک ساتھ نہیں ۔

اس فارمولے کو ہم جیسے عام لوگ جانتے ہیں ۔ کہ ایک ساتھ کئی محاض پر جنگ نہیں لڑی جا سکتی ہے ۔ اور اگر لڑیں گے تو ہار جائے گے ۔ یہ لڑائی کے اصول کے بھی خلاف ہے ۔

مگر حکومت نے ایسا کیوں کیا ؟ کیا اس عمل کے پیچھے بھی کوئی سازش ہے ؟ ہم جیسے لوگ کہے گے کہ جی ہاں ۔ کوئی نہ کوئی دال میں کالا ہے ۔

سب سے بڑا صوبہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ کو کیسا ہونا چاہیئے ؟ کیا وة ویسا ہے ؟

کیا بیرو کریسی کے رویے میں کوئی مثبت تبدیلی آتی ہوئی نظر آرہی ہے ؟ کیا بیروکریسی پر کوئی قابو پایا جا سکا ہے اب تک ؟ بلکل نہیں ۔

کیا اچھے ٹکنو کریٹ کو کام میں لایا جاسکا ؟ نہیں ہرگز نہیں ۔

کیا اسکول ایجوکیشن کا کوئی اصلاحی نظام وجود میں آیا ؟ ؟ جہاں سے قوم کے معمار پیدا ہوتے ہیں ۔ میں کہوں گا نہیں ۔ بلکہ کوئی خاطر خواة پلانگ بھی نہیں کی گئی ۔

کیا پولیس ریفارم میں کوئی اصلاحات ہوا ؟ کیا کوئی نظر آنے والی تبدیلی نظر آرہی ہے؟

کیا عدالتوں میں تیز تر انصاف ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ؟

اخلاقی تبدیلی کی شروعات پارلیمینٹ سے ہوتی ہے کیا وہاں کوئی تبدیلی نظر آرہی ہے ؟

بات کرتے ہیں کہ عوام میں اخلاقیات کی کمی ہے ۔ تو اس کا ذمہ دار کون ہے ۔ کس کس نے عوام کو بیوقوف نہیں بنایا ان 70 سالوں میں ۔

عوام سے سبہوں نے جھوٹ بولا ۔ جھوٹے خواب دیکھائے ۔ جھوٹے توقوعات دیئے ۔ جھوٹے وعدے کئیے ۔ جھوٹی قسمیں کھائیی ۔

بجلی کا کوئی نیاء پروجکٹ نہیں لگایا ۔ صاف پانی کے لیئے کوئی ڈیم نہیں بنائیا ۔ اسکول ۔ کورٹ کچہری ۔ کھانا پانی ۔ سب مہنگا ئی کے ہاتھوں پریشان ہیں ۔

مرتا کیا نہیں کرتا ۔ ڈیل اور ڈھیل ہمیشہ ہوتا رہا

ہر شعبے میں اور ہر جگہ ڈیل اور ڈھیل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ۔

غربت اور جہالت کی ہے انتہا ۔ اور سبق پڑھاتے ہیں اخلاقیات کی ۔

پیٹ خالی اور سر ہے نگا ۔ بیماری اور بے روزگاری سے ہیں سب پریشان ۔

جھوٹ ۔فریب ۔ ذخیرة اندوزی ۔ ملاوٹ ، ہر چیز میں ملاوٹ ۔ دین میں بیدتیوں نے ملاوٹ کرکے مال کما رہے ہیں ۔ ۔ کھانے پینے ۔ کی چیزوں میں ملاوٹ تاجروں نے کی اور مال کما رہے ہیں پہنّے اوڑھنے ۔ کی چیزوں میں ملاوٹ کی سرمایہ داروں نے اور مال کمارہے ہیں ۔ بے خوف و خطر کرائم و کرپشن ہو رہا ہے عام ۔ کیوں کہ سب چیز ہے یہاں بیک نے کے لیئے تیار ۔ بس خریدار لگائے بولی اور یہ سب بُرائی آئی ہے حکمرانوں سے ۔ جن کا 70 سالوں میں کبھی احتصاب نہیں ہوا ۔ ہاں ڈیل اور ڈھیل ضرور ہوتا رہا ۔


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *