انسان فطرتاً معاشرت پسند ہے جو کبھی یا ہمیشہ کے لیئے تنہا رہنا پسند نہیں کرتا ۔

ارسطو کے نزدیک انسان ایک سماجی حیوان ہے ۔ Man is a social animal

ارسطو نے یہ بات ہزاروں سال پہلے کہی تھی اور اسکی یہ بات ہر دور میں فیٹ آتی ہے ۔

انسانی زندگی نام ہی اتحاد و تعاون اور اشتراک عمل کا ہے ۔ انسان کو دنیا میں رہنے اور اپنے مسائل کو حل کرنے اور نسل انسانی کی خیر و بقاء اور خاندانی زندگی کی تحفظ کے لیئے معاشرتی جماعتوں اور مختلف تنظیموں سے باہمی تعاون کرنا نا گزیر ہو چکا ہے ۔

تاریخ انسانی : اس بات کی گواہ ہے کہ بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کے عمل نے خاندان سے خاندان کو ، گروہ ۔ قبائل اور شہروں اور سلطنتوں اور قوموں کی شکل دے دی ہے ۔

تمام انسان آدم کے اولاد ہیں مگر الگ الگ پہنچان ہیں

لیکن ہزاروں لاکھوں برس کے ارتقائی عمل کے بعد کوئی یورپی ہے تو کوئی ایشیائی ہے ۔کوئی ہندوستانی ہے تو کوئی پاکستانی ہے ۔ کسی کی نسل پختون ہے تو کوئی راجپوت ہے ۔ کوئی بہاری ہے تو کوئی بنگالی ہے ۔ کوئی سندھی ہے تو کوئی بلوچی ہے ۔ وغیرہ ، وغیرہ ۔

اسی قومی نسل اور علاقائی تشخص نے انسانوں میں اپنی اپنی علیحدہ گروہی پہچان اور نسلی اور قومی ریاستیں قائم کرنے کا شعور پیدا کرتا جا رہا ہے ۔

ماہر سماجیات اور علم سیاسیات کے خیال میں ریاست کی تخلیق تین اہم ترین نظریات پر مشتمل ہیں جو درجہ ذیل ہیں ۔

نظریہ تخلیق ربانی اور نظریہ جبر اور نظریہ معاہدہ عمرانی

تاہم نظریہ خواہ کچھ بھی ہو اور اس کی صداقت کو پرکھنے کا پیمانہ کوئی بھی متعین کیا جائے ۔ یہ بات طے ہے کہ ریاست کا وجود ہر دور میں کسی نہ کسی انداز میں رہا ہے ۔ کسی نہ کسی شکل میں موجود ضرور رہا ہے ۔

انسانی زندگی اپس کے اتحاد اور باہمی تعاون ۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر اشتراکِ عمل کا نام ہے ۔

اور ریاست انسانوں ہی سے آباد اور شاد بعد منزلِ مرآد ہوتی ہے ۔ اس لیئے ریاستوں کے قیام کے بعد یہ ریاستیں انسانی فطرت کے مطابق اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیئے ایک دوسرئے کے ساتھ تعاون بھی کرتی ہے ۔

قانون بین الاقوام کا نقطہ اغاز

جب کبھی حیوانی جبلت اور جاہ جلال کا طلب گار انسان پر اقتدار کے لالچ کا غلبہ طاری ہوا اور کسی ریاست نے دوسری ریاست پر قبضہ کرنے اور وہاں کے وسائل ہتھیانے اور عوام کو اپنا تابع کرنے اور اپنا فرما بردار بنانے کے لیئے ہر راستہ اپنایا ۔

اسی شیطانی جذبے نے کہیں ہلاکو خان اور چنگیز خان جیسے خونی دریندے کو پیدا کیا ۔ جس نے اپنے اقتدار کو بڑھانے کے لیئے ہر راستہ اپنایا ۔ جس ملک کو فتح کیا اس ملک کے لوگوں کا قتل عام کیا ۔ ہلاکو خان اور چنگیز خان مفتوحہ ملک کے عوام کو بھیڑ بکری کی طرح ذبح کر ڈالا کر تا تھا ۔ اور ان کے سروں کے مینار تعمیر کروایا کر تا تھا ۔ اور یہ سب صرف اور صرف اپنے اقتدار کو قائم و دائم رکھنے کے لیئے کیا کرتا تھا ۔ انسانی کھوپڑی کا مینار بنایا اس کا مشغول ترین کام تھا ۔ تاکہ اس کا دھشت پوری دنیا میں قائم ہو ۔

حضرت انسان میں خیر اور شر دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں ۔ بے پناہ خون بہانے کے بعد مختلف ریاستوں نے یہ سوچا کہ : ۔ ریاستوں کی باہمی ضروریات کو پورا کرنے کو اور یہ مسلسل جنگ و جدل کو روکنے کو اور عوام کو کشت و خون سے بچانے کے لیئے دوستی اور تعاون کے کچھ اصول بنائے جائے تاکہ انسانی خون نہ بہے ۔

اسی ضوابط کو قانون بین الاقوام کا نقطہ اغاذ کہتے ہیں ۔ یہی سے اس سوچ کی ابتدا ہوتی ہے ۔ مگر اس بات کو ذہن میں رکھے کہ آج سے چند سو سال پہلے تک ریاستوں کی محدود ضروریات اور زرائع رسل و رسائل اور موصلات کی محدود ہونے کے سبب ریاستوں کے باہمی تعلقات بھی بڑے محدود ہی ہوا کرتے تھے ۔

اور ریستیں اپنی ضروریات خود ہی پوری کر لیا کرتی تھیں ۔ لیکن اب ریاستیں ترقی کرتی ہوئی ایک دوسرے کی سرحدوں کے اندر آن پہنچی ہیں ۔ اس کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر ایک ہوائی جہاز 4گھنٹے میں کراچی سے سعودی عرب لے جاتا ہے ۔ تو ڈش انٹینا اور انٹرنیٹ کی بدولت ہم چشم زون میں پورے دنیا کو پہنچ جاتے ہیں ۔ اور اسی ٹکنالوجی کے بدولت دنیا میں بہت تیزی سے ترقی آرہی ہے ۔

بین الاقوامی اصول وَ ضوابط

اور پھر ریاستوں کے درمیان سیاسی ، سماجی ، ثقافتی ،ادبی، تجارتی اور سائنسی تعاون بھی لازمی ہے ۔

ال غرض یہ ہے کہ جس طرح معاشرتی زندگی میں انسان کے باہمی تعلقات کے لیئے کچھ اصول و ضوابط کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اسی طرح شہروں کا نظم نسق چلانے کے لیئے بلدیاتی قوانین بنائے جاتے ہیں اور ریاستیں اپنی آئین کے ذریعے فرد کے حقوق و فرائض متعین کرتی ہیں ۔ زریعے طے کیئے جاتےہیں ۔ تاہم

بلکل اسی طرح ریاستوں کے حقوق و فرائض بھی ایک انٹر نیشنل اصول قانون کے زریعے طے کیئے جاتے ہیں ۔

ا

اور اسی طرح دنیا میں انٹر نشنل معاہدے ہوتے ہیں۔


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *