اللّہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں غصّے کا علاج۔
غُصّہ کے وقت صبر کرنا اور برائی کو معاف کرنا:- اسلامی طریقہ علاج۔ مومن یہ سوچے کہ اللّہ اور اس کے رسول نے غُصّہ آنے پر صبر سے کام لینے اور لوگوں کی غلطی کو معاف کردینے کا حکم دیا ہے۔
غصّہ اور غصّے کا علاج؟
غصّے کا علاج:– غصّہ ایک اخلاقی مرض ہے، اخلاقی پستی ہے۔ غصّے کا اگر فوراََ علاج نہ کیا جائے تو اس غصّے کا اثر آپسی نا اتفاقی، حسد و کینہ ، بغض و نفرت گالی و گلوچ حتٰی کہ مارپیٹ، قتل و غارتگری، خون خرابا، خونریزی جیسے جرائم و کرائم سے معاشرہ بھر جاتا ہے۔ گھریلوں زندگی میں بربادی میاں بیوی کے درمیان طلاقیں ہوجاتی ہیں۔\غصّے
غصّے کے مالی نقصانات
غصّے کی وجہ سے مال و اسباب اور آل اولادوں پر بد دعاوں کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لئے اپنے دین و ایمان پر قائم رہیے۔ غصور شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے غصّے کا علاج کروائے غصّہ ایک بیماری ہے۔ غصّہ ایک نفسیاستی مرض ہے اس کا علاج کا ضروری ہے۔۔
غصّے کی وجہ ہماری نفسیات ہے۔
اسلامی احکام کی رہنمائی میں غصّے کا علاج:- سب سے بہتر اور کامیاب ترین علاج دین اسلام میں ہے۔ اسلام ہر لمحہ ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ جب ہم غصّے کے شروعات اور وجہ پر غور و فکر کرتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ غصّے کی اصل وجہ تو ہم خود ہیں، ہماری اپنی نفسیات ہے
انسان غصہ اور جزباتی کیوں ہو جاتا ہے؟
غصہ، جزبات، ناراض، انتقام، دل و دماغ کا ماوف ہوجانا، منفی رویہ نیگیٹیو انرجی، احساس کمتری، یا احساس برتری غلط فہمی اور ڈر و خوف کا نتیجہ ہے۔
غصے میں انسان کا دماغ شعوری اور لاشعوری طور پر بند ہو جاتا ہے۔
Conces & Sub conces & Deep conces Anger
غصّے کے بُرے نتائج
غصّے کو برداشت نہ کرنے سے:- اگر غصّہ کو ہم نہ پیئے، غصوے پر قابو پانے کی کوشش نہ کریں تو انجام کو بھّگتنے کے لییے تیار ہو حائیں۔ غصّے کو برداشت کرنے میں عافیت ہے۔ دین اور دنیا کے اصول زندگی میں غصّے کے بُرے نتائیج بیان کئیے گئیے ہیں۔ دو منٹس کا غصّہ زندگی بھر کا پچھتاوا۔
غصّے سے بچئیے
غصّے کا بہترین علاج:– غصّے کے نتائیج پر غور کریں۔ دینی و دنیوی نتائج پر غور کریں۔ بسا اوقات ایک شخص غصّہ میں آکر انسان کوئی ایسی نامناسب بات کر جاتا ہے جس کا کوئی نعمُ اَلبدل نہیں ہوتا۔ غصے میں انسان ایسی حرکت کر جاتا ہے جس سے اس کی دنیا و آخرت برباد ہوجاتی ہے۔
انسان غصہ یا ناراض یا جزباتی کب اور کیوں ہوتا ہے؟
انسانی شعور میں عام طور پر چیزیں باہر سے آتی ہیں ۔ اور دل و دماغ میں آکر جمع ہوتی رہتی ہیں ۔ جسکا ہمیں پتہ ہوتا ہے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ انسانی عادتیں ہیں ۔ اس کا ہمیں پہچان ہے۔ اور اس کا ہم گاہے بگاہے اپنے روز مرّہ کے رویوں میں اظہار بھی کرتے رہتے ہیں ۔
انسان کا غصہ انسان کا جزبہ
غصہ کمزوری کی علامت:- غصہ، غیظ یا غضب ایک شدید منفی تیز ترّار جزبہ ہے۔ غصے کی حالت میں انسان سخت اضطراب آمیز اُلجھن میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ غصور انسان کے دماغ میں غیر دوستانہ رد عمل شامل ہونا شرع ہو جاتا ہے۔ جو اپنے سامنے والے شخص کی جانب سے محسوس کرتا ہے۔
غصہ کی ایک اور وجہ
غصے کی وجہ:- اُس کا دماغ اشتعال انگیزی کی سوچ سے بھرا ہوا ہوتا ہے، جذبات سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ غلط فہمی ابھہام سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ مجروحیت اور محرومیت سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ وہ سب کی زات کو بات کو اپنے لیے دھمکی اور چلینج سمجھنے لگتا ہے۔
غصہ بربادی ایک انتقام ہے
غصہ کا آتا:– غصہ اس وقت ہو سکتا ہے جب ایک شخص یہ محسوس کرنے لگے کہ اس کی شخصی حد بندی کو پامال کیا جا رہا ہے۔ یا جانے والا ہے۔ کچھ لوگوں کے پاس ایک آزمودہ آموختہ رجحان ہوتا ہے کہ وہ غصے کو جھیلنے کے لیے انتقام سے کام لیتے ہیں۔ بردباری یعنی غصہ
اکارڈنگ ٹو پروفیسر
ریمنڈ نو واکو جو یونیورسٹی آف کیلی فورنیا اروین میں 1975ء سے اس موضوع پر اچھا خاصا مواد تیار کر رکھا ہے۔ انہوں نے غصے کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
غصہ لاشعور یا فطرتِ ثانیہ ہے Sub concise or Deep Concise
شعور اور لاشعور میں چیزیں چھوپی ہوئی ہوتی ہیں ۔ جیسے کمپیوٹر میں چیپس ۔ ہم جو بچوں کے دماغ میں ڈاون لوڈ کرتے ہیں ۔ اس دماغ میں جو چیز بھرتے ہیں وہی محفوظ رہتا ہے ۔ یہ پیدائش سے 7 سال کی عمر تک کے بچوں کے دماغ میں جمع ہوتا رہتا ہے ۔
غصہ انسانی رویہ
انسانی رویوں پر غصے کے اثرات:- غیوں پر غصہ اس کا انسانی شخصیت پر بڑا گہڑا اثر پڑتا ہے۔ اور یہ اچانک انسانی رویوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
انسانی دل اور دماغ کی تربیت کون کرتا ہے؟
دل و دماغ کی پرورش:- ماں کی گود سے شروع۔ باپ کی شفقت وَ محبت سے شروع۔ گھر کے پورے ماحول سے شروع۔ رشتہ دار اور دوست یار اور عزیز و احباب اروس پروس سے شرع ۔ اسکول وَ مدرسہ اور کتابوں رسائل، میڈیا، سوشل میڈیا سے شروع ہوکر یہ دل و دماغ پر مکمل طور قبضہ کرکے شخصیت کا حصپ بنا دیتا ہے۔
خاندانی وراثتی عادات
خاندانی عادات:- یہ سب ملکر بچے کی بنیادی تربیت کرتے ہیں ۔سماعت سے تربیت بصری تربیت یعنی انکھوں سے جو کچھ دیکھتے ہیں اور کان سے جو کچھ سُنتے ہیں اور حادثات اور روز مرہ کے واقعات سے جو کچھ سیکھتے ہیں وہی ان کی بنیادی تربیت ہوتی ہے۔ خونی اور خاندانی وراثتی عادتیں بھی بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔
بچوں کا دماغ
بچہ اپنے دماغ میں:- احساسات کے ذریعے بچہ اپنے دماغ میں سب کچھ ریکارڈ کرتا رہتا ہے ۔ یہ ساری چیزیں بچے کی دل و دماغ میں ریکارڈ ہو جاتی ہے اپنے ارد گرد کے ماحول سے ۔ بات چیت سے ۔ کھانے پینے کی چیزوں سے ۔ سونے اور جاگنے سے ۔ جسے فطرت ثانیہ بھی کہتے ہیں ۔ اس سے بھی بچے بہت کچھ سیکھتے رہتے ہیں ۔
انسانی پسند اور نہ پسند
آپ کیا ہیں، آپ نے کیا سوننا ہے؟ اور آپ کیا سُننا چاہتے ہیں۔ آپ کیا سننا پسند کرتے ہیں۔ آپ نے کیا سمجھا۔ اور آپ کیا سمجھنا چاہتے ہیں؟ آپ کی اپنی پسند اور نہ پسند۔
آپ کے لاشعور میں آپ کے بڑوں نے کیا پروگرام ڈاون لوڈ کیا ہے ؟
انسانی احساسات کیا ہے؟یہ دل کی کیفیت کا نام ہے ۔ گھر کے ماحول باہر کےماحول اورفطرتی ماحول سے پروان چرھتا ہے۔
غصہ ایک خود غرضی
انسان بے حس کیوں کب اور کیسے ہوتا ہے؟ خود غرض کیوں کب اور کیسے بنتا ہے؟ مفاد پرست کب اور کیوں کیسے ہوتا ہے؟ ظالم اور جابر کب اور کیوں اور کیسے بنتا ہے؟ دوسروں کو بیوقوف بنا کر اس کا حق کب اور کیوں اور کیسے مار تا ہے؟
غصوروں کے احساسات
احساس آپ کے اندر کی کفیت کا نام ہے ۔ جو دل ، دماغ روح کی گہرائی میں رچا بسا ہوا ہوتا ہے ۔ اور اس کو آپ صرف محسوس کر سکتے ہیں۔ یا تو یہ آپ کے خون میں شامل ہوجاتا ہے۔ یا خاندانی وراثت کا تحفہ ہوتا ہے۔ جو بنیادی تعلیم و تربیت سے آپ کے حصے مِ آتی ہے اور فیملی سے ملتی ہے۔ یا پس منظر سے آپ کو ملتی ہے۔
انسانی خیالات انسانی احساسات کا سایہ ہے
انسانی نفسیات:- ہر انسان کے اپنے خیالات اپنے دل و دماغ، تن من، ظاہری و باطینی کفیت کے اندر گفتگو کرنے کا نام ہے۔ یہ ایک ان کہی دھندلا سا سایہ ہوتا ہے۔ جو کہ انکھوں سے نمایا ظاہر ہوتا ہے۔ انسان افسوس اور پیشانی کی سیلوٹیوں سے شکنوں سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ ایک باڈی لینگویج بھی ہے۔
انسانی احساسات اور غصہ
احساسات خیالات کو جنم دیتے ہیں اور خیالات الفاظ کو جنم دیتے ہیں اور اس سےواقعات رونما ہوتے ہیں اور اس طرح انسانی رویوں میں واضع تبدیلی آتی ہے ۔ ان ہی چیزوں سے انسان انسان کا دوست یاانسان انسان کا دشمن بنتا ہے۔
الفاظ سے پہلے خیالات کا آنا
انسانی دماغ میں الفاظ آنے سے پہلے سامنے والے کی تصویر خیالات کی صورت میں اس کے ذہن میں آتی ہے ۔ اس کے خیالات اس کے دماغ میں آتے ہیں کہ یہ سامنے والا جو شخص ہے وہ کیسا ہے ؟ وہ ایسا ہے؟ وہ ویسا ہے یا تھا ؟پھر جا کر کہیں الفاظ آتے ہیں۔
انسان کا دُہرا رویہ
مثلاً : ۔ ایک وکیل کورٹ کے کسی جج کے سامنے ایک بات کیسے پیش کرتا ہے اور وہی وکیل، وہی شخص وہی بات اپنے ماتحت کے سامنے کیسے پیش کرتا ہے۔ اور اپنے دوستوں کے ساتھ کیسے پیش آتا ہے؟
آدمی آدمی کو دیکھ کر بات کرتا ہے
اس کو کہتے ہیں شعوری گفتگو جو آدمی آدمی کو دیکھ کر بات کرتا ہے۔ اپنے جذبے کا اظہار کرتا ہے ۔ لوگوں سے پیش آتا ہے۔
غصہ حرام ہے
اگر انسانی احساسات اور خیالات کو توانائی اور انرجی مل جائے تو انسان کو غصہ آنے لگتا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ سامنے والے سے شکایت بھی ہوجائے یا شدید محبت ہو جائے اور پھر وہ اِس کی بات نہ مانے تو اِس کو اُس سے نفرت ہونے لگتی ہے؟ مگر یہ وقتی عمل کا ردِ عمل ہے غصہ حرام ہپے
غصہ کیوں نہیں آتا
اور اگر احساسات میں اور اس کے خیالات میں کوئی جزبہ نہ ہو۔ کوئی انرجی نہ ہو ۔ کوئی تونائی نہ ہو۔ کوئی طاقت نہ ہو تو انسان کے رویوں میں بھی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ۔ وہ ایک نارمل انسان ہوتا ہے ۔ ہر قسم کے منفی یا مثبت جزبات سے دور وہ شخص رہتا ہے۔ اور اُس کو غصہ بھی نہیں آتا۔
انسانی رویوں میں تبدیلی کب آتی ہے؟
اس کا تعلق اس کے علم یا جانکاری سے ہے یا واسطہ پڑنے پر ہے ۔ یا اچھے یا برے سلوک یا برتاو یا الفاظ سے رویوں میں تبدیلی آتی ہے ۔ تجربہ ہے کہ فلاں شخص کیسا ہے؟ اب وہ جان گیا کہ سامنے والا شخص کیسا ہے؟ اور الفاظ وغیرہ کی ادائگی کی بنیاد پر بھی انسانی رویوں میں تبدیلی آتی ہے۔
منفی احساسات اور منفی خیالات کو اگر انرجی مل جائے تو انسان کو غصہ آتا ہے
وہ اپنے سے چھوٹوں پر جتنا ہو سکے ظاہری یا باطنی غصہ کرتا ہے ۔ ظلم و زیادتی کرتا ہے ۔ اور اپنے بڑوں سے اپنے دل میں نفرت تو کرتا ہے ۔ حسد کرتا ہے ۔ مگر اظہار نہیں کر سکتا ۔ کیوں کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے سے بڑوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے ۔مگر چھوٹوں کی شامت آتی ہے ۔
احساس کے سایے
احساس کا سایہ خیال ہے۔ اور ان دونوں کو اگر طاقت مل جائے یا انرجی مل جائے یاکوئی اور موقع مل جائے تو اللّٰہ کی پناہ ۔ یا تو زندگی بن جائے گی یا زندگی بگڑ جائے گی ۔ یا تو اس میں خیر آئے گا یا شر آئے گا ۔ واللّٰہُ عالم بثواب۔
محمد رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا :۔کسی کو پچھاڑ دینے والا بہادر نہیں
بہادر تو وہ ہے جو غصے میں اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔
راوی ابو ہریرہؓ ہیں ۔ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم۔
اس حدیث میں اپنے حریف اور دشمن کو معاف کرنے اور اس معاملے کو در گزر کرنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے ۔
آدمی طاقت رکھنے کے باوجود غصے کی حالت میں اپنے مد مقبل سے انتقامی کاروائی نہ کرے اور غصے جیسے نازک موقع پر اپنے آپ کو قابو میں رکھے ۔
حقیقت یہ ہے کہ نفس کا جہاد کفّار کے خلاف جہاد سے بھی مشکل ہے ۔
اسی بنا پر رسول ﷺ نے غصے کے موقع پر اپنے نفس پر قابو پالینے والے کو تمام لوگوں سے زیادہ طاقت رو اور قوی شمار کیا ہے ۔
غصہ، جزبات، ناراض، انتقام، دل و دماغ کا ماوف ہوجانا، منفی رویہ نیگیٹیو انرجی، احساس کمتری، یا احساس برتری غلط فہمی اور ڈر و خوف کا نتیجہ ہے۔
اللّٰہ پاک ہمیں استقامت عطاء فرما، آمین یا رب عالمین۔
0 Comments