عدل و انصاف اور احسان کی فراہمی قانون سازی کے زریعے:۔

پارلیمنٹ کو ان فرائض و اختیارات سے اگر محروم کر دیا جائے تو پھر پارلیمانی نظام زمین بوس ہو جائے گا۔ ریاست کے دیگر ادارے اور ان کے دائرہ کار ‘اختیارات ‘اخراجات کا تعین پارلیمنٹ ہی طے کرتی ہے اور اسے اس طرح آئین سازی کے ذریعے قانون کا درجہ مل جاتا ہے۔

عدلیہ – جیوڈیشری، افواج و قانون نافز کرنے والے ادارے ، لاء انفورسمنٹ ادارے اور بیوروکریسی اور ٹیکنوکریٹس جیسے ادارے اور دیگر عوامی بھلائی کے ادارے وغیرہ جیسے تمام ادارے پارلیمنٹ کے بطن سے ہی وجود پاتے ہیں اور پھر اپنے اپنے آئین میں درج دائرہ کار اور قانون کے مطابق آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کے پابند کر دیے جاتے ہیں۔

سابقہ قومی اسمبلی کے اسپیکر جناب راجہ پرویز اشرف نے قومی اسمبلی میں آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کی مناسبت سے دو روزہ عالمی کنونشن کے افتتاحی سیشن سے خطاب میں فرمایا کہ پارلیمان طاقت کا مرکز، اور آئین کا مصنف اور واحد قانون ساز ادارہ ہوتا ہے۔ عوام کی مرضی پارلیمان سے جنم لیتی ہے اور تمام اداروں کو اس کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے۔ یہی ہمارے آئین کی روح ہے اور یہ ہمہ گیر، باہمی احترام، متنوع اور مکالمے یعنی بات چیت پر مبنی پاکستان کا واحد ادارہ ہے، راستہ ہے۔

راجہ پرویز اشرف نے مزید کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے انتخابی عمل کو مضبوط اور الیکشن کمیشن کو با اختیار بنایا گیاہے۔ مختلف ادوار میں دور میں اکثر و بیشتر یہ دو ادارے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ انتخابات پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ انتخابات سے پہلے، انتخابات سے قبل بھی الیکشن میں دھاندلی کرائی جاتی رہی ہے۔ راجہ پرویز اشرف مزید فرماتے ہیں کہ اب ہم یہ اُمید کرتے ہیں کہ ۔ ان دو اداروں نے ماضی کی تاریخ سے سبق سیکھا ہے یا سیکھا ہوگا۔ ،انھوں نے مزید کہا کہ عدالتیں الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت کرتی ہیں۔ جو آئین شکنی یا آئین سے انحراف کے مترادف ہے۔

جمہوریت کا بنیادی ڈھانچہ یہ ہے

آئینی اور جمہورییت پسند ملک میں تمام ادارے بہتر انداز میں آئین اور قانون کے مطابق کام کرتے ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی اور مقامی اور عالمی بحران سے نمٹنے کے لیے اور آنے والی پریشانی سے بچنے کے لیے جمہوریت کا بنیادی ڈھانچہ ضروری ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا فائدہ مند بھی ہے اور نقصاندہ بھی ہے اور جدید دور کا چیلنج بھی اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آئین سازی میں سب لوگوں کی رائے شامل ہوتی ہے۔ آئین میں ترامیم بھی پارلیمنٹ کرتی ہے۔ مگر جمہوریت کے ساتھ قانون اور ضانطے کے مطابق۔

جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کی اہمیت اور مقام مسلمہ ہے:۔

جن ملکوں میں پارلیمانی سیاسی جمہوری نظام حکومت رائج ہے۔ اُس جمہوری سسٹم میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی اہمیت اور اس کا مقام اس لیے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ان دونوں ایوانوں میں وہ لوگ بیٹھتے ہیں جنھیں الیکشن کے زریعے ووٹرز کی اکثریت ووٹ دے کر منتخب کرتی ہے ۔ تاکہ یہ نمائندے عوام کی نمائندگی ایوان میں کریں۔

پارلیمانی مظام کا تیسرا حصہ سینیٹ:۔

اس لیے اختیارات کا منبع اس ایوان کے منتخب کردہ وزیراعلیٰ اور کابینہ ہوتی ہے جب کہ وفاق میں وزیراعظم اور اس کی کابینہ کا بھی یہی مقام و مرتبہ ہوتا ہے۔ ایک اور اہم پارلیمانی ادارہ سینیٹ ہے۔ اس کے ارکان براہ راست ووٹ لے کر رکن نہیں بنتے بلکہ انھیں الیکٹرول کالج سسٹم کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان منتخب کرتے ہیں۔

پارلیمانی نظام کا تیسرا حصہ صدر کا آفس :۔

صدارت آفس عوامی تائید کا حامل ادارہ ہے۔ پارلیمانی نظام کا تیسرا حصہ صدر مملکت کا آفس ہے۔ صدر کو بھی عوام کے منتخب نمائندے منتخب کرتے ہیں جمہوری نظام بنیادی طور پر ان تین اداروں کے ذریعے عوامی نمائندگی کرتے ہیں اور عوامی منشا کا اظہار کرتے ہیں۔ آئین سازی سے لے کر قانون سازی تک یہ قانون میں ترامیم کرنا۔ نیا قانون بنانا ۔ پہلے سے موجود کسی قانون کو ختم کرنا اور ترمیم کرنا۔ سرکاری اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنا۔ اداروں کے سربراہان کو بلانا اور ان سے سوال و جواب کرنا اور ملک کا سالانہ بجٹ بنانا اور اس میں ترمیم و تبدیل یا اضافہ یا کمی بیشی وغیرہ کرنا یہ سب پارلیمنٹ کے آئینی اور بنیادی فرائض اور اختیار میں شامل ہے۔

پارلیمنٹ کا کمزور کردار

آج کون کون سے ممالک جمہوری اور سیاسی پستی اور تمام ادارہ جاتی زوال اور بحران کا شکار ہیں؟ اس زبو حالی کی بنیادی وجہ پارلیمنٹ کا کمزور کردار ہے ۔ پارلیمنٹرینز نے یعنی عوامی نمائندوں نے ہمیشہ اپنے گروہی ‘سیاسی اور زاتی مالی مفادات کو ترجیح دیتے رہے ہوہیں ۔ اور پارلیمنٹ کے آئینی رول پر ہمیشہ سے سمجھوتہ کیا ہے۔ اور اپنی زاتی مفاد کو ملکی اور عوامی مفاد پر ترجیح دیا ہے ۔ ایوب خان کے مارشل لاء سے لیکر آج تک پاکستان میں عوامی نمائندوں خرید و فروخت کا بازار لگا رہا اس طرح ان نمائندوں کی حیثیت متاثر ہوتی رہی ۔ کم تر ہوتی رہی۔ آئین اور قانون کو اپنی مرضی کا جامع پہنا کر اپنے مفاد کو حاصل کیا جاتا رہا ۔ اور تاحال جاری و ساری ہے۔


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *