عدل انصاف- احسان و مروت- بھلائی و خیر خواہی- ان کا بنیادی مقصد کیا ہے اور اس کو کیسے معاشرے میں کیسے قائم کیا جائے؟ عدل و انصاف کو ریاست احسان کے ساتھ قائم کرنا ہے۔ عدل و انصاف کو قائم کرنے کی زمہ داری پارلیمنٹ کی ہوتی ہے۔ معاشرے میں احسان و ہکمت کے ساتھ عدل کے نظام کو قائم کرنا
قانون کا بنیادی مقصد عدل و انصاف کی فراہمی ہے۔ عدل و احسان کی فرامی یعنی معاف کردینے والا قانون یعنی ایک بار خطا کار کو موقع فراہم کرنے والا قانون، قانون فطرت کے مطابق قانون سازی ہے ۔ قانون فطرت ۔ قانون ریاست قانون شریعت کا اہم ترین مقصد سماج میں عدل و انصاف کو بروبیکار لانا ہوتا ہے ۔ اور انسانیت کو ظلم و جبر ، تشدد اور بربرت اور سماج کو اس دریندگی کے چنگل سے نجات دلانا قانون کا کام ہے۔
لیکن اگر خود قانون درندگی کا آماج گاہ بن جائے ۔ قانون بے انصافی کا سبب بن جائے۔ قانون ظلم و زیادتی کا مسکن بن جائے ۔ شیلٹر بن جائے۔ سہولت کار بن جائے ۔ تو عوام اناس کیا کرے؟ جب قانون اپنا اہم ترین مقصد کھو دیتا ہے تو اور اپنے احسان کے معاملے کو کھو دیتا ہے تو ۔ قانون اپنے بنیادی مقصد کو بھول جاتا ہے تو ۔ اور قانون سے معاشرے میں عدل و انصاف اور احسان نہ ہو تو ؟ اور اگر قانون ساز اداروں پر ظلم اور جرائم پیشہ درندوں کا تسلُت قائم ہو جائے تو ملک و معاشرے میں انارکی بھیل جاتی ہے۔ عدل و انصاف قائم کیا جائے/
ملک و معاشرے میں دہرے قانون کے نقصانات عدل و انصاف کی عدم فراہمی سے۔
ہمارے معاشرے میں مراعات یافتہ طبقہ اور پاور فُل طبقوں کے لیے اور بڑوں کے لیے الگ قانون اور چھوٹوں کے لیے الگ قانون ۔ غریب کے لیے الگ قانون اور امیر کے لیے الگ قانون ہے۔ کیا اس طرح معاشرہ تباہ و برباد نہیں ہوجائے گا۔ قانون نافظ کرنے والے اداروں کا کیا کام ہے؟ قانون ساز ادرے جو پارلیمنٹ کہلاتے ہیں اُس پارلیمنٹ کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ بنیادی کام کیا ہے؟ بنیادی فرائض کیا ہیں؟ معاشرے میں انصاف قائم کرنا۔
البتہ میری نالیج کے مطابق پارلیمنٹ کا کام ملک اور ملک میں رہنے والے عوام کے بھلے کے لیے قانون سازی کرنا ہے ۔ مگر وہ عوام کے بھلے کے لیے قانون سازی میں ناکام ہو رہے ہیں۔ جن کا کام قانون سازی ہے۔ اگر وہی ادارے درندہ بن جائے ۔ یا درندوں کے سہولت کار بن جائیں؟ اگر وہ مفاد پرست بن جائیں ؟ وہی ادارے ظلم و بربریت کا سبب بن جائے؟ عوام کی خدمت کے بجائے اپنی خدمت میں لگ جائیں ؟ تو عوام بچارے کہاں جائیں ؟ کس سے شکایت کریں ؟ اپنی جان مال عزّت و ابرو کی حفاظت کیسے کریں؟ عدل و انصاف قائم کیا جائے۔
اگر غلط قانون سازی ہونےلگے تو معاشرے میں عدل و انصاف قائم نہیں ہو سکے گا۔
کسی بھی ملک کا پارلیمنٹ معزّز ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کا کام ملک کی ترقی کے لیے قانون سازی کرنا ہوتا ہے۔ عوام کی جان مال عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری پارلیمنٹ کا کام ہے ۔ پارلیمنٹ ملک میں چیک اور بیلینس کا کام کرتی ہے۔ عوام کی خوشحالی ۔ عوام کی روٹی روزی کو فراہم کرنے کی ذمہ داری پارلیمنٹ کی ہے۔ کیوں کہ پارلیمانی نظام حکومت میں پارلیمنٹرینز عوام کے ووٹوں سے الیکٹ ہو کر پارلیمنٹ کے ممبر بنتے ہیں ۔ یعنی یہ عوام کے نمائندے ہوتے ہیں۔ جن کا کام معاشرے ،یں عدل و انصاف قائم کرنا ہے۔
جبکہ پارلیمنٹرین پارلیمنٹ میں حلف اُٹھاتے ہیں۔کہ ہم آئین اور قانون کے دائرے میں رہے گے۔ اور ملک اور عوام کی خدمت کریں گے۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکے اور اگر غلط قانون سازی پارلیمنٹ کرنے لگےتو کیا ہوگا؟ ظاہر ہے کہ یہ ادارہ عوام کی قانونی حفاظت اور عدل و انصاف کی فراہمی کے بجائے ظلم اور بربریت کا پاسبان بن کر رہ جائے گا۔ اس نظام میں غریب غربت تر ہوتا جائے گا اور امیر امیر تر بنتا جائے گا۔ اس طرح معاشرے میں عدل و انصاف قائم نہیں ہو سکے گا۔
پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری معاشرے میں عدل و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا۔
اس خطرے معاشرے میں عدل و انصاف کو قائم کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ عدل کا مفہوم متعین کیا جائے۔ ملک و معاشرے میں عدل و انصاف کا صاف و شفّاف نظام قائم کیا جائے۔ لوگوں کو یقین ہو، اعتماد ہو کہ ہمارا ادارہ عدل و انصاف کی فراہمی میں مخلص ہے ۔ملک میں غریب اور امیر کے لیے الگ الگ قانون نہیں ہے۔ بلکہ عدل و انصاف سب کے لیے ایک جیسا ہے۔ یہ عوام کو یقین کب ہوگا؟ جب پارلیمنٹ اپنا آئینی کاردار ادا کرنے لگے۔ اس طرح معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہونے لگے۔
عدل و انصاف کی فراہمی کی بات سب کرتے ہیں مگر حقیقت میں اس پر عمل بہت کم لوگ کرتے ہیں۔ حقیقت میں سچ کے ساتھ نیڈر ہوکر کھڑے رہنے کی جُرت کم لوگوں میں نظر آتی ہے۔
پاکستان کی تاریخ کا سب سے سیاہ ترین دن 16 دسمبر 1971 تھا جب ارباب اختیار کےضد اور انا کے ہاتھوں ایک ملک دولخت ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ہر وہ دن سیاہ دن ہے جب جب فوجی مارشل لاء لگا یا سیول مارشل لاء کے زریعے اقتدار ۔ اقتدار پر قبضہ کیا اور سیاست دانوں نے سہولت کاری کی۔
“Adal O Insaaf” Means Jurisdictional and in Urdu Script, it is written as عدل و انصاف
About the difference between the two words of “Adal” and “Insaf”, they consider “Adal” (justice) giving the rights according to the laws and legal standards; even though in some cases, it may be harsh and inflexible; while in Insaf, there is less harshness and intensity and they speak of mercy and leniency۔
Watch this Video about: #LawyersTv Speaker #AdvocateAslam Aslam Pervez, Insaaf Aur Adal #Insaf Ki Farahmi Adal Insaf #Zulm O Barbaryat معاشرے میں عدل انصاف کی فراہمی ظلم و بربریت
0 Comments