بجٹ میں اراونڈ 34 کھرب اور 37 ارب روپیہ کے خسارے کو پیش کیا گیا ہے ۔ اللّہ کرے یہ خسارة کم ہو جائے تاکہ معصوم اور غریب عوام کی روز مرّة کی معار زندگی کچھ بہتر ہوسکے ۔ اس میں 11.8 فیصد کا بجٹ دِفاع کے لیئے رکھا گیا ہے ۔ ملازمین طبقے کی تنخواہوں میں تا حال کوئی اضافہ دیکھنے میںں نہیں آیا ہے ۔
پیٹی آئی کی گورنمٹ نے اپنے دور حکومت کا یہ دوسرا سالانہ بجٹ پیش کیا ہے ۔ اطلاع کے مطابق وفاقی وزیر صنعت و پیدا وار جناب حمّاد اظہر صاحب نے بجٹ تجاویز پیش کیئں ہیں ۔ اس بجٹ میں عوام پر کوئی نیا ٹکس نہیں لگایا گیا ہے ۔
پنشن کے لیئے 470 ارب روپے رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے ۔ جو کہ گزشتہ بجٹ کے مقابلے میں 1 . 3 فیصد رقم کا اضافہ ہوا ہے
عوام کے ترقیای کام کے مقاصد کے حصول کے لیئے 650 ارب روپے رکھے گئیے ہیں ۔
یہ 2020 اور 2021 کے بجٹ کا کل تخمینہ 65 کھرب اور 73 ارب روپے ہے ۔
اس مالی سال میں ایف بی آر کی ٹکس وصولی 49 کھرب اور 63 ارب روپے متوقع ہے تخمینہ لگایا گیا ہے ۔
اور غیر ٹکس شدة ا مدن ریوینیو 16 کھرب اور 10 ارب روپے رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے ۔
کرونا وائرس سے بچاو کے لیئے 61 قسم کے جو اشیا ہے اس پر کسٹم ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے ۔
اور ساتھ ہی کینسر مرض کی تشخیص کی اِکیوومنٹس اور کِٹس پر سے بھی ڈیوٹی اور ٹکس ختم کردی گئی ہے ۔
اور دیگر جان بچانے والی ادویات پر سے بھی کسٹمز ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے ۔ اس کے علاوة طبی الات کی خریداری ۔ اور حفاظتی لباس اور دیگر شعبے کے لیئے 75 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔
اس بجٹ کے دستاویزات کے مطابق اسموکنگ کے ائٹم اور الیکٹرانک سگریٹس ۔ بیٹری ۔ دیگر نوعیت کے تمباکو و دیگر اشیا پر عائد ایف ای ڈی میں 35 فیصد اضافہ کیا گیا ہے ۔
مہنگائی کو 9. 1 فیصڈ سے کم کر کے 6 . 5 فیصد تک لانے کی تجویز دی گئی ہے ۔
وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ اس بجٹ میں کوئی نیا ٹکس عائد نہیں کیا گیا ہے ۔
یاد رہے کہ گزشتہ مالی سال 2019 ۔ 2020 ۔ میں جی ڈی پی کی شرح منفی 0 . 4 فیصد رہی ۔ اور تین ہزار ارب کا نقصان پہنچا ہے ۔
وزیر اعظم کے مُشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے فرمایا کہ کرونا وائرس کی وبا سے پہلے معاشی ترقی کی شرح تین فیصد سے زیادة بڑہنے کی آمید تھی مگر منفی 4 فیصد رہی ۔
اور زرعی شعبے میں کل % 2. 67 فیصد ترقی ہوئی ۔ ا ور صنعت کا شعبہ متاثر ہوا ۔ اور اس میں ترقی صرف منفی 2 . 64 فیصد رہی ہے ۔
اور خدمات کے شعبے میں ترقی کی شرح منفی 3 . 4 فیصد رہی ہے ۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ کے مطابق اس وقت پورے ملک کی امدنی 0 . 4 کم ہوئی ہے ۔ جبکہ وة یہ سمجھ رہے تھے کہ ملک کی اَمدنی 0. 3 فیصد بڑهی گی ۔ جبکہ ایسا نہیں ہوسکا ۔ بلکہ 3 فیصد قومی امدنی میں ان کو نقصان دیکھنا پڑا ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ عالمی طور پر کرونا وائرس ہے ۔
یہاں کی معیشت 3 فیصد ڑہی ہے ۔ جبکہ افراط زر میں 10 فیصد کا اضافہ ہوا ہے
پی ٹی آئی کے لیئے بڑا چیلینج
مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ کا پی ٹی آئی پارٹی سے کوئی واسطہ نہیں تھا ۔ مگر آج وة حکومت کے بڑے اہم عہدے پر فائز ہیں ۔ وة ملک کے معاشی پالسی بناتے ہیں ۔ اور ان کے پاس تجربہ بھی ہے ۔ وة ہر دور میں حکومتی عہدے پر فائز رہیں ہیں ۔ جبکہ ان کے پاس کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں رہا ہے ۔
معیشت کے 7 بڑے ستون
نمبر ۔ 1 : کرنٹ اکاونٹ کی مضبوطی ہونی چاہیئے ۔ نمبر ۔ 2 : برآمدات میں اضافہ حکومت کی سرپرستی کے ساتھ ممکن ہےاسطرح زر مُبادلہ میں اضافہ ہو گا ۔ اور درامدات میں کمی سے ملک کا زر مُبادلہ بچے گا ۔ نمبر 3 : ٹکس اور دیگر محصولات کے نظام کو اسان بنانے سے ملک اور حکومت کے پاس لوکل پیسے اے گے ۔ اور فالتو اخراجات میں کمی کرنے سے ادارے کے پاس پیسے بچے گے اور ادارة مظبوط ہوگا ۔ نمبر 4 : سیاسی استحکام بہت ضروری ہے ۔ ملک کے استحکام کے لیئے ۔ نمبر 5 : ریاست کے تمام ادارے خودمختار ہوں اور جواب دیں ہوں ایک دوسرے کو ۔ نمبر 6 : ہر حالت میں ملک میں قانون کی حکمرانی ہو ۔ غریب اور امیر دونوں کے لیئے ایک جیسا قانون ہو ۔ ملک اور قوم کی بہتری کے لیئے ۔ نمبر 7 : بہترین خارجہ پالسی سے انٹر نشنل سرمایہ کار ۔ملک میں سرمایہ لگاےگے ۔تو اس سے بے روزگاری بھی کم ہوگی اور ملکی معیشت بھی بہتر ہوگی ۔ اسطرح عوام بھی خوش حال ہونگے ۔ انشاء اللّہ تعلیٰ ۔
P T C L
ان کی سب سے بڑی ناکامی پی ٹی سی ایل کی غلط اور ناکام ترین نیجکاری کی پالسی تھی ۔ ڈیل تھی اتیصلات کمپنی کے ساتھ کہ یہ ملک کو پیسے دینگے مگر مکمل پیسہ نہیں دیا ۔ یہ ایک عرب امارات کی کمپنی ہے ۔ اس کمپنی نے پی ٹی سی ایل کو پپلیز پارٹی کے دور میں خریدا مگر تقریباً مُفت میں ۔ اس کمپنی نے ہمیں 8 سو ملین ڈالر دینے تھے ۔ مگر اب تک ہمیں نہیں دیا گیا ہے ۔ اور نہ ہی مستقبل میں یہ ڈالر ملنے کی کوئی امید نظر اتی ہے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کے دامن پر ایک بہت بڑا ناکام پالسی کا دھبہ ہے ۔ یا کوئی اندرونے خانہ ڈیل ہو گیا ہمیں نہیں معلوم ہے ۔ اگر ڈاکٹر صاحب عوام کو حقیقت بتا دیں تو اچھا ہو گا ۔ مگر وة نہیں بتایں گے کیوں کہ وة ۔ ورلڈ بنک کے ملازم تھیں ، عوام کے نہیں ۔
0 Comments