بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اِفک کے لغوی معنیٰ بات کو الٹ دینا ہے۔ حقیقت کے خلاف کچھ بنا دینا اسی مناسبت سے اس کا معنی جھوٹ اور افتراء کیے جاتے ہیں۔ اگر یہ الزام کسی حوالہ سے بولا جائے تو اس کا معنی بہتان بن جاتا ہے بدترین قسم کا جھوٹ جو حق کو باطل سے اور باطل کو حق سے بدل دے پاکدامن کو فاسق سے اور فاسق کو پاکدامن بنا دے افک کہلاتا ہے

واقعہ اِفک یعنی واقعہ تہمت یعنی اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا واقعہ غزوہ بنو مصطلق جسے غزوہ بنو مریسیع بھی کہا جاتا ہے اس جنگ سے واپسی پر ماہِ شعبان بمطابق 5ھ/ انگریزی کا مہینہ جنوری 627ء سے واپسی پر یہ واقعہ پیش آیا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے آل ، اصحاب ، ازواج اور بنات پر جنہوں نے ہم تک دین پہنچایا۔ اُمّہاتُ المومنین میں سے میری امی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے شعبان المعظم میں پیش آنے والا دلخراش واقعہ آپ کے سامنے ذکر کیا جا رہا ہے

واقعہ اِفک کی تفصیل اور دلخراش واقعہ ہجرت نبویؐ کا پانچواں 5 سال تھا۔ شعبان المعظم میں پیش آنے والا یہ ایک دلخراش واقعہ ملاحظہ ہو۔

جنگ یا غزوہ بنی مُصطلق سے جب رسول اللہ ﷺ کی واپسی مدینہ تشریف لانے لگے تو ایک مقام پر پڑاؤ کیا۔ اس غزوہ میں آپ کے ساتھ ام المومنین عائشہ صدیقہ بھی تھی جو ایک ہودج میں سفر کرتی تھیں اور چند مخصوص آدمی اس ہودج کو اونٹ پر لادنے اور اتارنے پر مقرر تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ لشکر کی روانگی سے کچھ پہلے لشکر سے باہر رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئیں ، جب واپس ہوئیں تو دیکھا کہ ان کے گلے کا ہار کہیں ٹوٹ کر گر گیا ہے۔ وہ دوبارہ اس ہار کی تلاش میں لشکر سے باہر چلی گئی اور واپس آنے میں کچھ دیر لگ گئی اور لشکر روانہ ہو گیا۔ آپ کا ہودج لادنے والوں نے خیال کیا آپ اندر تشریف فرما ہیں کیونکہ آپ کی عمر مبارک اتنی زیادہ نہ تھی تو وزن محسوس نہیں ہوتا تھا انھوں نے ہودج لاد دیا اور پورا قافلہ منزل سے روانہ ہو گیا۔ آپ منزل پر واپس آئیں تو کوئی آدمی موجود نہیں تھا ، تنہائی اور اندھیری رات سے سخت گھبرائیں اور اکیلا سفر کرنا بھی مشکل تھا اس لیے آپ یہ سوچ کر لیٹ گئیں کہ جب اگلی منزل پر مجھے نہ پائیں گے تو میری تلاش میں ضرور یہاں آئیں گے۔ آپ لیٹی لیٹی سو گئیں ایک صحابی صفوان بن معطل  ہمیشہ لشکر کے پیچھے چلا کرتے اس خیال سے چلا کرتے تھے کہ لشکر کا گرا ہوا سامان اٹھاتے چلیں ، جب اس مقام پر پہنچے تو حضرت عائشہ کو دیکھا چونکہ آپ آیت پردہ سے پہلے ام المومنین کو دیکھ چکے تھے تو پہچان گئے اور انھیں مردہ سمبھ کر “انا للہ وانا الیہ راجعون” پڑھا۔ اس آواز سے حضرت عائشہ جاگ اٹھیں تو حضرت صفوان نے اپنے اونٹ کو ان کے قریب جا کر بیٹھا دیا جس پر آپ بغیر کوئی بات کیے سوار ہو گئیں اور حضرت صفوان نے اونٹ کی مہار پکڑ کر پیدل چلتے ہوئے اگلی منزل پر حضور ﷺ کے پاس پہنچ گئے۔ 

منافقوں کی شرارت اور بعض مسلمانوں کی غلط فہمی۔

منافقوں کے سردار عبداللّہ بن آبی کی شرارت نے اس واقعہ کو حضرت عائشہ پر تہمت لگانے کا ذریعہ بنا لیا اور خوب خوب اس تہمت کا چرچا کیا اور مدینہ میں اس منافق نے اس شرمناک تہمت کو اس قدر اچھالا اور اتنا شور و غل مچایا کہ مدینہ میں ہر طرف اس فتراء اور تہمت کا چرچا ہونے لگا اور بعض مسلمان مثلاً حسان بن ثابت اور مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش  نے بھی اس تہمت کو پھیلانے میں میس گائد ہوکر کچھ حصہ لے لیا ، حضور اقدس ﷺ کو اس شر انگیز تہمت سے بے حد رنج و صدمہ پہنچا۔  اس موقع پر عبد اللہ بن ابی نے کئی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ایک طرف رسول اللہ ﷺ اور  ابو بکر صدیق  کی عزت پر حملہ کیا۔ دوسری طرف اس نے اسلامی تحریک کے بلند اخلاق کو گرانے کی کوشش کی۔ تیسری طرف اس نے ایک چنگاری پھینکی کہ اگر اسلام اپنے پیروکاروں کی کایا پلٹ نہ کر چکا ہوتا تو مہاجرین اور انصار آپس میں لڑ پڑتے کیونکہ حضرت عائشہ کے حوالے سے جس شخص پر الزام لگ رہا تھا یعنی صفوان بن معطل کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا۔

عصمت عائشہ صدیقہ پر صحابہ کرام کی شہادتیں اور گواہیاں۔

حضور نبی کریم ﷺ کو عائشہ صدیقہ کی پاکدامنی پر پورا پورا یقین تھا لیکن چونکہ بیوی کا معاملہ تھا اس لیے آپ نے اپنی طرف براءت کا اعلان کرنے کی بجائے وحی الہی کا انتظار فرمانے لگے اور اس درمیان میں اپنے مخلص اصحاب سے مشورہ کرنے لگے۔

حضرت عمر فاروق نےعرض کیا یا رسول اللہ منافق یقیناً جھوٹے ہیں اس لیے کہ جب اللہ تعالی کو یہ گوار نہیں ہے کہ آپ کے جسم اطہر پر ایک مکھی بھی بیٹھ جائے کیونکہ مکھی نجاستوں پر بیٹھتی ہے تو بھلا جو عورت ایسی برائی کی مرتکب ہو خداوند قدوس کب اور کیسے برداشت فرمائے گا کہ وہ آپ کی زوجیت میں رہ سکے۔

حضرت عُثمان غنی بن عفان نے کہا کہ یا رسول اللہ! ﷺ جب اللہ تعالی نے آپ کے سایہ کو زمین پر نہیں پڑنے دیا تا کہ کسی کا پاؤں نہ پڑ سکے تو بھلا اس معبود برحق کیا اللّہ کی غیرت کب گوارا کرے گی کہ کوئی انسان آپ کی زوجہ محترمہ کے ساتھ ایسی قباحت کا مرتکب ہو۔

حضرت  حضرت علی کرم اللّہ و جہو بن آبی طالب نے یہ گزارش کی کہ یا رسول اللہ! ﷺ ایک مرتبہ آپ کے نعلین مبارک میں نجاست لگ گئی تھی تو اللہ تعالی نے جبرائیل کو بھیج کر آپ کو خبر دی کہ آپ نعلئن اقدس اتار دیں اس لیے بی بی عائشہ صدیقہ معاذ اللّہ اگر ایسی ہوتی تو ضرور اللّہ تعالی آپ پر وحی نازل فرما دیتا کہ آپ ان کو زوجیت سے نکال دیں۔

حضرت حضرت ابو ایوب انصاری نے اپنی بیوی سے کہا پنی عرض کیا جب اس تہمت کی خبر سنی تو انھوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اے بیوی سچ بتا اگر صفوان بن معطل کی جگہ میں ہوتا تو کیا تو یہ گمان کر سکتی ہے کہ میں حضور کی حرم پاک کے ساتھ ایسا کرتا تھا؟ تو ان کی بیوی نے جواب دیا کہ اگر حضرت عائشہ کی جگہ میں رسول اللہ کی بیوی ہوتی تو خدا کی قسم! میں کبھی ایسی خیانت نہیں کر سکتی تھی تو پھر حضرت عائشہ تو مجھ سے لاکھوں درجے بہتر ہیں اور حضرت صفوان جو بدرجہا تم سے بہتر ہیں بھلا کیونکر ممکن ہے کہ یہ دونوں ایسی خیانت کر سکتے ہیں۔

جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت بریرہ جو حضرت عائشہ صدیقہ کی لونڈی نے کہا اس سے سوال کیا تو انھوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ! اس ذات پاک کی قسم جس نے آپ کو رسول برحق بنا کر بھیجا ہے کہ میں نے بی بی عائشہ میں کوئی عیب نہیں دیکھا ، ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ وہ ابھی کمسن ہیں وہ گوندھا ہوا آٹا چھوڑ کر سو جاتی ہیں اور بکری آ کر کھا ڈالتی ہے۔

رسول اللہ نے اپنی بیوی ام المومنین زینب بنت جحش سے دریافت فرمایا جو حسن و جمال میں حضرت عائشہ کے مثل تھیں تو انھوں نے قسم کھا کر یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! میں اپنے کان اور آنکھ کی حفاظت کرتی ہوں خدا کی قسم! میں تو حضرت بی بی عائشہ کو اچھی ہی جانتی ہوں۔ 

رسول اللہ ﷺ کو ان جھوٹی خبروں سے تکلیف پہنچ رہی تھی۔

ایک دن رسول اکرم ﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر مسلمانوں سے فرمایا کہ اُس شخص کی طرف سے مجھے کون معزور سمجھے گا یا میری مدد کرے گا جس نے میری بیوی پر بہتان تراشی کر کے میری دل آزاری کی ہے۔ خدا کی قسم! میں اپنی بیوی کو سب سے بہتر جانتا ہوں۔ اور ان لوگوں یعنی منافقوں نے ان پر بہتان لگایا ہے۔

عائشہ صدیقہ پر صورت حال کا انکشاف

ام المومنین عائشہ صدیقہ مدینہ پہنچتے ہی سخت بیمار ہو گئیں ، پردہ نشنین تو تھیں ہی صاحب فراش ہو گئیں انھیں اس تُہمت تراشی کی بالکل خبر ہی نہیں ہوئی۔ جب آپ کو مرض سے کچھ صحت ہوئی تو ایک رات ام مسطح صحابیہ نے بتایا کے ساتھ رفع حاجت کے لیے صحرا میں تشریف لے گئیں تو ان کی زبانی آپ نے اس دلخراش اور روح فرسا خبر کو سنا۔ جس سے انھیں بڑا دھچکا لگا اور شدت رنج و غم سے نڈھال ہوگئیں چنانچہ آپ کی بیماری میں مزید اضافہ ہو گیا اور دن رات بلک بلک کر روتی رہیں۔ آخر جب آپ سے صدمہ برداشت نہ ہو سکا تو رسول اللّہ ﷺ سے اجازت لے کر اپنے والدین کے گھر چلی گئیں اور اس منحوس خبر کا تذکرہ اپنی ماں سے کیا ، ماں نے تسلی و تشفی دی مگر یہ برابر روتی رہیں۔

رسول اللہ ﷺ آرام فرما رہے تھے ابو بکر صدیق کے گھر

ایک دن رسول اللہ اچانک تشریف لائے اور فرمایا کہ اے عائشہ! تمھارے بارے میں ایسی ایسی خبر اڑائی گئی ہے اگر تم پاکدامن ہو اور یہ خبر جھوٹی ہے تو عنقریب خداوند تعالی تمھاری براءت بذریعہ وحی اعلان فرما دے گا۔ ورنہ توبہ و استغفار کر لو کیونکہ جب کوئی خدا سے توبہ کرتا ہے اور بخشش مانگتا ہے تو اللہ تعالی اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ حضور کی یہ گفتگو سن کر حضرت عائشہ کے آنسو بالکل تھم گئے اور اور انھوں نے اپنے والد ابو بکر صدیق سے کہا کہ آپ نبی کریم کا جواب دیجیے۔ تو انھوں نے کہا فرمایا خدا کی قسم! میں نہیں جانتا کہ حضور کو کیا جواب دوں؟ پھر انھوں نے ماں سے جواب دینے کی درخواست کی تو ان کی ماں نے بھی یہی کہا پھر خود حضرت عائشہ صدیقہ نے حضور کو یہ جواب دیا کہ لوگوں نے جو ایک بے بنیاد بات اڑائی ہے اور یہ لوگوں کے دلوں میں بیٹھ چکی ہے اور کچھ لوگ اس کو سچ سمجھ چکے ہیں اس صورت میں اگر میں کہوں کہ میں پاک دامن ہوں تو لوگ اس کی تصدیق نہیں کریں گے اور اگر میں برائی کا اقرار کر لوں تو سب مان لیں گے حالانکہ اللہ تعالی جانتا ہے کہ میں اس الزام سے بری ہوں اور پاک دامن ہوں اس وقت میری مثال حضرت یوسُف علیہ اسلام کے والد حضرت یعقوب علیہ اسلام جیسی ہے لہذا میں وہی کہتی ہوں جو انھوں نے کہا تھا اور ‎ ​یہ کہتی ہوئی انھوں نے کروٹ بدل کر منہ پھیر لیا اور کہا اللہ تعالی جانتا ہے کہ میں اس تہمت سے بری ہوں اور پاک دامن ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اللّہ سبحان و تعلیٰ ضرور میری براءت کو ظاہر فرما دے گا۔ 

براءت بذریعہ وحی

رسول اللّہ ﷺ حضرت ابو بکر صدیق کے گھر میں موجود تھے اور ابھی تمام لوگ اپنی جگہ پر بیٹھے تھے کہ اچانک حضور پر وحی نازل ہونے لگی اور آپ پر نزول وحی کے وقت کی بے چینی شروع ہو گئی۔ شدید سردی کے موسم میں آپ کے بدن مبارک سے پسینے کے قطرے ٹپکنے لگے۔ وحی اترنے کے بعد رسول اللّہ ﷺ  نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اے عائشہ! تم خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کی حمد کرو کہ اس نے تمھاری براءت اور پاکدامنی کا اعلان فرما دیا اور پھر آپ نے قرآن کی  سورہ نور میں سے دس آیتوں کی تلاوت فرمائی جو آیت نمبر گیارہ 11 سے شروع ہو کر بیس 20 پر ختم ہوتی ہیں۔

Part #72AyeshaSiddiqa Story in urdu | Hazrat Ayesha #Mother of Believers | #Hazrat Ayesha Ka Waqia Seerat-e-Ummahat-Ul-Momineen #Islamic History and Aisha Siddiqa R A Per #Waqia Efeq Ki Dil Kharash #Waqaia

سیرت اُمہاتُ المُومینین

Hazrat Ayesha per Tohmat ka Waqia, Hazrat Ayesha ki Zabani #Sahabi #Surah Noor #AyeshaSiddiqa

واقعہ #اِفک یعنی #واقعہ تہمت ٰحضرت #عائشہ #صدیقہ پر

Ayat From #11 to 20 Verses of Surah Noor were revealed proving that Hazrat Aisha Ayesha Siddiqa was Innocent and had not committed any sin.

اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر مدینہ کے منافیکین کا سردار عبداللّہ بن آبی نے جو الزام لگا گیا تھا وہ اس الزام اور تُہمت سے بری ہوگئی ۔

For more information Visit our Website: #https://legalrightsactivists.org

اِفک کے لغوی معنیٰ بات کو الٹ پلٹ دینا ہے۔ حقیقت کو افسانہ اور افسانہ کو حقیقت بنا کر پیش کرنا اسی مناسبت سے اِفک کے معنی جھوٹ کزب یا دروغ گوئی کے ہیں۔ اگر یہ الزام کسی بھی حوالے سے بولا جائے تو اس کا معنی بہتان تراشی بن جاتا ہے۔ یہ بدترین قسم کا جھوٹ ہے جو حق اور سچ کو ناحق اور جھوٹ سے اور باطل کو حق سے بدل دے پاکدامن پر الزام لگا کر فاسق بنا دے ۔ اور فاسق کو پاکدامن بنا دے یہ ہے افک ۔

جن لوگوں نے یہ بہتان تراشی کی حضرت عائشہ پر بہتان لگایا وہ تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اسکو اپنے حق میں برا نہ سمجھنا۔ بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے۔ ان میں سے جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اسکے لئے اتنا وبال ہے اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اسکو بڑا عذاب ہو گا۔

سورہ نور 11 سے 20

جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا۔ اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ کھلم کھلا بہتان ہے۔

یہ بہتان لگانے والے اپنی بات کی تصدیق کے لئے چار گواہ کیوں نہ لائے۔ تو جب یہ گواہ نہیں لا سکے تو اللہ کے نزدیک یہی جھوٹے ہیں۔

اور اگر دنیا اور آخرت میں تم پر اللّہ کا فضل اور اسکی رحمت نہ ہوتی تو جس شغل میں تم منہمک تھے اسکی وجہ سے تم پر بڑا سخت عذاب نازل ہوتا۔

جب تم اپنی زبانوں سے اس کا ایک دوسرے سے ذکر کرتے تھے اور اپنے منہ سے ایسی بات کہتے تھے جس کا تمکو کچھ بھی علم نہ تھا اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ بڑی بھاری بات تھی۔

اور جب تم نے اسے سنا تھا تو کیوں نہ کہدیا کہ ہمیں شایاں نہیں کہ ایسی بات زبان پر لائیں۔ پروردگار تو پاک ہے یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔

اللّہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر مومن ہو تو پھر کبھی ایسا کام نہ کرنا۔

اور اللہ تمہارے سمجھانے کے لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے اور اللہ جاننے والا ہے حکمت والا ہے۔

جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بےحیائی یعنی تہمت بدکاری کی خبر پھیلے انکو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہو گا اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اسکی رحمت نہ ہوتی تو کیا کچھ نہ ہوتا مگر وہ کریم ہے اور یہ کہ اللّہ نہایت مہربان ہے رحیم ہے۔

ان آیات کے نزول کے بعد منافقوں کا منہ کالا ہو گیا اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کی پاک دامنی کا آفتاب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اس طرح چمک اٹھا کہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے دلوں کی دنیا میں نور ایمان سے اجالا ہو گیا۔ 

حد قذف کا جاری کرنا

حضور ﷺ نے مسجد نبوی ﷺ میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس کے بعد سورہ نور کی آیتیں تلاوت فرما کر مجمع عام کو سنایا اور تہمت لگانے والوں میں سے حضرت حسان بن ثابت ، مسطع بن اثاثہ ، حضرت حمنہ بنت جحش اور رئیس المنافقین عبداللّہ بن آبی ان چاروں کو حد قذف کی سزا میں 80-80 دُرے (کوڑے) مارے گئے۔

اُم المُومنین عائشہ صدیقہ کا دائمی اعزاز

حضرت یوسُف علیہ اسلام  پر الزام لگا تو ایک بچے نے ان کی پاک دامنی کی شہادت دی۔ حضرت مریم علیہا السلام  پر تہمت لگی تو ان کی پاک دامنی کا اعلان ان کے بیٹے سے کروایا گیا۔ جب حضرت عائشہ صدیقہ  پر تہمت لگی تو اللّہ تعالی نے خود سورہ نور کی دس آیتیں نازل فرما کر آپ کی حضرت ٰعائشہ صدیقہ کی پاک دامنی ثابت کی۔ اب ان آیات کی تلاوت رہتی دنیا تک ہوتی رہے گی۔

صحیح بُخاری علامہ کرمانی نے فرمایا ہے کہ حضرت بی بی عائشہ کی براءت اور پاک دامنی قطعی و یقینی ہے جو قرآن کریم سے ثابت ہے اگر کوئی اس میں شک کرے تو وہ کافر ہے۔

دوسرے تمام فقہا امت کا بھی یہی مسلک ہے۔

ابو بکر صدیق کی قسم

حضرت ابو بکر صدیق کو حضرت مسطح بن اثاثہ  پر بڑا غصہ آیا۔ یہ آپ ﷺ کے خالہ زاد بھائی تھے اور بچپن میں ہی ان کے والد وفات پا گئے تھے تو ابو بکر صدیق نے ان کی پرورش بھی کی تھی اور ان کی مفلسی کی وجہ سے ہمیشہ آپ ان کی مالی امداد فرماتے رہتے تھے مگر اس کے باوجود حضرت مسطح بن اثاثہ نے بھی اس تہمت تراشی اور اس کا چرچا کرنے میں کچھ حصہ لیا تھا اس وجہ سے ابو بکر صدیق نے غصہ میں بھر کر یہ قسم کھا لی کہ اب میں مسطح بن اثاثہ کی کبھی بھی کوئی مالی امداد نہیں کروں گا ، اس موقع پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی کہ:

اور قسم نہ کھائیں وہ جو تم میں فضیلت والے اور گنجائش والے ہیں قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ تعالی کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے کی اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر کریں کیا تم اس اسے پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالی تمہاری بخشش کرے اور اللّہ بہت بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے۔ (النور)

اس آیت کو سن کر ابو بکر صدیق نے اپنی قسم توڑ ڈالی اور پھر مسطح بن اثاثہ کا خرچ بدستور سابق عطا فرمانے لگے


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *