انسان دو محبت بھرے لفظوں کا، جملوں کا، بول کا ہمیشہ سے محتاج رہا ہے۔ انسان کچھ اچھا کچھ حوصلے والا لفظ سُننا چاہتا ہے۔ تب ہی اُس کی زندگی میں امن قائم رہ سکتی ہے۔
انسان پیدائش سے موت تک عدل و انصاف کا محتاج رہا ہے۔
انسان معاشرتی مخلوق ہے، انسان پیدائش سے موت تک سماجی نظم کا محتاج ہے۔ معاشرتی استحکام قانون شریعت اور الوہی قوانین پر عمل درآمد سے مشروط ہے۔ اسلام انسان کو انسان بنانے کا طور تریقہ سیکھاتا ہے، اسلام مساوات اور عدل و انصاف کا دین ہے۔
انسان اپنی فطرت میں پیدائش سے لے کر موت تک جماعتی زندگی کا محتاج ہے۔ یعنی سوشل لائف کا طلبگار رہا ہے۔ معاشرے کا ہر فرد دوسرے فرد کی زندگی پر اثر انداز بھی ہوتا ہے اور ان سے متاثر بھی ہوتا ہے۔ معاشرتی استحکام اور بقا کا انحصار اللّہ رب العزت کے وضع کردہ لافانی اور غیر متزلزل اصول و قوانین کی پیروی میں مضمر ہے، جہاں انسان اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ اصولوں سے منحرف ہو کر بزعم خود مختار بنا اور خود عدل و انصاف کرنا چاہا وہیں سے انسان کا زوال شروع ہو جاتا ہے اور تب نہ تو کوئی مستقل اصول باقی رہتا ہے اور نہ ہی عدل و انصاف و ریاستی معاشرے میں باقی رہتی ہے۔
اللہّ تعالیٰ نے انصاف کے قوانین انسانیت کیلئے وضع کیے ہیں وہی قوانین کی پیروی انسان کے زندگی کی ضمانت ہے۔ انسانی معاشرے کی بقاء کا جو جامع نظریہ اسلام نے پیش کیا ہے کسی اور مذاہب و ادیان عالم میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ محمد عربی نبی اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ اسلام کے عدل و انصاف کا کامل ترین نمونہ ہے جس کی نظیر دنیا کے قدیم و جدید قوانین میں نہیں ملتی۔
اسلام قیام امن کا پیغامبر:۔
دین اسلام قیام امنِ کے لئے دنیا کا سب سے بڑا پیغامبر ہے جس کی سب سے اہم کڑی عدل و انصاف کا پختہ اور واضح نظام قانون ہے۔ اسلام فقط مساوات کا ہی نہیں بلکہ عدل و انصاف کا بھی دین ہے۔ اسلامی عدل و انصاف کے قوانین کا نفاذ۔ اسلامی عدالتی قانونی نظام میں عدل و انصاف کی فراہمی میں کوئی مذہب، جنس و زبان، رنگ و نسل اور قبیلہ و برادری رکاوٹ نہیں ، حائل نہیں۔ معاشرے میں امن کو قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انصاف کی فراہمی کا نظام ایک ہو۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا ۔ (النساء، 4: 58)
بے شک اللّہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچا دو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو، بے شک اللّہ تمہیں نہایت اچھی نصیحت کرتا ہے، بے شک اللّہ سننے والا
بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اُنہی لوگوں کے سپرد کرو جو اُن کے اَہل ہیں، اور جب تم لوگوں پر حکومت کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کیا کرو (یا: اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا کرو)۔ بے شک اللّہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بے شک اللّہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔
إِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ
(المائدة، 5: 42)
سَـمَّاعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكَّالُوْنَ لِلسُّحْتِ ۚ فَاِنْ جَآءُوْكَ فَاحْكُمْ بَيْنَـهُـمْ اَوْ اَعْـرِضْ عَنْـهُـمْ ۖ وَاِنْ تُـعْـرِضْ عَنْـهُـمْ فَلَنْ يَّضُرُّوْكَ شَيْئًا ۖ وَاِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَـهُـمْ بِالْقِسْطِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ (42)
جھوٹ بولنے کے لیے جاسوسی کرنے والے ہیں اور بہت حرام کھانے والے ہیں، سو اگر وہ تیرے پاس آئیں تو ان میں فیصلہ کر دے یا ان سے منہ پھیر لے، اور اگر تو ان سے منہ پھیر لے گا تو وہ تیرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، اور اگر تو فیصلہ کرے تو ان میں انصاف سے فیصلہ کر، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
بیشک اللّہ عدل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
انصاف کرنے والے اللّہ تعالیٰ کے پاس دائیں طرف نور کے منبروں پر ہوں گے اور اللّہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں اور گھر والوں اور جن کے نگران بنے تھے، ان میں انصاف کرتے تھے۔
صالح اور پرامن معاشرے کے قیام و استحکام کیلئے عدل و انصاف ہی وہ معیار اور پیمانہ ہے جس کی بدولت عالم انسانی کا نظام قائم ہے۔ اگر معاشرے سے عدل و انصاف ختم ہو جائے یا عدل و انصاف کے تقاضوں کی صحیح معنوں میں تکمیل نہ کی جائے تو وہ معاشرہ پر امن نہیں رہتا اور ظلم و جبر اور درندگی کی بدولت اس کا استحکام بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ایسا معاشرہ عدم توازن اور انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔
عدل و انصاف ایسا نظام ہے جسے اپنانے والی اقوام سرفراز ہوئی ہیں اور کنارہ کشی کرنے والی اقوام زوال پزیر ہو ئی ان کے نصیب تباہی و بربادی سے دوچار ہو جاتی ہیں۔ اگر کسی قوم یا معاشرے کا مجموعی مزاج عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق بن جائے تو پھر نہ صرف دنیا میں سرخرو اور عروج پر نظر آتی ہیں بلکہ آخرت میں بھی فلاح و کامیابی ان کا مقدر ہو سکتی ہے۔ کیونکہ عدل و انصاف ہی ان کے استحکام اور بقا کا ضامن ہے۔
یہاں تہذیب بکتی ہے، یہاں فرمان بکتے ہیں، ذرا تم دام قیمت تو بدلو، یہاں ایمان بکتے ہیں۔
انصاف کے قوانین انسانیت کیلئے:۔
عدل و انصاف قائم کرنا اور اُس عدل پر قائم رہنا صرف حکومتِ وقت اور عدالتوں ہی کا کام نہیں بلکہ ہر انسان اپنی زندگی کے ساتھ انصاف کرے۔ہر شخص اپنے ذات میں عدل و انصاف کو قائم کرے تاکہ ملک و معاشرے یں امن قائم ہو سکے۔ اسلام قیام امن کا پیغامبر ہے، انسان پیدائش سے موت تک عدل و انصاف کا محتاج ہے، صالح پرامن معاشرے کے قیام بیشک اللّہ عدل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے
0 Comments