غزوہ جنگ بدر کے جنگی قیدی
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ
جنگ بدر کے جنگی قیدی
ہجرت کے کچھ عرصے کے بعد بدر کا معرکہ پیش آتاہے۔ قریش مکہ اورمسلمان اپنی اپنی صفیں مرتب کرکے ایک دوسرے کے بالمقابل میدان جنگ میں کھڑے ہیں۔ مسلمانوں نے حضرت سعد بن معاذؓ کے مشورے سے قریب کی ایک پہاڑی پرایک شامیانہ لگا دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ اس شامیانے میں تشریف رکھیں اور اگر مسلمانوں کی حالت دگرگوں دیکھیں تو اونٹنی پر سوار ہو کر مدینہ تشریف لے جائیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، جب جنگ شروع ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دشمن کی کثرت اور مسلمانوں کی کمی دیکھی تو آپ نے قبلہ رو ہو کر اپنے آپ کو خدا کے حضور گرا دیا اور اس سے اس کے وعدوں کی یاد دلا دلا کر مسلمانوں کے لیے فتح و نصرت کی دعائیں مانگنی شروع کیں۔ آپ فرمارہے تھے:
اللھم ھذہ قریش قداتت بخیلائھا تحاول ان تکذب رسولک اللھم فنصرک الذی وعدتنی اللھم ان تھک ھذہ العصابۃ الیوم لا تعبدا
(اے اللہ!یہ قریش اپنے عظیم الشان لشکر کے ہمراہ تیرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے آئے ہیں اے اللہ اپنے اس وعدے کو پورا فرما جو تو نے مسلمانوں کی فتح کے متعلق کیا ہے۔ اے اللہ! اگر آج یہ چھوٹی سی جماعت ہلاک ہو گئی تو آئندہ تیرا کوئی نام لیوا باقی نہ رہے گا)۔
آپ اس قدر زاری اور اتنی بے چینی اور گھبراہٹ کی حالت میں اپنے رب کو پکار رہے تھے اورہاتھ دعا کے لیے پھیلا رہے تھے کہ بار بار آپ کی چادر زمین پر گر جاتی تھی۔ بالآخر آپ پر غنودگی کی حالت طاری ہوئی اور اللہ کی طرف سے ایک بار پھر بڑے زور سے مسلمانوں کی فتح و نصرت کی خوشخبری دی گئی۔ آپ صہ مطمئن ہو کر شامیانے کے باہر تشریف لائے اور بلند آواز سے مسلمانوں کو کفار پر حملہ کرنے کے لیے ارشاد فرمایا۔ آپ صہ فرما رہے تھے کہ :
” مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے کہ آج کے روز ہر شخص کفار سے لڑے گا اور اس حالت میں شہید کیا جائے گاکہ اس کے پیش نظر صر ف اللہ کی رضا اور اس کے دین کی مدد کاجذبہ ہو گا اور اس نے میدان جنگ میں کفار کو پیٹھ نہ دکھائی ہوگی اللہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا‘‘۔
گو پہلے ہی سے اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح کی خوشخبری دے دی تھی لیکن اس کے باوجود آپ برابر گڑگڑا کر اللہ سے دعائیں مانگتے رہے جب تک کہ ایک بار پھر اللہ کی طرف سے واشگاف الفاظ میں مسلمانوں کی فتح و نصرت کا وعدہ نہ دے دیا گیا اور آپ کو دلی اطمینان نصیب نہ ہو گیا۔
واقعی ایک پیغمبر کی شان یہی ہوتی ہے۔ آپ جانتے تھے کہ اللہ کے وعدے سچے ہیں اور وہ ضرور مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے گا۔ لیکن ساتھ ہی آپ کو یہ علم بھی تھا کہ اللہ غنی عن العالمین ہے ممکن ہے کہ مسلمانوں سے دوران جنگ میں کوئی ایسی کوتاہی سرزد ہوجائے جس کے باعث فتح و نصرت کا وعدہ دور جا پڑے اور مسلمان اولین مرحلے میں اپنا مقصود حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
اس پورے عرصے میں حضرت ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے اور انہیں یقین تھا کہ اللہ ضرور مسلمانوں کی مدد کرے گا اور انہیں فتح سے ہمکنار کر دے گا۔ اسی لیے وہ حیرت و استعجاب سے آپ کی مناجات سن رہے تھے۔ آپ انتہائی عاجزی کے ساتھ اللہ سے دعا کر رہے تھے اور اسے اس کا وعدہ یاد دلا رہے تھے
آپ کی چادر بار بار زمین پر گر جاتی تھی اور اسے حضرت ابوبکرؓ اٹھا کر آپ کے کندھوں پر ڈال دیتے اورکہتے تھے:
’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ گھبرائیں نہیں۔ اللہ نے آپ کو فتح و نصرت کا وعد ہ دیا ہے اور وہ اپنا وعدہ ضرور پورافرمائے گا‘‘۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ اپنے عقیدے میں اس قدر راسخ ہوتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے جو ان عقائد میں اختلاف رکھتے ہوں۔ ایسے لوگ کہتے ہیں کہ حقیقی ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ مخالفین سے تعصب تندی اور سختی کا برتاو کیا جائے لیکن حضرت ابوبکرؓ کامل الایمان ہونے کے باوجود نہایت نرم دل انسان تھے۔ سب و شتم تندی اور سختی سے وہ کوسوں دور تھے۔ قابو پانے کے بعد مخالف کو معاف کر دینا اور فتح یاب ہونے کے بعد دشمن پر احسان کرنا ان کا شیوہ تھا۔ اس طرح ان میں حق و صداقت کی محبت اوررحم و کرم کا جذبہ بہ یک وقت پایاجاتا تھا۔ حق کے راستے میں وہ ہر چیز حتیٰ کہ اپنی جانوں کو بھی ہیچ سمجھتے تھے اور اعلاء کلمۃ الحق کی خاطر ہر قسم کی قربانی کرنے کو بخوشی تیار ہو جاتے تھے ۔ لیکن جب حق غالب آ جاتا تو دشمن سے سختی کابرتاو کرتے اور اس سے مظالم کی جواب دہی کرنے کے بجائے ان میں رحم و کرم کا جذبہ ابھر آتا تھا۔
مسلمانوں کو جب جنگ بدر میں فتح نصیب ہوئی اور وہ قریش کے ستر قیدی ہمراہ لے کر مدینہ واپس آ گئے۔ یہ قیدی وہی تھے جنہوں نے مکہ میں تیرہ برس تک مسلمانوں پر سخت مظالم ڈھائے تھے اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا۔ انہیں دکھائی دے رہا تھا کہ ان مظالم کا بدلہ چکانے کا وقت آ پہنچا ہے اوراب مسلمان ان پر جس قدربھی سختی کریں کم ہے۔
جب حضور ﷺ نے قیدیوں کے متعلق مشورہ کیا تو حضرت عمرؓ کی یہ رائے تھی کہ ان سب قیدیوں کو قتل کر دیا جائے لیکن حضرت ابوبکرؓ نے اصرار کر کے اپنی بات منوا ہی لی اور تمام قیدی زر فدیہ اور پڑھائی لکھائی کے عوض رہا کر دیے گئے۔
حضرت ابوبکرؓ کایہ فعل ان کی پاکیزگی قلب اور حد درجہ نرم دلی پر دلالت کرتاہے۔ شاید یہ وجہ بھی ہو کہ انہوں نے دور بین نظر سے اس امر کامشاہدہ کر لیا تھا کہ مشرکین مکہ بالآخر رحم کے مظاہروں سے ہی مغلوب ہوں گے۔ جب وہ دیکھیں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر قسم کی طاقت و قوت رکھتے ہوئے بھی ان سے مروت و احسان کا سلوک کیا ہے تو وہ آپ سے آپ اسلام کی آغوش میں آ گریں گے۔ انہیں اچھی طرح علم تھا کہ ظاہری قوت کے ذریعے مخالف پر جسمانی لحاظ سے تو قابو پایا جا سکتاہے لیکن اس کے دل کو مطیع نہیں کیا جا سکتا مخالف کے دل پر اسی وقت فتح حاصل کی جا سکتی ہے کہ جب طاقت کے ذریعے سے نہیں بلکہ پیار و محبت کے ذریعےسے اسے اپنی طرف مائل کیا جائے۔
غزوہ بدر جس طرح مسلمانوں کے لیے ایک نئے دور کا آغاز تھا اسی طرح حضرت ابوبکرؓ کی کتاب زندگی کا ایک نیا ورق تھا۔ اس جنگ کے بعد مسلمانوں نے ایک نئے نہج سے اپنی سیاست کو مرتب کرنا شروع کیا۔ بدر کی فتح سے مسلمان کو بڑی سیاسی اور معاشی اہمیت حاصل ہو گئی تھی۔ اور ان کے مخالفین کے دلوں میں اُن کی جانب سے حسد اور غصّے کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ اس فتح بدر نے جہاں یہود کو چوکنا کر دیا تھا اور انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ اب مسلمان ان کے دست نگر بن کر نہیں رہ سکتے وہاں مدینے کے اردگرد بسنے والے قبائل کو بھی یہ فکر پیدا ہو گیا تھا کہ اگر مسلمانوں کا رخ ان کی طرف پھر جائے تو کیا ہوگا۔ چنانچہ مشرکین مکہ و یہود اور مدینہ کے نواحی قبائل نے مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کر دیں۔
ان امور کی موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ آپ ہر آن اور ہر لمحہ سختی سے صورتحال کاجائزہ لیتے رہیں اور صحابہ کرام سے مشورہ لینے کے بعد اپنے حالات کے مطابق اپنی پالیسی کا جائزہ لیں۔ ابوبکرؓ اور عمرؓ آپ کے خاص الخاص مشیر تھے۔ ان دونوں کی طبیعتوں میں بے حد فر ق تھا لیکن بہ ایں ہمہ دونوں نہایت مخلص اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جاں نثار تھے اور ہر مشورہ انتہائی غور و فکر سے دیتے تھے۔ ان مشوروں کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے راہ عمل معین کرنے میں بہت آسانی رہتی تھی۔ ان دونوں کے علاوہ آپ دوسرے مسلمانوں کو بھی اپنے مشوروں میں برابر شریک کرتے تھے۔ جس کااثر لوگوں پر بہت اچھا پڑتاتھا اور ہر شخص خیال کرتا تھا کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعتماد حاصل ہے اور آپ اسے بھی مشوروں میں شریک کر کے خدمت کا موقع عنایت فرماتے ہیں۔
فتح مکہ تک کا پورا عرصہ مسلمانوں کو کفار سے جنگ یا اس کی تیاریاں کرتے گزارنا پڑا۔ ایک طرف یہود حیی بن احطب کے زیر سرکردگی مسلمانوں کو تباہ و برباد اور نست و نابود کرنے کے منصوبے سوچ رہے تھے، بنا رہے تھے۔ دوسری طرف قریش مکہ نشریکان عرب اپنی پوری طاقت سے مسلمانوں کو شکست دینے اور ان پر غالب آنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ چھوٹی چھوٹی جھڑپوں اور لڑائیوں کے علاوہ بنو نضیر خندق احزاب اور بنو قریظہ کے غزوات یہود کی فتنہ انگیز سیاست اور قریش کے غیض و غضب کے نمایاں عناصر ہیں۔ ان تمام لڑائیوں اورغزوات میں حضرت ابوبکرؓ نے ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش بہ دوش، شانہ بشانہ حصہ لیا اوردوسرے تمام مسلمانوں سے زیادہ بہادری جواں مردی اور صدق و ثبات اور ایمان کا ثبوت دیا۔
0 Comments