حضرت جابر بن عبداللّہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے سود لینے والے ، سود دینے والے ، اسکے تحریر کرنے والے اور اسکے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے ، نیز فرمایا ۔ ( گناة کے ارتکاب میں ) یہ سب مساوی اور برابر ہیں ۔ صحیح مسلم ۔: نمبر : 1598 . اور صحیح بُخاری ۔ نمبر : 2086 میں حضرت ابو جُحَیفَةَ ؓ سے مروی ہے . اور بلوغ اکمرام ۔ باب ۔ 3 حدیث نمبر : 695
فوائد و مسائل
اس حدیث میں سود کی حُرمت . نیز سود لینے والے ۔ دینے والے ۔ سود کے تمام باریکی کو تحریر کرنے والے اور اس پر گواہیاں دینے لینے والے پر لعنت کا ذکر ہے ۔
سود یا رِبا نص قُرآنی سے حرام ہے ۔ سود سے باز نہ آنے والوں کے لیئے اللّٰہ تعلیٰ اور اسکے رسول اللّہ ﷺ کی طرف سے اعلان جنگ ہے ۔ یہ ایسی لعنت ہے ۔جس میں اکثر لوگ گرفتار اور مُبتلا ہیں ۔ ہر مسلمان کو اس لعنت سے جُھٹکار ے کی سچّے دل کوشش کرنی چاہیئے ۔
رِبِا یا سود کے معنیٰ زیادتی اور برھوتی کے ہیں ۔ اور بیع یعنی خریدوفروخت میں سود سے مُراد ایک ہی جنس کے تبادلے کے وقت زیادة مقدار میں حاصل کرنا ہے ۔ اور ہر قسم کی حرام بیع یا خرید و فروخت پر اسکا اطلاق ہوتا ہے ۔ اور پوری اُمّت مُسلمہ کا اس پر اجماع ہے ۔
آکِلَ الرِّبَا ۔ سود خور ۔ ضروری نہیں جو سود کھاتا ہو ۔ اُسے ہی ۔ آ کِلَ الرِّبا کہیں ۔ بلکہ سود لینے والا بھی اس گُناة میں شامل ہے ۔ اور کھانے کا بالخصوص ذکر اس لیئے کر دیا کہ انتفاع کی انواع میں سے یہ نوع سب سے بڑی ہے ۔ مُوء کِلَةُ ۔ یعنی جو کِھلاتا ہے ۔ یعنی جو دیتا ہے ۔ وغیرة
یہ وقتی فائدے کا نام ہے
سود سے صرف مسلمانوں کی معاشرتی زندگی تباة و برباد نہیں ہوتی بلکہ پوری انسانیت کو سود کے نظام سے نُقصان پہنچتا ہے ۔ اپ دیکھ لیں کسی بھی معاشرے میں جو غریب ہے وة تو غریب ہے ہی ہے مگر جن کے پاس سود سے تعمیر کردة کاروبار ہے ۔ وة ہمیشہ بنک وغیرة کا قرضدار رہتا ہے ۔ اس کی زندگی میں کبھی سکون نہیں ہوتی ہے ۔ اور اگر وة چند مہینہ بنک وغیرة کو قسط نہ دے سکے تو اسکا کاروبار ادارے واپس لے لیتے ہیں ۔
0 Comments