عرب قوم اور اس کے محلّ وقع ۔

سیرت نبوی در حقیقت رسول اللہ کے زریے عملی پیغام ربانی ہے ۔ جسے رسُلاللہ نے انسانی جمعیت کے سامنے پیش کیا ۔ اور جسکے زریعے انسان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لایا ۔ اور بندوں کو بندوں کی بندگی/ غلامی سے نکال کر ایک اللہ وحدہو لا شریک کے بندگی میں داخل کیا

اسلام سے پہلے کی عرب اقوام اور ان کے نشو و نما کی کیفیت ۔۔۔ لفظ عرب کے لغوی معنی ہیں صحرا بے آب و گیاہ زمین ۔ یعنی جہاں پانی نہ ملتا ہو ۔ یہ قدیم ترین نام ہے ۔ اسکا کل رقبہ 13 لاکھ مربع میل تک کا کیا گیا ہے ۔ جزیرہ نما عرب طبعی اور جغرافیای حثیت سے بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ اندرونی طور پر عرب کے چاروں صحرا اور ریگستان سے گھیرا ہوا ہے ۔ جس کی بدولت عرب ایک قدرتی محفوظ قلعہ بنا ہوا ہے ۔ بیرونی قوموں کے لیے عرب کی زمین پر ڈیرکٹ قبضہ کر کے اس قوم پر حکومت کرنا ۔ اور اپنا اثر و نفوذ قائم کرنا اور نفوذ پھیلانا بہت مشکل سخت کام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عرب دنیا کی اپنی ثقافت اور تہذیب و تمدُن اب تک قائم و دائم ہے ۔ اور بیرونی قوتوں سے بچی ہوی ہے ۔ بیرونی طور پر جزیرہ نُماََے عرب پُرانی دُنیا کے تمام معلوم براعظموں کے بیچوں بیچ واقع ہے ۔ اور خوشکی اور سمندر دونوں راستوں سے ان کے ساتھ جُڑا ہوا ہے ۔ اس کا شمال مغربی گوشہ افریقہ میں داخل ہونے کا دروازہ ہے ۔ شمال مشرقی گوشہ یورپ میں داخل ہونے کا راستہ ہے ۔اور مشرقی گوشہ ایران ۔ اور وسطی ایشیا ۔اور مشرقی بعید کے دروازے کُھولتا ہے ۔ اور یہ راستہ ہندوستان اور چین تک پہچاتا ہے ۔ اس جُغرافیائی محلّ وقوع کی وجہ سے جزیرۃالعرب کے شمالی اور جنوبی گوشے مختلف قوموں کی آماج گاہ ۔ اور تجارت اور صقافت اور فنون و مذاہب کا مرکز رہ چُکا ہے ۔ عرب قومیں۔ مورّخین نے نسلی اعتبار سے عرب اقوام کی 3 قسمیں قرار دی ہیں ۔

:عرب قوموں کی 3 بنیادی نسلیں

  1. عرب بائدہ
  2. عرب عاریہ
  3. مُستعربہ گےچ

عرب قوم مُستعربہ

اب یہ وہ عرب قبائل ہیں جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے قائم ہیں ۔ انہیں عدنانی عرب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ عرب مُستعربہ کے جدّ اعلِی سیّدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام ۔ اصلاً ملک عراق کے ایک شہر ۔ اُور کے ایک باشندے تھے ۔ یہ شہر دریائے فرات کے مغربی ساحل پر کوفے کے قریب واقع تھا ۔ اسکی کھُدای کے دوران بہت ساری کتبات بر آمد ہوی ہیں ۔ اس سے اس شہر کے متعلق بہت سی تفصیلات منظر عام پر ای ہیں ۔

حضرت ابراہیم علیہہ السلام کے خاندان کی بہت ساری معلومات سامنے ای ہیں ہم سب کو یہ معلوم ہی کہ ۔ حضرت ابراہیم الیہ سلام عراق دے ہجرت کر کے شہر حرّآن گے پھر وہاں سے فلسطین تشریف لے گے تھیں ۔ ۔ ملک فلسطین کو اپنی پیغمبرانہ سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا تھا ۔ یہی سے اپنی دعوت و تبلیغ کا کام کرتے تھیں ۔

ایک بار اپ ملک مصر تشریف لے گے وہاں کا بادشاہ فرعون نے اپ کی بیوی حضرت سارہ کی پوری کیفیت سُنی تو ان کے لیے بد نیت ہوگیا ۔ اور اپنے دربار میں حضرت سارہ کو بُرے ارادے سے بُلایا ۔ لیکن اللہ نے حضرت سارہ کی حفاظت کی ۔ اور فرعون کی ایسی گرفت کی کہ وہ ہاتھ پاوں اپنے مارنے لگا ۔ اس کی نیت بد اس کے منہ پر اللہ نے مار دی ۔ اور فرعون اس حادثے کی نوعیت سے سمجھ گیا کہ حضرت سارہ اللہ کی خاص اور مقرِّب بندی ہیں اور پھر فرعون حضرت سارہ سے متاثّر ہوا اور اپنی بیٹی حضرت ہاجرہ کو ان کی خدمت میں دے دیا ۔ پھر حضرت ساراہ نے حضرت ہا جرہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجیت میں دے دیا ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام ۔ حضرت سارہ اور حضرت ہ حاجرھ کو ھمراھ لی کر فلسطین واپس لاے ۔

اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کو حضرت ھاجرھ کی بطن سے ایک فرزند عطا فرمایا ۔ جن کا نام حضرت اسمائل تھا ۔

حضرت ابراھیم نے حضرت ھاجرھ اور حضرت اسماعیل کو اپنے ھمراھ لیکر حجّاز تشریف لیگیں ۔ اور وھاں ایک بیآب و گیاھ وادی میں بیتُ اللہ شریف کی قریب ٹھرا دیا ۔ اس وقت بیتاللہ شریف نہ تھا ۔ بلکہ وہاں ایک ٹیلا تھا بس ۔سیلاب اتا تھا تو ٹیلا ک دایں بایں س کترا ک نکل جاتا تھا ۔ وہیں مسجد حرام کے بالای حصّے میں موجودھ زمزم ۔ کے پاس ایک بہت بڑادرخت تھا ۔ اپ ن اسی درخت ک پاس ان دونوں ماں اور بیٹا کو چھڑا تھا ۔ اس وقت مکہ میں نہ پانی تھا اور نھی کوی آدم زاد ۔ اس لیے حضرت ابراھیم ن ایک توشھ دان مِیں کچھ کھجور اور ایک مشکیزے میں پانی رکھ دیا ۔ اس کے بعد آپ فلسطین واپس چل گیں ۔

چند ھی دنوں میں کھجور اور پانی ختم ھو گیا ۔ اور سخت مشکل پیش ای ۔ مگر اس مشکل وقت پر اللہ کے فضل سے زمزم کا چشمھ پھوٹ پڑا ۔ اور ایک عرصھ تک ک لیے سامان رزق اور متاعِ حیات مل گیا ۔ اس کی تفصیلات سب کو معلوم اور معروف ہے ۔

کچھ عرصَ کَ بعد ملک یمن سِ ایک قبیلا آیا جس کو تاریخ انسانیت میں جَزھم ثانی کھا جاتا ھے یہ قبیلا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ماں سِ اجازت لیکر مکّ میں ٹھر گیا ۔ کہا جاتا ھے کھ یھ قبیلا مکّ کے عرد گرد ک وادیوں میں سکونت پزیر تھیں ۔ صحیح بخاری میں اتنی صراحت موجود ہے کہ رھایش کی غرض سے یہھ لوگ مکّ میں حضرت اسماعیل کی امد ک بعد اور ان ک جوان ھونے سے پہلے وارد ھوے تھیں ۔

حضرت ابراھیم ۔ اپنے بیوی حاجرا اور بیٹا اسماعیل سے میلنے 4 مرتبا ایں ۔ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ ربِ کریم نِ حضرت ابراھیم کو خواب میں دیکھایا جو وہ اپ کو سب معلوم ہے۔

Categories: History

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *