آج کے تعلیم یافتہ نوجوان جرائم کی دنیا میں قدم کیوں رکھ رہے ہیں؟

تعلیم یافتہ نوجوان کی جرائم کی دنیا میں انٹری کیوں؟ ملک میں بیروزگاری اور معاشی مشکلات نوجوانوں میں احساس کمتری اور احساس محرومی کے اسباب کے ساتھ بے انصافی اور اندھیر نگری کا راج مافیہ راج۔

تعلیم یافتہ نوجوانوں کا جرائم کی دنیا میں داخل ہونا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے پیچھے کئی عوامل ہو سکتے ہیں۔ اس کے کچھ ممکنہ اسباب درج ذیل ہیں:۔

1. ملک میں بیروزگاری اور معاشی مشکلات

اگرچہ نوجوانوں کے پاس تعلیم ہوتی ہے، لیکن ملازمت کے مواقع کم یا نا مناسب ہوتے ہیں۔ معاشی دباؤ اور بیروزگاری اکثر نوجوانوں کو فوری پیسہ کمانے کے لیے غیر قانونی راستے اختیار کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔

2. سماجی نا انصافی اور طبقاتی فرق

بہت سے نوجوان جب اپنے آپ کو معاشرتی و طبقاتی نا انصافیوں کا شکار پاتے ہیں تو وہ نو جوان مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس مایوسی کی حالت میں وہ جرائم کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔

3. معاشرتی سماجی دباؤ اور تواقوعات

تعلیم یافتہ نوجوانوں پر اکثر خاندان اور سماج کی طرف سے زیادہ توقعات ہوتی ہیں اُمیدیں ہوتی ہیں۔ جب وہ ان توقعات کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ احساس کمتری اور دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں، جو انہیں غلط راستے پر ڈال دیتا ہے۔

4. منفی اور بُرے اثرات اور سماجی تعلقات

بعض اوقات تعلیم یافتہ نوجوان غلط صحبت میں پڑ جاتے ہیں یا ایسے لوگوں کے ساتھ دوستوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں جو جرائم کی دنیا میں ملوث ہوتے ہیں۔ ایسی صحبت انہیں بھی جرائم کی طرف راغب کر سکتی ہے۔

5. پُرانے نظام کی ناکامی

تعلیم یافتہ نوجوان جب دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں قانونی اور انتظامی نظام ناکام ہو رہا ہے اور جرم کرنے والے افراد اکثر سزا سے بچ جاتے ہیں، تو انہیں ایسا لگنے لگتا ہے کہ وہ بھی بغیر کسی خطرے کے جرائم میں ملوث ہو سکتے ہیں او ر بعد میں جرم کر کے بچ جائیں گے۔

6. ذہنی دباؤ اور نفسیاتی مسائل

تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی میں ناکامی، یا ذاتی مسائل جیسے ڈیپریشن یا ذہنی دباؤ بھی جرائم کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔

7. فوری دولت کا لالچ و حوص کا شکار:۔

بعض نوجوان تعلیم کے باوجود زیادہ محنت کے بغیر جلدی جلدی دولت کمانا چاہتے ہیں۔ جرائم کی دنیا انہیں تیزی سے دولت حاصل کرنے کا ایک آسان راستہ دیکھاتا ہے۔

8. ڈیجیٹل جرائم اور ہیکنگ سائبر کرائم:۔

ٹیکنالوجی کی تعلیم رکھنے والے نوجوان، اگر صحیح سمت میں نہ ہوں، تو وہ ڈیجیٹل کرائم و جرائم جیسے ہیکنگ، سائبر فراڈ یا آن لائن مالی دھوکہ دہی میں ملوث ہو سکتے ہیں۔

اس کا فوری حل کیا ہو سکتا ہے؟

  • ملازمتوں کے بہتر مواقع فراہم کیا جائے۔
  • ذہنی صحت کے حوالے سے شعور بیدار کرنا۔
  • نوجوانوں کو مثبت سمت میں رہنمائی اور مواقع فراہم کرنا۔

یہ تمام عوامل مل کر نوجوانوں کو جرائم کی طرف دھکیل سکتے ہیں، لیکن اس مسئلے کو بہتر منصوبہ بندی اور سماجی اصلاحات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ اگر سرکار سنجیدہ ہیں تا ورنہ؟

پڑھے لکھے ناوجوانوں کے دلوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی؟

نوجوانوں میں جرائم کرائم جابڑھتا یوا روجھان:- یوتھ کسی بھی قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کی اہمیت جسم میں موجود ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے۔ اگر انسانی جسم کی ریڑھ کی ہڈی ہی کمزور ہو جائے تو پورا جسم کمزور ہو جاتا ہے۔ کمزور جسم اپنا بوجھ اُٹھانے کی طاقت نہیں رکھتی تو دوسروں کا بوجھ کیسے اٹھا سکے گی؟ بالکل اسی طرح اگر کسی قوم کے نوجوانوں میں منفی سوچ عام ہونے لگیں تو قوم زوال پزیر ہو جاتی ہے۔ دنیا میں وہی ملک و معاشرہ ترقی کر سکتی ہیں جن ملکوں کے نوجوانوں کی اخلاقی اور فنی ٹکنالوجی کی تربیت اسکول سے گھڑ تک ہو۔ نوجوانوں کے زندگی کا کوئی مقصد ہو۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں نوجوانوں کی آبادی 64 فیصد ہے۔ اس سے ملک فائدہ اُٹھا سکتی ہے اگر وہ چاہے؟ کیوں کہ یہ ہی نوجوان آنے والے وقتوں کے مستقبل ہیں۔ ملک و قوم کی تقدیر نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت پر منحصر ہوتی ہے۔ لیکن اگر یہ تعلیم یافتہ نوجوان مایوسی کا شکار ہوکر غیر صحت مندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوجائیں تو قوم زوال پزیر ہوجاتی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ملک میں یکساں تعلیمی نظام نہیں ہے اس کے باعث نوجوانوں کی بڑی تعداد معیاری تعلیم سے محروم ہے۔ جب نئی نسل تعلیم و تربیت جیسی بنیادی حقوق سے محروم رہے گی تو ایسے میں ملک و معاشرہ نوجوانوں سے بہتر مستقبل کی امید کیسے لگا سکتے ہیں۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی آبادی کا بیشتر سے حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہا ہے۔ ایسے میں اگر ملک کے چند نوجوان مشکل حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے کسی نہ کسی طرح یہ نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کر بھی لیں تب بھی اُن کے تعلیم کے مطابق اُن کو نوکری نہیں ملتی۔ ملک میں مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے نوجوانوں کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ موجودہ صورت حال میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد نوکری کی خاطر در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ پڑھے لکھے نوجوان مایوس ہورہے ہیں ملک میں اُن کا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا ہے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے نوجون پریشان ہو رہے ہیں۔ اس مہنگائی کا مقابلہ کرنا اُن کے لیے ناممکن سا ہوتا جارہا ہے۔

مایوس نوجوان اپنے بنیادی مسائل کے حل کے لیے کہاں جائیں؟

اِن مایوس کُن حالات میں پڑھے لکھے نوجوان، اس نظام کی نا انصافی سے مایوس ہو رہے ہیں صحیح اور غلط کا تمیز کھو رہے ہیں۔ بلاشبہ ان گنت مسائل نوجوانوں شخصیت پر براہ راست اثر انداز ہو رہے ہیں۔ غربت اور بے روزگاری سے دل برداشتہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد تیزی سے جرائم کرائم کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ نظام نے کوئی حل بھی نہیں چھوڑا۔ خبروں کے مطابق ملک کے ہر شہر میں اسٹریٹ کرائم، ڈکیتی اور راہ زنی کی وار داتوں میں اکثریت پڑھے لکھے نوجوان نظر آرہے ہیں۔ قلم و کتاب کی طاقت ختم اسلحہ کی طاقت شروع لوگوں نے اپنے مسائل کا حل کرائم میں تلاش کر رہے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد غیر قانونی ایکٹیویٹی میں مبتلا ہو رہے نہیں۔

بے انصافی اور اندھیر نگری کا راج اس نظام میں نوجوانوں کا حال بِحال؟

اگر معاشرے میں بے رحم ظالم طاقتور ریجیم کا راج ہو نا انصافی عام ہو، اچھائی اور بُرائی کا فرق ختم ہو جائے تو وہاں کے رہنے والے لوگ کہاں جائیں؟ یہ نوجوان اپنا دُکھیا کس کو سُنائیں؟ وہ اپنا اور اپنے گھر ولوں کی ضرورتوں کو لیکر کہاں جائیں؟ اپنا فریاد لیکر کس کے در پر جائیں وہ زندہ رہنے کے لیے کیا کریں؟ اگر معاشرے میں ہر طرف ناانصافی بے انصافی کا اندیھرا نظام قائم ہو ۔ طاقتور طبقہ کمزور طبقے کا استحصال کرنے لگیں؟ ہر طرف رشوت چور بازاری جھوٹ فریب دھوکہ دہی بے ایمانی کا راج ہو؟ ہر چیز میں ملاوٹ ہو ۔ کرپٹ مافیہ کرپشن کو اپنا حق سمجھنے لگیں۔ اور ادھر نوجوانوں کا حال تو یہ ہے کہ نہ انہیں اپنے بنیادی حقوق سے آگاہی نہیں ہے اور نہ ہی اپنے فرائض ذمہ داری سے آگاہ ہیں وہ۔

نوجوانوں میں برھتی ہوئی احساس کمتری کی وجوہات کیا ہیں؟

مادہ پرستی کا رحجان بڑھتا جارہا ہے:- جب تعلیم یافتہ نوجوان اپنے ارد گرد کے لوگوں کو عیش و عشرت میں دیکھتے ہیں۔ وہ قیمتی گاڑیوں کو استعمال کر رہے ہیں اور میں؟ تو یہ بات فطری طور پر غریب کے دلوں میں احساس کمتری جنم لیتی ہے۔ ان کے مکانات حویلی کی طرح اور میرا؟ ۔ میرے بچے دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں ۔ اور وہ پیزہ کھا رہے ہیں۔ ان کی عیش و عشرت والی زندگی اور میری؟ یہ معاشرتی نا انصافی اور یہ طبقاتی معاشروں کا المیہ ہے کہ اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک جوان بھوکے ہیں اور دوسری طرف کچھ لوگ شان و شوکت کی زندگی گزار رہے ہیں؟ برق رفتاری سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے سبب تعلیم یافتہ نوجوانوں کے حالات زندگی نہ گفتہ ہیں؟ اور ان وجوہات کی بنا پر جوانوں میں تیزی سے احاساس کمتری بڑھ رہی ہے۔

نوجوانوں میں احساس محرومی کے اسباب؟

اگرچہ نوجوانوں کے اندر احساس محرومیاں ختم کرنے کے لیے کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں، سیمیناریں منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ لوگ بڑی بڑی باتیں تقریروں میں کرتے رہتے ہیں، اخلاقیات کے موضوع پر لیکچرز دئیے جاتے ہیں۔ لیکن یہ سب کا کوئی فائدہ نہیں۔کوئی نتیجہ نہیں نکلت رہا ہے بلکہ اور بُرا حال ہوتا جا رہا ہے۔ کیوں کہ طبقاتی ناانصافیوں کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔ سماجی اقتصادی ناانصافیوں کا نظام باقی ہے۔ جب تک یہ ناانصافیاں جاری رہیں گی تب تک یہ تعلیم یافتہ نوجوان بھی جرائم کا حصہ بنے رہیں گے۔ کوئی وعظ کوئی نصیحت نیکی کا کوئی درس محروم نوجوانوں کی ضرورتوں کو فیڈ نہیں کر سکتی۔ جب تک کہ یہ ظلم و زیادتی نا انصافیوں کا نظام ہے معاشرے سے محرومیاں ختم نہیں ہوسکتی۔ حالات بھی صحیح نہیں ہو سکتی۔

ہمارا نظام انصاف عوام کے لیے کیسا ہے؟

ہماری عدلیہ کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف جو سخت اقدامات کرنے کے لیے کوشاں نظر آتی ہے۔ لیکن افسوس ہمارے ملک میں غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ اور اسی نامنصفانہ نظام کی وجہ سے اسکول کالجوں کے نوجوان اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے جرائم کے راستے پر چل نکلے ہیں لیکن دراصل یہ مجرم نظر آنے والے نوجوان مجرم نہیں بلکہ لوٹ مار کا وہ نظام مجرم ہے جو اہل نوجوانوں کو جرائم کی طرف دھکیل رہا ہے۔

اقتصادی ناانصافی اور اشرافیائی نظام کے لوٹ مار نے غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو ان کے بہتر مستقبل سے محروم کردیا ہے۔ بنیادی ضرورتوں سے محروم نوجوانوں کے کیے بہتر پلانگ بنا کر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ گرفتاریاں یہ سزاوں سے مسائل اور بڑھیں گے۔ اس طبقاتی نظام کی پیدا کردہ معاشی ناانصافیوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوجوانوں کو معاشی انصاف کون فراہم کرے گا؟ عدلیہ اور نئی حکومت معاشی لوٹ مار لوٹ کھسوٹ کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں یا ؟


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *