ہندو مت کا نظریہ انصاف وَ مساوات ملاخطہ فرمائیے : ۔

ایک فرانسیسی مورخ ڈاکٹر گستاولی بان ۔ تمدّن ہند میں لکھتا ہے کہ Indian tradition or Religion ۔

جرائم اور ان کی سزا کی اہمیت بلحاظ اس نقصان کے نہیں قرار دی جاتی جو ان سے منتج ہوں ۔ بلکہ بلحاظ مجرم یا مظلوم کی ذات ہے ۔

مثال کے طور پر برہمن کو کسی بھی حالت میں ویسی سخت سزا نہیں دی جاتی جیسے چھوٹی ذات کے لوگوں کو دی جاتی ہے ۔ یعنی دہرے نظام حیات ۔

ہندو مت کا نظام عدل وَ انصاف اور عدم مساوات کی جھلک

ہندو مت کے نظام عدل وَ مساوات کے بارے میں ایک چیز غور طلب ہے ۔ جس نے ہندو مذہب کے نظام عدل کو نظام ظلم وَ ستم اور دہرے طبقاطی نظام زندگی میں تبدیل کر دیا تھا اور ہے ۔

وہ یہ ہے کہ : ۔ ہر فیصلہ کر تے وقت یہ چیز پیش نظر رہے کہ ملزم کا تعلق کس طبقہ یا خاندان یا مرتبہ سے ہے ۔

اگر ملزم اعلیٰ ذات پات کا شخص ہو تا ہے ۔ تو اس کے لیئے اور قانون اور سزا یں مقرّر تھی ۔ اگر ادنیٰ طبقہ کا فرد کوئی جرم کرتا تو اسے عبرت ناک سزا دی جاتی تھی ۔

اور اگر کوئی اعلیٰ طبقہ اعلیٰ ذات پات کا کوئی فرد وہی جرم کرتا تو اس کو ہلکی پھولکی عام سی سزا دی جاتی تھی ۔

اور اگر قاتل برہمن ہوتا اور مقتول جھوٹے ذات کا ہوتا تو اُلٹے بانس کوتوال کے ۔ ہو سکتا کہ وہ مقتول کو کہتے کہ تو نے برہمن کو غصہ کیوں دلایا ۔ یا برہمن کا ہاتھ گندا ہو گیا تجھے قتل کر کے ۔ تو الٹا فائن ہو تا جُرمانا ہوتا ۔ مقتول کے وُرثاء پر ۔ اور ان کی عورتوں کو اپنے یہاں اٹھا کر لے آتے ۔

اور اگر قاتل اور مقتول دونوں برہمن ہوتے تو قاتل برہمن سے کوئی کفارہ بھی نہیں لیا جاتا بلکہ اس کا معاملہ خدا کی مرضی بال کر ختم کر دیا جاتا ۔

یہ تھا ہندو مت کا نظریہ مساوات۔


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *