میّت کا ترکہ جب تین 3 مراحل طے کر کے چوتھے میں پہنچے گا تو وة وُرثہ میںں تقسیم ہوگا ۔

یعنی ترکہ کے ساتھ 4 چار حقوق تعلق رکھتے ہیں ۔ اس کے 4 شرطے ہیں ۔ جس کی تر تیب کچھ یوں ہے ۔

نمبر : 1 ۔ کفن و دفن ۔نمبر : 2 ادائیگی قرض نمبر3 وصیت ۔نمبر: 4۔ ورثہ میں تقسیم

نمبر 1 کفن و دفن ۔ :

اگر کسی میّت کے کفن و دفن کا انتظام کرنے والا کوئی نہ ہو تو اس کے ترکہ میں سے مناسب انداز کے کفن و دفن کا انتظام کیا جائے گا۔ اس ترکے کے پیسے میں سے ۔

نمبر 2 ۔ دائیگیء قرض : ۔ ۔

میّت کے ذمّے جتنا بھی قرض واجبُ الدا ہے ۔ جو میت نے قرض لیا ہوا تھا ۔ وة اوروں کو دینا ہے ۔ ترکے میں سے پہلے اس قرض کو ادا کیا جائے گا خواة اس قرض کی ادائیگی میں اس کے تمام کی تمام ترکہ خرچ ہو جائے ۔

اللّٰہ کے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا ۔

نَفسُ المُوء مِنِ مُعَلَّقَةُ بِدَ ینِہِ حتَّی یُقضیٰ عَنہُ

مومن کی جان اس کے قرضے سے لٹکی رہتی ہے ۔ جب تک ادا نہ کیا جائے ۔

جامع الترمزی ۔ کتاب الجنائز۔ باب اَن نفس الموءمن معلقہ ۔ اور مسند حمد میں بھی ہے ۔

جمہور کے نزدیک اللّٰہ تعلیٰ کا قرض ادا کرنا بھی ضروری ہے ۔ جیسے حج کا اس نے نیت کیا ہوا تھا ۔ تو اس کے بدلے میں اس کے پیسے سے ۔اس کے ترکہ سے کوئی اور اُس کے لیئے اُس کی طرف سے حج بدل کرے گا ۔

۔زکواة ۔

اگر میّت کے ذمہ زکواة کی رقم واجب ال ادا ہے ۔ تو پہلے اس کی طرف سے ۔ زکواة بھی اس کے چھورے ہوئے رقم سے ادا کیا جائے گا۔

کفّارة ۔

اگر میت کے ذمہ کوئی کسی بھی وسم کا کفّارة ادا کرنا ہو تو اس کے ترکہ کے پیسے سے پہلے اس کا کفّارة ادا کیا جائے گا ۔

نزر وغیرة ۔

اگر میّت نے اپنی زندگی میں کوئی شرعی نزر مانی ہو کہ میں 10 بھوکے کو کھانا کھیلاوں گا تو ضروری ہے کہ اس کے واریثین ترکہ کی تقسیم سے پہلے میّت کی یہ نظر پوری کریں ۔

قسم ۔

میت نے اگر کوئی جائز اور حلال نوعیت کی قسم کھائی ہوئی ہو تو سب سے پہلے اس کی قسم کو پوری کی جائے ۔ خواة اس نے کسی سے وعدة کیا ہو ۔ تو اس کو پہلے پورا کیا جائے ۔

کیوں کہ ایک صحابی نے نبی ﷺ سے پوچھا : کہ میری والدة وفات پا گئی ہیں ۔ اور اس کے ذمہ ایک مہینے کے روزے ہیں ۔ کیا میں اس کی طرف سے ادا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جی ہاں اللّٰہ کا قرض زیادة حق دار ہے ۔ کہ اسے ادا کیا جائے ۔ صحیح بخاری ۔1953

نمبر : 3 ۔ وصیت

میّت کی جائیز وصیت کو پورا کیا جائے ۔ اور جائیز وصیت کی بھی 3 شرطیں ہیں ۔

ادائیگی قرض کے بعد 1\ 3 حصہ یا اس سے کم کی وصیت ہو سکتی ہے ۔ : ۱

آپ ﷺ سے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے سوال کیا ۔

کیا میں اپنے 2 \ 3 مال کا صدقہ کردوں ؟ آپؐ نے فرمایا نہیں ۔ پھر سعدؓ نے کہا آدھے حصے کا ؟ آپؐ نے فرمایا نہیں ۔ سعدؓ نے کہا 1 \ 3 مال کا صدقہ کروں ؟ آپؐ نے فرمایا ۔ تہائی کا کردے ۔ لیکن تہائی حصہ بھی زیادة معلوم ہوتا ہے ۔

ان ورثا کے حق میں وصیت نہ کرے جو ترکہ میں سے حصہ دار ہیں ۔ : 2

ان ورثاء کے حق میں وصیت نہ کرے جو ترکہ میں سے حصہ لینے والے ہوں

یقیناً اللّٰہ تعلیٰ نے ہر حق دار کا حق مقرّر کر دیا ہے اب کسی وارث کے لیئے وصیت کرنا جائیز نہیں ہے ۔ فرمان نبی ﷺ

سُنن ابی داود کتاب البیوع۔ اور جامع الترمزی ۔

کسی حرام کام کی وصیت نہ کرے: 3

نا فرمانی کے کاموں میں اطاعت نہیں ہے ۔ اطاعت تو صرف نیکی کے کاموں میں ہے ۔ صحیح بخاری

سورة لقمان میں اللّٰہ تعلیٰ فرماتا ہے : ۔

اور اگر وة دونوں ۔ ماں ، باپ ۔ تجھ پر اس بات کا دباو ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو اُن کا کہنا نہ ماننا ۔

غلط بات کی وصیت کوپورا نہیں کرنا چاہیئے ۔

نمبر : 4 ۔ اب میّت کی جائداد کو تقسیم کر سکتے ہیں

اب جو باقی ماندة ترکہ بچا ہے اس کو واریثوں میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کر دیا جائے ۔ جو ان کا اسلامی شرعی حق ہے

یاد رکھے کہ اگر کسی کا کوئی وارث نہیں ہے تو ، ترکہ ۔ مال ۔ جائداد وغیرة وة سب جو کچھ بھی میت چھور گیا ہے وة اسلامی حکومت کے بیت المال میں جمع ہو گا ۔

جمہور علماء کے نزدیک :۔ اگر ملک میں شرعی نظام نہیں ہے تو سارا کا سارا دولت میت کے اُن غریب رشتہ داروں کو دیا جائے گا ۔ جو شرعی وارث نہیں ہیں ۔

و

واللّٰہ اعلم

ا


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *