قتل پر سخت وعیدیں رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم کی زبانی
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم رحمة للعالمین بنا کر مبعوث ہوئے، مگر اس کے باوجود حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کسی کو ناحق قتل کرنے پر سخت سے سخت وعیدیں ارشاد فرمائی ہیں اور امت کو اس سنگین گناہ سے باز رہنے کی بار بار تلقین فرمائی ہے۔ پانچ احادیث پیش خدمت ہیں:

ؤحجة الوداع کے موقع پر آپ صلی الله علیہ و سلم نے اپنے عظیم خطبہ میں اس بات پر بھی زور دیا کہ کسی کا خون نہ بہایا جائے، چناں چہ ارشاد فرمایا: تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں ایک دوسرے کے لیے ایسی ہی حرمت رکھتی ہیں جیسے تمہارے اسی مہینے ( ذی الحجہ) میں تمہارے اس شہر ( مکہ مکرمہ) او رتمہارے اس دن کی حرمت ہے۔ تم سب اپنے پروردگار سے جاکر ملوگے، پھروہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ لہٰذا میرے بعد پلٹ کر ایسے کافر یا گم راہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ ( صحیح بخاری، باب حجة الوداع، صحیح مسلم ، باب القیامة)یعنی کسی شخص کو ناحق قتل کرنا کافروں اور گم راہوں کا کام ہے، نیز ایک دوسرے کو کافر یا گم راہ کہہ کر قتل نہ کرنا۔

٭… حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ یہ ہیں: الله کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، کسی انسان کو قتل کرنا ، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی بات کہنا۔ ( صحیح بخاری، باب قول الله تعالیٰ :من احیاھا)

٭…حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے اور اسے قتل کرنے کے لیے لڑنا کفر ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الادب)

٭…حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان کو واپنے دین کے معاملے میں اس وقت تک ( معافی کی) گنجائش رہتی ہے جب تک وہ حرام طریقے سے کسی کا خون نہ بہائے۔ ( صحیح بخاری، کتاب الدیات)

صحیح بخاری کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے علامہ ابن حجر عسقلانی  اس حدیث کا مطلب بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ کسی کا ناحق خون بہانے کے بعد معافی کا امکان بہت دور ہو جاتا ہے۔ (فتح الباری)

٭…حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الله تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید ( اور تباہ) ہو جانا ہلکا(واقعہ) ہے۔ (ترمذی، باب ماجاء فی تشدید قتل المؤمن، نسائی، ابن ماجہ)

قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کیا گیا کہ کسی شخص کو قتل کرنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور قاتل کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ایک طویل عرصہ تک رہے گا، الله اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور الله تعالیٰ نے قاتل کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ لہٰذا ہر شخص کو چاہیے کہ وہ قتل جیسے بڑے گناہ سے ہمیشہ بچے اور وہ کسی بھی حال میں کسی بھی جان کا ضائع کرنے والا نہ بنے ،کیوں کہ بسا اوقات ایک شخص کے قتل سے نہ صرف اس کی بیوی بچوں کی زندگی، بلکہ خاندان کے مختلف افراد کی زندگی بعد میں دوبھر ہو جاتی ہے اور اس طرح خوش حال خاندان کے افراد بیوہ ، یتیم او رمحتاج بن کر تکلیفوں او رپریشانیوں میں زندگی گزارنے والے بن جاتے ہیں۔

قتل کی اقسام اور ان کی سزا
اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو قتل کر دے تو آخرت میں درد ناک عذاب کے ساتھ دنیا میں بھی اسے سزا ملے گی، جس کو قرآن وحدیث کی روشنی میں اختصار سے پیش کررہاہوں۔ سب سے پہلے سمجھیں کہ قتل کی تین قسمیں ہیں:

قتل عمد
قتل عمد وہ ہے کہ ارادہ کرکے کسی شخص کو آہنی ہتھیار سے یا ایسی چیز سے جس سے عموماً قتل کیا جاتا ہے، قتل کیا جائے۔ مثلاً کسی شخص کو تلوار یا گولی سے مارا۔

قتل شبہ عمد
قتل شبہ عمد وہ ہے جو قصداً تو ہو، مگر ایسے آلہ سے نہ ہو، جس سے عموماً قتل کیا جاتا ہے۔ مثلاً کسی شخص کو ایک پتھر پھینک کر مارا اور وہ اس کی وجہ سے مر گیا۔

قتل خطاء
کوئی شخص کسی شخص کے عمل کی وجہ سے غلطی سے مر جائے۔ مثلاً جانور کا شکار کر رہا تھا، مگر وہ تیریا گولی غلطی سے کسی شخص کے لگ گئی اور وہ مر گیا۔

Categories: Uncategorized

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *