رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا : ۔
مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے سوائے ایسی صلح کے جو کسی حلال کو حرام یا کسی حرام کو حلال کر دے ۔ مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں سوائے اس شرط کے جو کسی حلال کو حرام یا کسی حرام کو حلال کردے ۔
حضرت عَمرِو بنِ عَوفِ المُزَنیِؓ سے روایت ہے ۔ بلوغ المرام : ۔ حدیث نمبر : ۔ 735 ۔ ترمذی حدیث نمبر : ۔ 735 ۔
صلح کی بہت سی اقسام ہے
دو لڑنے والوں کے درمیان صلح ، خاوند اور بیوی کے درمیان صلح ۔ اور حقوق وَ املاک میں نزاع کو ختم کرنے کے لیے صلح ۔
مسلمان اپنی شرائط پر قائم اور ان پر ثابت قدم ہیں ۔ ان سے پھرتے نہیں ۔ مگر ایسی شرط جو حلال کو حرام کردے ۔ مثلاـً : ۔ یہ شرط کرے کہ مظلوم اور پریشان حال کی مدد نہ کرے ۔ فقیروں اور محتاجوں کی اعانت نہ کرے ۔ یا حرام کو حلال کرے ۔ مثلاً یہ شرط کرے کہ ظالم کی مدد کرے باغی سے تعاون کرے یا مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کی شرط کرے ۔
فوائد وَ مسائل
اس حدیث میں مسلمانوں کا ذکر اس وجہ سے ہے کہ شریعت اسلامی کے احکام کے مخاطب اور مکلف مسلمان ہی ہیں ۔
ورنہ جہاں تک صلح کا تعلق ہے تو وہ اہل کتاب کے دونوں گروہوں یعنی یہود و نصاریٰ کے ساتھ بھی جائز ہے ۔ اور مشرکین اور دہریہ لوگوں کے ساتھ بھی جائز ہے ۔
رسول اللّٰہ ﷺ نے بزات خود اہل کتاب سے بھی صلح کی ہے ۔
میثاق مدینہ
میثاق مدینہ میں یہود کے ساتھ صلح ثابت ہے ۔ نصاریٰ اور نجران کے ساتھ صلح ثابت ہے اور صلح حد یبیہ میں آپؐ نے مشرکین مکہ سے صلح کی ۔
صلح کے لیے ضابطہ اور قواعد و کلیہ
صلح کے لیے ضابطہ اور قواعد و کلیہ یہ ہے کہ صلح شریعت اسلامیہ کے کسی حکم کے خلاف نہ ہو ۔ جس سے کوئی حرام چیز حلال ہو جائے یا حلال چیز حرام ہوجائے ۔
0 Comments