حکومت روما کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ ہر قسم کے قانون اور ہر ایک کے حق کو نظر انداز کر سکتی تھی اور ہر فرد کی عزّت وَ ناموس پامال کر سکتی تھی ۔ وہ ہر ظلم و بربریت کو اپنے لیئے جائیز اور روا سمجھتی تھی ۔

بقول جارج سیل کے :۔

انصاف کا یہ عالم تھا کہ جس طرح اشیاء کی خرید وَ فروخت ہوتی تھی ۔ اور ان کے دام ٹھہرائے اور لگائے جاتے تھے اُسی طرح انصاف کا بھی خرید و فروخت ہوتا تھا ۔ اور رشوت وَ خیانت کی حوصلہ افزئی خود حکومت وقت کی طرف سے ہوتی تھی ۔ یعنی یہ چیزیں قانوناً جائز تھی ۔

اس سے بڑھ کر ظلم یہ تھا کہ ایک ہی جرم میں مختلف طبقے اور مختلف حیثیت کے لوگوں کو مختلف سزایہں دی جاتی تھی ۔ یہ تھا ان کا نظام انصاف ۔

موسیو لاروس لکھتا ہے

یہ اپنے کتاب دائرة المعارف میں لکھتا ہے کہ : ۔

سلطنت روما میں سزایہں ایک ہی قسم کے جرائم میں ملاوس ،مجرموں کی حالت اور اس کی حیثیت کے مطابق یا اس کے مرتبہ کے لحاظ سے مختلف سزایں دی جاتی تھی ۔

یعنی چھوٹوں کے لیئے الگ سزا کا نظام اور بڑوں کے لیئے الگ سزا کا نظام رائج تھا ۔

سلطنت روما کے مدوّن قانون جسٹی نین جو انسانیت کے محسن اعظم کی ولادت با سعادت سے 5 سال قبل انتقال کر گیا تھا ۔

اس نے اپنے نافز کردہ قانون کے مقابلے میں دنیائے انسانیت کو چیلنج کیا تھا کہ اس سے بہتر قانون کوئی تیار کرکے دیکھا دے ۔

جسٹی نین کا نظریہ انصاف

جسٹی نین کا نظریہ انصاف و قانون جس پر اسے فخر تھا : ۔

قانونی نقطہ نظر سے اس نے سماج کو اس طرح تقسیم کیا تھا ! ۔

Honestiores

یہ مملکت کا اعلیٰ ترین طبقہ تھا ، جو اُمراء پر مشتمل تھا ۔ بغاوت کے علاوہ اس طبقہ کے کسی فرد کو کسی بھی جرم میں سزائے موت نہیں جا سکتی تھی ۔

Humiliores

اس طبقہ کو بعض غیر معمولی حالات میں سزائے موت دی جا سکتی تھی ورنہ عموماً قید کی سزا دی جاتی تھی ۔

Servi

سب سے نیچلا طبقہ جس کے افراد کو معمولی معمولی سی جرائم کی سزا میں قتل کیا جاتا تھا ۔ آگ میں ڈالا جاتا تھا ، اور وحشی جانورں سے مجرمان اور مخالفین کی ہڈیاں چبوائی جاتی تھی ۔ ۔

مصنف عبدالمُعید : ۔عہد نبوی ﷺ کا اسلامی معاشرہ ۔ ماہ نامہ 1997

آج ہمارے معاشرے کا بھی یہی حال ہے مگر ہم نظام کا نظام سے مقابلہ کر رہے ہیں یعنی اسلامی نظام اور دنیا کا نظام


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *