مغربی دنیا کے 144 ممالک سے سزائے موت کے قانون کا خاتمہ کیسے ممکن ہوا؟

تمام ممالک سزائے موت کی قانون کو ختم کر دیں انسانی حقوق کے سربراہ کا یہی کہنا ہے۔ مگر کیسے اس قانون کو ختم کیا جا سکتا ہے؟

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے دنیا کے تمام ممالک سے کہا ہے کہ وہ سزائے موت کے قانون کو اپنے اپنے ملک سے ختم کرنے کے لیے محنت اور جدوجہد کریں۔ اس وقت موت کی سزا دنیا کے 79 ممالک میں رائج ہے۔

سنہ 1905میں سوئزر لینڈ سے سزائے موت کے قانون کا خاتمہ کیا گیا۔ 1042ء میں سزائے موت کے قانون کا خاتمہ ہوا ۔ سویڈن میں 1921 میں سزائے موت کے قانون کو ختم کر دیا گیا، ناروے میں 1905 ۔ فن لینڈ میں 1949 میں ختم ہوا ۔ آسٹریا میں 1950ء میں یہ قانون ختم ہوا ۔ ڈنمارک میں 1930ء میں ختم ہوا بلجیم میں 1870 میں ختم ہوا ۔ اٹلی میں 1948ء میں ختم ہوا ۔ نیپال میں 1031ء کو سزاے موت کے قانون کو ختم کی گئی ۔ آئس لینڈ میں 1954ء کو ختم کی گئی ۔ لیگز میرک میں 1822ء کو ختم ہوی پُرتگال میں 1867ء ہوا ۔ برطانیھ میں 1964ء میں ختم ہوا ۔ نارتھ ڈکوٹا میں 1895ء ریوڈ ائی لینڈ میں 1854ء کو ختم ہوا ۔ میکسیکو سے ختم ہوی ۔ ونزویلا سے ختم کی گئی، کوسٹاریکا سے ختم ہوئی۔ ملک کیوبا سے ختم ۔ نیوزی لینڈ سے ختم ۔ ملک کوئنز لینڈ سے ختم ہوا ۔ ملک رومانیہ میں سے ختم کی گئی۔ ملک کولمبیا میں سے ختم، ملک یوکرین سے ختم کی گئی ملک ارجنٹائن میں سے ختم ہوئی ۔ ملک پیرو میں سِ سزاے موت کِ قانون کا خاتمہ ہوا ۔ امریکہ کی اسٹیٹ میشیگن سے بھی 1847 ء میں اور نیو جرسی اسٹیٹ آف امریکہ 2007 ء سزائے موت کے قانون کا خاتمہ ہوا۔

مُجرم کو سزائے موت دینے سے مُجرم کی اِصلاح نہیں ہوتی ۔ مغربی ممالک آہیستہ آہیستہ اپنے ملکوں سے سزائے موت کا قانون ختم کرتے جا رہیں ہیں ۔ اور وہ دوسرے ملکوں سے بھی یہی فرما رہیں ہیں کہ سزائے موت کا قانون دنیا سے ختم ہونا چاہیے۔

سزائے موت انسانی حقوق و عظمت کی خلاف ورزی اور توہین ہے۔ یو این۔

اُن کے خیال و تصوّر میں سزائے موت وحشت اور بربریت کی علامت ہے انسانی حقوق اور عظمت کی توہین ہے اس سے مجرم کی اصلاح کا مقصد ختم ہوجاتا ہے ۔ سزا کا مقصد مُجرم کی اصلاح ہوتا چاہیے انسان کا خاتمہ نہیں ۔ سزا کا دوسرا مقصد معاشرے کو بُرائیوں سے بچانا ہے۔

سزائے موت کے قانون کو ختم کرنے کی وہ ممالک بات کر رہیں ہیں جہاں 100% قانون کی حکومت ہے اور ہر شہری کی جان و مال اور عزّت کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔

اور ہمارے ملکوں کا کیا حال ہوگا جہاں کوئی قائدہ قانون نھیں ۔ یہاں کی عدالتوں کے نظام کا کیا کہنا ۔ کوئی پُوچھ نے والا نہیں جو لوگ بھی زندہ ہیں اپنی مدد آپ کے فارمولے کے تحت زندہ ہیں۔ عوام بھی ووُٹ اور سپورٹ اُنہی کی کرتے ہیں جو ملک میں قانون سازی کرنا ہرگز نہیں چاہتیں ۔ جس ملک میں چیک اور بیلینس کا کوئی قانون نہیں کوئی نظام نہیں سچّی گواہی کا فُقدان ہے اور سزاے موت کا نظام۔


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *