حضرت جابر بن عبداللّٰہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے ہر اس چیز میں شفعے کا فیصلہ دیا ہے جو تقسیم نہ ہوئی ہو ۔

مگر جب حد بندی ہو جائے اور راستے الگ ہو جائیں تو پھر شفعہ نہیں ۔

شفعہ ہر مشترک چیز میں ہے ۔ زمین میں ، مکان میں ، باغ میں ، ۔ اپنے حصے دار کے روبرو پیش کیے بغیر چیز فروخت کرنا کسی کے لیے درست نہیں

نبی کریم ﷺ نے ہر چیز میں شفعے کا حق رکھا ہے ۔

صحیح بخاری اور صحیح مسلم ۔ بلوغ المرام ۔ باب نمبر : ۔ 13 حدیث نمبر : ۔ 760 ۔

شرعاً الشُّفعة کے معنیٰ کیا ہیں ؟

کسی ایک شریک کے حصے کو دوسرے شریک کی طرف منتقل کرنا ۔ جو کہ مقرّہ معاوضے کے بدلے میں کسی اجنبی کی طرف منتقل ہوچکا تھا ( فتح الباری ) ۔

جب فروخت کی جانے والی مملوکہ چیز کو تقسیم کر دیا جائے ۔ رکاوٹیں واقع ہو جائیں ۔ حدود متعین ہو جائیں اور تقسیم کے ذریعے سے ہر ایک کا حصہ نمایاں وَ ظاہر ہو جائے ۔

راستے اس طرح بنائیں جائیں کہ ہر ایک کا حصہ اسے حاصل ہو جائے ۔

آئمہ ثلاثہ کے نزدیک یہ حدیث دلیل ہے

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ الشُّفعَہ اس جائداد میں ہو سکتا ہے جو مشترک ملکیت میں ہو ۔

محض ہمسایہ ہونا الشُّفہ دائر کرنے کے لیے کافی نہیں ہے ۔ جمہور علماء اور آئمہ ثلاثہ ۔امام مالکؒ ۔ امام شافعیؒ اور امام احمد بن حمبلؒ کی رائے یہی ہے ۔ اوراقرب الی الصواب بھی یہی ہے ۔

احناف کی مخالفت

احناف نے ان کی مخالفت کی ہے : ۔ ان کا قول ہے کہ الشُّفَہ جس طرح مشترک جائداد میں جائز ہے اسی طرح محض ہمسائیگی کی بنیاد پر بھی جائز ہے ۔

احناف کی دلیل

ہر وہ چیز جس میں کئی آدمی شریک ہوں ۔ گھر ۔ مسکن ۔ رہائش گاہ اور بسا اوقات زمین پر بھی اس کا اطلاق ہو تا ہے ۔

خطابیؒ نے کیا کہا ؟

خطابی نے کہا ہے کہ الشُّفعہ ۔ زمین جائداد ، گھریلو سامان اور ان کے علاوہ دیگر ساز و سامان اور حیوان وغیرة وہی میں ہو سکتا ہے ۔

جیسا کہ ترمزی نے نقل کیا ہے

لاَ یَصلُح اور ایک روایت میں لَا یَحِلُّ بھی مروی ہے ۔ کسی حصےدار کے لیے حلال یا درست نہیں کہ وہ اپنے شریک حصہ دار کو اطلاع دئے بغیر اپنا حصہ فروخت کر دے ۔

اس سے معلوم ہوا کہ شریک کے رو برو اپنا عندیہ و مدعا پیش کردیا جائے ۔ تو پھر فروخت کرنے کی صورت میں شفعے کا حق نہیں رہتا ہے ۔

کیا شُفعہ کے شریک کو محض مطلاع کرکے اپنے حصے کی چیز کو فروخت کیا جا سکتا ہے ؟

سبل السلام : ۔ اس میں ہے کہ علماء اس فارمولے میں آپس میں اختلاف رکھتے ہیں ۔

یہکہ جب شریک شفعہ کو مطلع کر دیا جائے اور اس کے بعد کسی دوسرے سے سودہ کر لیا جائے تو کیا شریک کے لیے شفعے کا حق باقی رہتا ہے یا نہیں ؟

ایک قول تو یہ ہے کہ اسے اس کا حق ہے ۔ اور پہلے اطلاع دینا شفعہ کے صحیح ہونے کے لیے کوئی مانع نہیں ہے ۔ یہ جمہور کا قول ہے ۔

مگر سفیان ثوری اور حَکم اور ابوعبیدة اور اہل حدیث کی رائے میں یہ ہے کہہ اطلاع د ینے کے بعد شفعے کا استحقاق ساقط ہو جاتا ہے ۔ اور یہی رائے حدیث کے الفاظ کے زیادہ قریب ہے ۔ کتاب اضوء النھار ۔

سَبِل السلا م، امام طحاویؒ کی روایت میں شُفعے کا کیا تقاضہ ہے ؟

اور امام طحاویؒ کی روایت میں ہر وہ چیز ، خواہ منقولہ ہو یا غیر منقولہ ہو ، اس میں شفعے کا تقاضہ کرتی ہے ۔ اگر چہ یہ رائے چند اہل علم کی ہے ۔ مگر دلیل کے اعتبار سے قوی ہے ۔ نیز اس کے خلااف کوئی اور حدیث نہیں ہے ۔ اور معنیٰ کے اعتبار سے بھی یہ قوی ہے ۔

کیوں کہ ضرر اور بے ضرر جیسا منقولہ چیز میں متوقع ہے ۔ ویساہی غیر منقولپ چیز میں بھی متوقع ہے ۔

بہت سے شریک دوسرے کے مقابلے میں زیادہ سخی اور فراخ دل اور حوصلہ مند اور نرم مزاج اور اپنے طبیعت کے بہت عمدہ ہوتے ہیں ۔ اور بہت سے اپنے سے پہلے کے مقابلے میں سخت مزاج اور سخت طبیعت کے ہوتے ہیں ۔

حدیث : الشُّفعہ رسی کھولنے کی طرح ہے

حضرت ابن عُمَر ؓ سے مروی ہے ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ۔

شفعہ رسی کھولنے کی طرح ہے ۔ شفعہ رسی کھولنے کی مانند ہے ۔

اگر شفعہ کرنے والا کم سن ہو ۔ یا وہ اس وقت وہاں موجود نہ ہو تو بھی انہیں شفعہ کا استحقاق رہتا ہے

واللّٰہُ تعالی عالم بثواب ۔


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *