انسانی لہجے تہزیبوں کے امین اور رویوں کے سفیر ہوتے ہیں ۔بولنے والوں کے لہجوں میں ہی اصل بات کا مقصد چھوپا ہوتا ہے ۔ انسان اپنے لہجوں سے ہی اپنی بات کو سمجھا اور آگے والوں تک پہنچا سکتا ہے اورمنوا سکتا ہے ۔

اگر باتوں میں خوبصورت لہجوں کا اثر شامل نہ ہو تو ہماری باتیں پھیکی پھیکی اور روکھی سی محسوس ہوتی ہے ۔

شعراء اکرام یا مبلغ یا کوئی اہل بیان اپنے قوت گویائی اور شعر و ادب میں اپنے خوبصورت لہجوں کو شامل کرکے اپنی پہچان بنالیتے ہیں ۔

ہر شخص کا لہجہ ہی دراصل اسکے سماجی معیار و اخلاق و کردار اور وقار کا تعیُن کرتا ہے ۔ تعلیمی درس گاہ ہو ایوان سیاست ہو جو آپ اور ہم ہر روز ٹی وی پر دیکھتے رہتے ہیں ۔یہزیب و ادب کا میدان ہو یا کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق ہو یا واستہ ہو ۔ اگر ان کی بات و الفاظ کو ان کے لہجوں سے نکال دیا جائے تو باقی کیا رہ جاتا ہے سوائے خالی خولی الفاظ کے ۔ دراصل یہ باتیں ہی خوبصورت لہجوں کا سہارا پاکر دلوں تک پہنچتی ہے ۔ اور دلوں میں اتر جاتی ہے ۔ ورنہ خالی خولی باتیں باتوں میں کھوکر ہو کر سو کر رہ جاتی ہیں ۔

انسانوں میں کچھ ایسے انسان بھی ہوتے ہیں جن کی شخصیت مخالیفوں کو بھی اپنا گَروِدہ بنا دیتی ہے ۔ اپنا بنادیتی ہے ۔ جن کی ہر بات ان کے لہجے سے مل کر سماعتوں کے زریعے کان کے زریعے دلوں میں اتر جاتی ہے ۔ ان کی بات کو سننے والا ان کی شخصیت کا اثیر ہو جاتا ہے ان کا پرستار ہو جاتا ہے اور وہ ان کو مانے بغیر رہ نہیں سکتا ۔

بعض اوقات لوگ گر چہ ان کی بات کو دل سے مانتے ہیں دل سے احترام کرتے ہیں ۔ مگر بر ملا اظہار و اعتراف کی جُرت نہیں کر پاتے ۔ مصلیحتا! وہ سیاسی و مذہبی مجبوری کی وجہ بھی ہو سکتی ہے ۔ غالباً ۔ لیکن دل ہی دل میں ان کے خوبصورت انداز بیاں اور طلسماتی جاں زیب پر کشیش شخصیت کے قائل رہتے ہیں ۔

اللّٰہ سب کی حفاظت فرمائے آمین ۔۔


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *