انسان کی معاشی جدوجہد کا اغاز پہلے دن سے ہی شروع ہوگیا تھا اور ہمیشہ رہے گا ۔ انسانی حاجات و ضرورت میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہا ہے ۔ دولت کی مُنصفانہ تقسیم سے معاشرے میں معاشی اور سماجی امن و امان قائم رہتا ہے ورنہ معاشرتی کرپشن شروع ہو جاتا ہے ۔ اور پیدائش دولت کے نظام ۔ اور اس میں توازن کو قائم کرنا ۔

امداد باہمی کو معاشرے میں عام کرنے سے معاشرے میں برادرانہ ماحول قائم ہوتا ہے اور کفایت شُعاری کو عوام کا مزاج بنانے سے معاشرہ معاشی اور معاشرتی ترقی کرتا ہے۔ اور بنکینگ نظام مظبوط اور با اعتماد اور منافہ بخش بنّے لگتا ہے ۔ اور تجارت میں شراکت داری کو عام اور مظبوط کرنے سے ملک اور معاشرہ ترقی کرنے لگتا ہے ۔

زمین اور زراعت اور مزارعت کو مظبوط بنایں ۔ صنعت اور لیبر پالسی پر توجوں دینے کی ضرورت ہے۔

عوام کے معاشی اور اقتصادی حقوق کیا ہیں؟ معاشی مساوات اور عوامی حکمراں ۔

حضرت عمر ؓ کی اقتصادی و معاشی اصلاحات اور غریب کی قرض کی ادائگی اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔

جو کوئی غریب و نادار اور مسکین مقروض ہے، جو واجب الدا قرض چھوڑ کر مر چُکے ہیں یعنی مرحوم اپنی زندگی میں قرض ادا نہیں کر سکیں ہیں اُن کے قرض کی ادائگی ریاست کی زمہ داری ہے کہ ریاست، گورنمنٹ اس کے قرض کو ادا کرے ۔

حرام زرائع معیشت کا قلع قیمع ۔ خیانت ۔ رشوت ۔ ارباب اختیار کو تحفے و تحائف ۔ سودی نظام ۔ اور لین دین ۔ معاشرتی برائیاں قحبہ بازی اور عصمت فروشی ۔ چوری ۔ لوٹ مار ۔ دھوکہ دہی اور ظلم تشدد ۔ دوسروں کا مال غصب کرنا ۔ گداگری ۔ ان برائیوں کو ختم کر کے بہترین اصلاحاتی نظام قائم کیا ۔

امدن اور خرچ میں اعتدال قائم کرنا شرعی فریضہ ہے۔ حاجات و ضروریات اور تسہیلات ۔

اسرافات و تعیّشات ۔ تبزیرات ان سب پر انقلابی کام ہوا ۔ پولس کا مثالی نظام قائم ہوا ۔ اپ کی تین براعظم میں حکومت تھی ۔ اور اپ کی ریاست میں کوئی بھوکا اور غریب نہیں رہتا تھا ۔ بے انصافی کسی کے ساتھ نہیں ۔

اجتماعی نظام

اجتماعی مفاد کو انفرادی مفاد پر ترجیح کا فائدہ اور اُن کے نقصان کیا ہیں؟

سودی نظام کی نحوست ۔ : سودی نظام معیشت کے قیام سے عام لوگ متاثر ہتے ہیں ۔ اور اس کی شرعی حیثیت: ۔سودی معیشت کے قیام سے روحانی اور اخلاقی اور معاشرتی اور تمدُنی اور سیاسی اور معاشی نقصانات کیا کیا ہیں ۔ بخالت اور سخاوت میں توازن قائم کرنا ۔

اسلام کا تصور مال و ملکیت متع

تمام مال کا مالک اللّہ تعلیٰ ہے ۔ ہم اس کے استعمال کرنے والے ہیں ۔ صحیح یا غلط ہم زمہ دار ہیں ہم صرف اس کے امین ہیں ۔ ایک ایک دانے کا ہمیں اس دنیا سے اُس دنیا تک حساب دینا پریگا ۔ کہاں سے کمایا ۔ کیسے کمایا ۔ کس نے کمایا ۔ کب کمایا ۔ اور کہاں کہاں خرچ کیا ۔ اج کے دنیا کے مطابق ۔ ان کو منی ٹریل ثابت کرنا پریگا ۔ اِقتصادیات میں اعتدال کو قائم کرنے کی جدوجہد ۔ تمام مال اور ملکیت محض زریعہ ہے ۔ قوت خرید ہوتی ہے ۔ قطعی منزل نہیں ۔

اللّہ نے ہم کو انفرادی حق ملکیت دیا ہے ۔ تاکہ معاشرے کے لوگوں میں خود اعتمادی قائم رہے ۔ اور وة عزّت نفس کے ساتھ زندة سلامت رہیں ۔

باہمی معاشرتی و معاشی تعاون اور اسکی اقسام؟

باہمی سیاسی تعاون اور دفاعی تعاون ۔ تعزیری تعاون ۔ اخلاقی تعقون ۔ علمی تعاون ۔ عملی تعاون ۔ معاشی تعاون میں کفالت عامہ اور اسکا دائرة کار ۔ : انفرادی کفالت عامہ ۔ اجتماعی کفالت عامہ ۔ مختلف طبقاتِ معاشرة کی عملی کفالت عامہ کیسے کی جائے ۔ : ان کا حق خوراک ۔ حق لباس ۔ حق رہائش ۔ حق روزی و روزگار ۔ حق تعلیم و تربیت ۔ حق علاج و معالجہ اور ہر قسم کی طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ۔

عدل و انصاف اور تعزیرات کے حقوق :۔

قانونی حقوق و مساوات کا ریاست میں عملی نفاز ۔ حصول انصاف کو اسان طریق پر معاشرے میں قائم کرنے کا حق ۔ عدالتی نظام میں ازادانہ سماعت کا حق ۔ دوسروں کے جرائم سے برات کا ا علان کرنے کا حق جو جرم کرے گا وہی بھکتے گا ۔ کوئی اور کسی کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا ۔ ۔ اپنی صفائی پیش کرنے کا بھر پور موقع فراہم کرنے کا حق ۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی کا نظام ۔

Categories: Economics

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *