صحابہ کرام کے سینوں پر انوار رسالت براہ راست پڑے تھے ۔ انہوں نے اپنا گھر بار ۔ اپنا مال و منال ۔ دھن دولت اہنا سب کچھ حضور اکرم ﷺ کی خاطر لُٹا دیا ۔

صدیق اکبر کو دیکھیئے ابھی اسلام کا آغاز تھا ۔ مکے کی بستی کافروں سے بھری ہوئی تھی ۔ حضرت ابوبکرؓ ، سرور کونین کی محبت سے سر شار ہو کر حضور علیہ اصلوٰة والسلام سے التجا کی کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں مکہ کے لوگوں کو علانیہ آپ ﷺ کی رسالت کی اطلاع ہوں ۔ اور آپؐ سے فیضیاب ہونے کی دعوت عام دوں ۔

آپ ﷺنے فرمایا : ۔

اے ابوبکرؓ ذرا صبر سے کام لو ، ابھی ہم تعداد میں کم ہیں ۔ حضرت ابوبکر پر غلبہ حال طاری تھا انہوں نے پھر اصرار کیا حتیٰ کہ حضور اکرمؐ نے اجازت دے دی ۔حضرت ابوبکرؓ نے بے خوف و خطر لوگوں کو اللّٰہ اور اس کے رسول پاکؐ کی طرف دعوت دینا شروع کر دیا۔

فَکَانَ اَوَّل خَطِیبِِ دَعَاِلَیاللّٰہِ وَالِیَرَسُولِہِ

البدایہ وَ النہایہ میں حافظ ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں : ۔

حضور ﷺ کی بعشت کے بعد حضرت ابو بکر صدیق پہلے خطیب ہیں جنہوں نے اللّٰہ اور اسکے رسول اللّٰہ ﷺ کی طرف بلایا ۔

جب آپ مکہ میں قالا اللّٰہ اور قالا رسولؐ کی دعوت دے رہے تھے تو مشریکین مکہ آپ پر ٹوٹ پڑے اور آپ کو سخت مارا پیٹا اور روندا ۔ لہولہان کردیا ۔

انعُتبہ بن ربیعہ نے آپ کے چہرے پر بے تحاشا تھپڑ مارے ۔ آپ قبیلہ بنو تمیم سے تھے ۔ آپ کے قبیلے کے لوگوں کو خبر ہوئی تو وہ دوڑتے ہوئے آئے اور مشریکین مکہ سے انہیں چھڑا کر ان کو اُن کے گھڑ چھوڑ آہیں

صدّق اکبر کو اتنا مارا تھا کہ وہ بے ہوش ہوگئے تھے ۔ اور اس وقت لوگوں نے سمجھا تھا کہ شایدھ اب وہ صحت مند نہیں ہو سکے گے ۔ کیوں کہ دشمنوں نے ان کو نے بری طرح زخمی کر چکے تھے جب شام ہوئی تو آپ کو ہوش آیا ۔ آپ کے والد ابو قحافہ اور آپ کے قبیلے کے لوگ آپ کے پاس کھڑے تھے ۔

آپؓ کو ہوش آتے ہی پہلی بات ابو بکر صدّق نے یہ کہی کہ رسول ﷺ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں ۔ یہ بات سن کر ان کے قبیلے کے لوگ سخت برہم ہوئے ۔ اور انہیں ملامت کرنے لگے ۔ کہا کہ جس کی وجہ سے یہ ذلّت و رسوائی تمہیں اٹھانی پڑی اور یہ مار پیٹ تمہیں برداشت کرنا پڑی ہوش میں آتے ہی تم پھر اسی کا حال پسچھتے ہو ۔

ان کے قبیلے کے لوگ مایوس ہوکر اپنے گھڑوں کو واپس ہو لیئے ۔ اور ان کی ماں ام الخیر سے کہہ گئے کہ جب تک محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی محبت سے یہ باز نہ آجائے اس کا بائکاٹ کرو ۔ اور اسے کھانے پینے کو کچھ نہ دو ۔

ماں کی ممتا تھی ان کا جی بھر آیا کھانا لاکر سامنے رکھ دیا اور کہا کہ بیٹا تم دن بھر کے بھوکے ہو کچھ کھا لو ۔ حضرت ابو بکر نے جواب دیا کہ : ۔

ماں ! خدا کی قسم میں کھانا چکھوں گا تک نہیں اور پانی کا ایک گھونٹ بھی نہیں پیوں گا جب تک کہ حضور ﷺ کی زیارت نہ کر لوں ۔

حضرت عمر کی بہن اُم جمیل آگیئں اور بتایا کہ محمد ﷺ خیریت سے ہیں ۔ اور دارِ ارقم میں تشریف فرماء ہیں ۔

حضرت ابو بکر زخموں سے چُور تھے چلنے پھرنے کے قابل نہ تھے اپنی ماں کے سہارے سے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے ۔ حضور علیہ الصلوٰا ة اسلام ابو بکر پر جھک پڑے اور انہیں چوما حضور علیہ اصلوٰةُ اسلام پر سخت گریہ طاری تھا ۔ آپؐ نے دیکھا کہ صدیق اکبرؓ حضرت اقدس علیہ الصلوٰة واسلام کی محبت میں اپنے جسم اور اپنی کی سب تکلیفیں بھول گئے ہیں ۔

صحابہ اکرام حضور اقدس ﷺ کی ایک زیارت کو ترستے تھے ۔

عاشقانِ رسول علیہ الصلوٰةُ وسلام ایسے بھی تھے جن کو اپنی انکھیں محض اس لیئے عزیز تھیئں کہ ان سے حضور ﷺ کی زیارت ہوتی ہے ۔

بازم بچشم خود کہ جمال تو دیدہ است


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *