نبی کریم ﷺ نے ہجرت کے بعد جب مسلمانوں کے درمیان عقیدے ، سیاست اور نظام کے وہدت کے زریعے ایک نئے اسلامی معاشرے کی بنیادیں ااستوار کرلیں ۔
تو غیر مسلموں کے ساتھ اپنے تعلقات منظم کرنے کی طرف توجہ فرمائی ۔
آپ ﷺ کا مقصود یہ تھا کہ ساری کی ساری انسانیت امن وَ سلامتی کی سَعادتوں اور برکتوں سے بہر ور ہو اور اس کے ساتھ ہی مدینہ اور اس کے گرد و پیش کا علاقہ ایک وفاقی وحدت میں منظّم ہو جائے ۔
چنانچہ آپؐ نے رواداری اور کشادہ دلی کے ایسے قوانین مسنون فرمائے جن کا اس تعصب اور غلوّ پسندی سے پھری ہوئی دنیا میں کوئی تصور ہی نہ تھا ۔
مدینے کے قریب ترین پڑوسی بنو عوف کے یہود تھے
مدینے کے سب سے قریب ترین پڑوسی یہود تھے ۔ یہ لوگ اگر چہ درپردہ مسلمانوں سے عداوت رکھتے تھے ۔ لیکن انہوں نے اب تک کسی محاذ آرائی اور جھگڑے کا اظہار نہیں کیا تھا ۔ اس لیے رسول اللّٰہ ﷺ نے ان کے ساتھ ایک معاہدہ منعقد کیا جس میں انہیں دین وَ مذہب اور جان و مال کی متعلق آزادی دی گئی تھی ۔ اور جلا وطنی ، ضبطی جائداد ، جھگڑے کی سیاست کا کوئی رُخ اختیار نہیں کیا گیا تھا ۔
معاہدے کی دفعات 1 تا 12 حاضر خدمت ہے
نمبر : ۔ 1 ۔ بنو عوف کے یہود مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک ہی امّت ہوں گے ۔ یہود اپنے دین پر عمل کریں گے اور مسلمان اپنے دین پر ۔ خود ان کا بھی یہی حق ہوگا ۔ اور ان کے غلاموں اور متعلقین کا بھی ۔ اور بنو عوف کے علاوہ وہ دوسرے یہود کے بھی یہی حقوق ہوں گے ۔
نمبر : ۔ 2 ۔ یہود اپنے اخراجات کے ذمہ دار ہوں گے اور مسلمان اپنے اخراجات کے ذمہ دار ۔
نمبر : ۔ 3 ۔ اور جو طاقت اس معادے کے کسی فریق سے جنگ کرےگی ۔ سب اس کے خلاف آپس میں تعاون کریں گے ۔
نمبر : ۔ 4 ۔ اور اس معادے کے شرکاء کے باہمی تعلقات خیر خواہی ، خیر اندیشی اور فائدہ رسانی کی بنیاد پر ہوں گے ۔گناہ پر نہیں ۔
نمبر : ۔ 5 ۔ کوئی آدمی اپنی حلیف کی وجہ سے مجرم نہ ٹھہرے گا ۔
نمبر :۔ 6 ۔ مظلوم کی مدد کی جائے گی ۔
نمبر : ۔ 7 جب تک جنگ برپا رہے گی یہود بھی مسلمانوں کے ساتھ خرچ برداشت کریں گے ۔
نمبر : ۔ 8 ۔ اس معادے کے سارے شرکاء پر مدینہ میں ہنگامہ آرائی کُشت وُ خون حرام ہوگا ۔
نمبر : ۔ 9 ۔ اس معادے کے فریقوں میں کوئی نئی بات یا جھگڑا پیدا ہوجائے ۔ جس میں فساد کا اندیشہ ہو تو اس کا فیصلہ اللّٰہ عزّو جل اور محمد ﷺ فرمائیں گے ۔
نمبر :۔ 10 ۔ قریش اور اس کے مددگاروں کو پناہ نہیں دی جائے گی ۔
نمبر : ۔ 11 ۔ جو کوئی یثرب پر دھاوا بول دے اس سے لڑنے کے لیے سب باہم تعاون کریں گے اور ہر فریق اپنے اپنے اطراف کا دفاع کرے گا ۔
نمبر : ۔ 12 ۔ یہ معاہدہ کسی ظالم یا مجرم کے لیے آڑ نہ بنے گا ۔
اس معاہدے کے نتیجے میں مدینہ واقعةً اسلام کا داراُلحکومت بن گیا
اس معاہدے کے طے ہو جانے سے مدینہ اور اس کے اطراف ایک وفاقی حکومت بن گئے۔ جس کا داراُلحکومت مدینہ بن گیا ۔
اور اس کے سربراہ رسول اللّٰہ ﷺ تھے ۔
اور جس میں کلمہ طیبہ نافزہ ہوا اور غالب حکمرانی مسلمانوں کی تھی ۔
اور اس طرح مدینہ واقعةً اسلام کا داراُلحکومت بن گیا ۔
امن و سلامتی کے دائرے کو مزید وُسعت دینے کے لیے نبی اکرم ﷺ نے آئندہ دوسرے قبائل سے بھی حالات کے مطابق اسی طرح کے معاہدے کئے ۔
0 Comments