ہم لوگ بھی بہت انصاف پسند ہیں زبان سے اللّہ کو اور عمل سے شیطان کو راضی کرتے ہیں۔
اس پر ایک شاندار مضمون حاضر خدمت ہے:۔
لوگ بھی بہت انصاف پسند ہیں زبان سے اللّہ کو اور عمل سے شیطان کو راضی کرتے ہیں۔
یہاں پر ہم انصاف اور ہم لوگ کے موضوع پر ایک مضمون پیش خدمت ہے:۔
لوگوں کا زبان سے اللّہ کو اور عمل سے شیطان کو راضی کرنے کا رویہ بڑا عام ہے۔
انسانی رویہ:- انوانوں کی زندگی تضادات سے اور اختلافات سے بھری پڑی ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ زبان سے اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں، اللّہ پاک کی تعریف و تسبیح کرتے ہیں، اور دین کے اصولوں کو دہراتے نظر آتے ہیں۔ لیکن جب ان کے اپنے زاتی اعمال کا جائزہ لیا جائے تو خود اُن کے کہے ہوئے الفاظ سے اُن کے اعمال مطابقت نہیں رکھتے۔ یہ رویہ صرف ایک انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی رویے کا بھی حصہ بن چکا ہے۔
یہ زبان کا کھیل ہے اور عمل کا فقدان ہے۔
زبان وہ آلہ کار ہے جس سے انسان اپنی نیت، اپنے عقائد، اور اپنے خیالات کو الفاظ دیتا ہے اپنی اندرونی کیفیت کا اظہار کرتا ہے۔ جب زبان سے اللّہ کی تعریف کی جاتی ہے اور عدل و انصاف کا درس دیا جاتا ہے، تو یہ عمل کسی بھی مسلمان کے ایمان کا بنیادی اظہار ہے۔ لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو ہم اکثر اپنے الفاظ سے مختلف راستہ اختیار کرتے ہیں۔
باعمل باکردار سمجھدار انسان
مثلاً:- ہم زبان سے عدل و انصاف کا درس تو دیتے ہیں مگر اپنے معاملات میں انصاف نہیں کرتے۔ ضرورت پرے تو خود رشوت لیتے اور رشوت دیتے ہیں۔ خود جھوٹ بولتے فریب کرتے نظر آتے ہیں اپنی زاتی زندگی کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔
ہم دوسروں کو حقوق العباد کی تاکید کرتے ہیں، لیکن اپنے گھر والوں کے اپنے خاندان کے اور اپنے دوستوں اور ملازمین اور ہروسیوں کے حقوق ادا نہیں کرتے۔
بدنی عبادات کے ساتھ اخلاقی عبادات کی بھی ضرورت ہے۔
ہم نماز، روزہ، اور صدقہ اور دیگر عبادات کا پرچار تو کرتے ہیں، لیکن اپنے رویے میں ناانصافی کرتے ہیں۔ ہر قسم کی سماجی جرائم و کرائم میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ہم جھوٹ دیدا دیلیری سے بولتے ہیں، لوگوں کو دھوکہ دینا اسمارٹنس سمجھتے ہیں اور بددیانتی کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ الغرض یہ ہے کہ اگر موقع مل جائے تو ہر بُرائی میں آگے آگے۔
یہ دوغلا پن کا رویہ کیوں؟
نمبر 1- ایمان اور علم و عمل کی کمی:- یہ رویہ ہمارے اندرونی کمزوریوں اور معاشرتی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ ہم دنیاوی فوائد کی خاطر اپنے اصولوں کو ترک کر دیتے ہیں اور اپنے قول و فعل کے تضاد کو معمول کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔
خواہیشوں کے پیروکار۔
نمبر 2- منافقت کا عنصر: ہمارا معاشرہ اکثر دکھاوے کے کام کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم دوسروں کے سامنے اپنی اچھائی کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن نجی زندگی میں اپنی خواہشات کے پیروکار بن جاتے ہیں۔
دنیاوی ظاہری خوہیشات؟
نمبر 3- دنیاوی فوائد کی طلب: شیطان انسان کو دنیاوی ظاہری خواہشات کی جانب اُلجھا کر مائل کرتا ہے۔ اور ہم ان کے پیچھے لگ کر اپنے اخلاقی اصول بھول جاتے ہیں۔
عمل صالح کی کمی کیوں؟
نمبر 4-روحانی کمزوری: اللّہ پاک کی یاد اور اس پر کامل ایمان و عمل نہ ہونے کی وجہ سے انسان آسانی سے گناہوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ اس طرح ہم روحانی کمزوریوں کا شکار ہو کر عمل و صالح سے دور ہو جاتے ہیں۔
اس منافقت کا حل اور سیدھا راستہ۔
اللّہ رحمنٰن و رحیم کی رضا اور شیطان کے وسوسوں سے بچنے کے لیے ہمیں اپنے اندر ایمانی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تب ہی جا کر ہم انصاف پسند بنیں گے۔ ان شاء اللّہ تعلی۔
خود احتسابی کی ضرورت کیسے؟
نمبر 1- خود احتسابی: اگر ہم روزانہ اپنے اعمال کا جائزہ لیں کہ ہمارے کے قول و فعل میں کہاں کیاں فرق ہے تضاد ہے۔ یعنی جو ہم بولتے ہیں اس پر خود عمل کرتے ہیں یا نہیں اگر عمل نہیں کرتے تو آج سے عمل کرنا شروع کردیں۔ پھر دیکھ تماشہ۔ ہوتا ہے کیا۔
نمبر 2- اللّہ پاک سے قربت: عمل و صالح کے زریعے اللّہ کو راضی کریں اور عبادات کے ذریعے اللّہ سُب حان تعلی کی قُربت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ تاکہ ہمارے دل میں اللّہ پاک کا خوف اور محبت قائم رہے۔
عملی قولی اور فعلی کے ساتھ انصاف کرنے کی ضرورت
نمبر 3- عملی قولی قلبی اقدامات: صرف زبان سے نہیں، بلکہ اپنی زبان سے اور اپنے قلب یعنی دل سے اقرار کریں اور اپنے اعمال سے ثابت کریں کہ جو ہم بولتے ہیں سو ہم کرتے ہیں۔ زندگی کے تمام رشتوں کے ساتھ انصاف کریں، زندگی کا اصول دیانت داری پر قائم کریں۔ اور جو بھی کام کریں اللّی کی رضا کے لیے کریں۔ اللّہ سے محبت اور اللّہ کے بندوں سے محبت کا مظاہرہ کریں۔ تو زندگی سے یہ دوگلا پن ختم ہو جائے گا، ان شاء اللّہ تعلی۔
معاشرتی کردار
نمبر 4- سماجی معاشرتی کردار: اپنی ذندگی سے واوسطہ ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کریں کہ جو دکھاوے کا نہیں حقیقی کا ہو۔ اپنے اخلاقی رویوں پر دھیان دیں۔ انسانیت کو اہمیت دینے کی کوشش کرتے رہیں۔ ہمارے دینی اور دنیاوی معاملات صحیح ہونا شروع ہونے لگے گے۔ ان شاء اللّہ تعلیٰ
قول و فعل کا فرق ختم ہوجائے گا۔
زبان سے اللّہ کو راضی کرنا آسان ہے، لیکن اصل کمال اپنے اعمال کو بھی اللّہ کی رضا کے مطابق ڈھالنا ہے۔ جب انسان کا قول اور فعل ہم آہنگ ہو جائیں، آپس میں ملنے لگے تو ہم دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ شیطان کے وسوسے انسان کو گمراہ ضرور کر سکتے ہیں، لیکن ایک مضبوط ایمان اور عملی تقویٰ اسے اللّہ کا قرب حاصل کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ پھر ہم حقیقی انصاف پسند ہو سکتے ہیں۔ ان شاء اللّہ تعلیٰ۔
انصاف اپنے ساتھ کیسے؟
انصاف کریں تو انصاف ملے گا:- ہم بھی کیسے انصاف پسند لوگ ہیں زبان سے اللّہ کو اور عمل سے شیطان کو راضی کرتے ہیں۔ ہر قدم پر منافقت ہی منافقت۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ انصاف ہو تو ہم اپنے گھر والوں کے ساتھ دوستوں کے ساتھ اور سب کے ساتھ انصاف کریں اور منافقت کا خاتمہ کریں ایمان کی بات ساتھ ساتھ ایمان والے عمل کرنے والے بنیں۔ آمین۔
تحریر جاری ہے ۔ ۔ ۔
0 Comments