نکاح کے چار بنیادی اصول:۔
نمبر 1- اخلاق اور پاکیزگی کی حفاظت، نمبر 2- نکاح نسل انسانی کی بقاء و افزائِش نمبر3- سکون قلب اور مودت و رحمت نمبر 4- دینی اور معاشرتی مصالح: ۔
نمبر 1- نکاح کے زریعے اخلاق اور پاکیزگی کی حفاظت :۔
نمبر 1- اخلاق اور پاکیزگی کی حفاظت :- اسلام کی نگاہ میں نکاح کا اوّلین مقصد اخلاق اور عفّت و عصمت کا تحفظ ہے۔ اسلامی قانون میں زنا حرام ہے اور اس فعل کی بہت سخت سزا ہے۔ اسلام مرد اور عورت دونوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے فطری تعلق اور نفسیاتی خواہش کو ایک ایسے ضابطے کا پابند بنائیں جو اُن کے اخلاق کو بے حیائی سے اور انسانی تمدُن کو فساد سے محفوظ رکھ سکے۔
قُران مجید فرقان حمید میں نکاح کی تعبیر احصان سے کی گئی ہے۔ احصان کے معنٰی قلعہ بندی کے ہیں، نکاح کرنے والا مرد مُحصِین ہوتا ہے ہعبی قلعہ تعمیر کرنے والا شخص اس کا شوہر ہوتا ہے۔ یہ عورت جو اب اس کی بیوی بن چُکی ہے اُس کی عزت و عصمت اور عفت کی حفاظت کرنے اور نان نفقہ فراہم کرنے کی ذمہ داری اُس کے شہر کی ہوتی ہے۔ قانون نکاح کا پہلا کام اِس قلعہ کو مضبوط و مُستحکم کرنا ہے۔ جہاں اُس کی بیوی بنیادی آزادی کے ساتھ عزت و احترام اور سکون و عافیت کے ساتھ پُر وقار طریقے سے رہ سکے۔
نمبر 2- نکاح کے زریعے نسل انسانی کی بقاء و افزائِش:۔
نسل انسانی کی بقاء اور افزائش کی خدائی منصوبے کا زریعہ مرد اور عورت کا تعلق ہے۔ اللّہ تعلی نے قران مجید کی سورۃ بقراہ کی آیت نمبر 223 میں فرماتے ہیں کہ:- تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، تمہیں اختیار ہے جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جاو، مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو۔
مرد اور عورت کا تعلق کسان اور کھیت کا سا ہے۔ کھیت میں کسان محض تفریح کے لیے نہیں جاتا ہے بلکہ اس لئے جاتا ہے کہ اس سے پیداوار حاصل کرے۔
نمبر3- نکاح سکون قلب اور مودت و رحمت کا زریعہ :۔
رشتہ نکاح کا تہسرا مقصد یہ ہے کہ یہ نکاح کا تعلق مودت و رحمت کی بنیاد بنے۔ تاکہ مرد و عورت کی خاندگی زندگی میں یہ دونوں راحت و مُسرت اور سکون و عافیت اور قلبی سکون حاصل کر سکئیں۔ یہ تمدُن کے اعلی مقاصد کو پورے کرنے کے لیے ان دونوں کو طاقت و قوت فراہم کریں۔
قران مجید کے سورۃ بقرۃ کے آیت نمبر 187 میں اللّہ پاک فرماتے ہیں کہ:- “وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لئے“۔
لباس انسانی جسم سے مُتصل رہتا ہے، لباس پردہ پوشی بھی کرتا ہے، لباس انسان کو راحت اور آرام بھی دیتا ہے۔ لباس انسان کو خوبصورت بناتا ہے۔
قران پاک کی سورہ روم کے آیت نمبر 21 میں اللّہ پاک فرماتے ہیں:- اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان جے پاس سے سکون حاصل کر سکو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی ۔
مُودّت محبت اور رحمت رشتہ نکاج کی روح ہے:۔
اگر جسم سے روح نکل جائے تو بے جان لاش بن جاتا ہے۔ جس کو دفن نہ کیا جائے تو یہ جسم سڑ گل جاتا ہے۔ یہ ہے جسم کی حقیقت ۔
نمبر 4- نکاح ازدواجی رشتہ دینی اور معاشرتی مصالح بھی ہے:۔
نکاح کے قوانین و احکام دو اصولوں پر قائم ہیں۔ پہلا اصول مرد کی قوامیت ہے اور دوسرا اصول نباہ نہ ہونے کی صورت میں علیحٰدگی کی گُنجائش:۔
مرد کی قوامیت ذمہ داریاں اور حقوق:۔
قوام یعنی سربراہ کار و منتظم اور نگراں پرُ و وئیڈر، پروٹیکٹر :- مرد میں چونکہ فطرتاََ سربراہی کی صلاحیت ہوتی ہے اس لیئے اللّہ پاک نے مرد کو عورت پر قوام بنایا گیا ہے مرد کو عورت کا پروٹکٹر بنایا ہے۔
نکاح کے بنیادی اصول اسلامی شریعت میں بہت اہم ہیں، کیونکہ نکاح ایک مقدس معاہدہ ہے جو دو افراد کے درمیان تعلق کو قانونی اور شرعی حیثیت دیتا ہے۔ یہاں نکاح کے چند بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں:۔
نمبر 1- رضامندی: نکاح کے لیے دونوں فریقین یعنی مرد اور عورت کی رضا ضروری ہے۔ زبردستی کی شادی شریعت میں جائز نہیں ہے۔
نمبر 2- ولی کی موجودگی: عام طور پر ولی یعنی لڑکی کے سرپرست (والد، بھائی یا قریبی رشتہ دار) کی موجودگی اور اجازت بھی ضروری ہے، خاص کر لڑکی کی پہلی شادی کے وقت
نمبر 3- گواہان: نکاح کے لیے کم از کم دو مسلمان مرد گواہوں کا ہونا لازمی ہے، جو اس نکاح کو دیکھیں اور تصدیق کریں۔
نمبر 4- حق مہر: حق مہر ایک مالی رقم یا تحفہ ہے جو مرد اپنی بیوی کو ادا کرنے کا عہد کرتا ہے۔ یہ مہر عورت کا حق ہے اور شادی کے معاہدے میں اسے طے کرنا ضروری ہے۔
نمبر 5 – ایجاب و قبول: نکاح کے دوران ایجاب و قبول یعنی مرد اور عورت کا ایک دوسرے کو قبول کرنا ضروری ہے۔ یہ نکاح کی شرعی حیثیت کو قائم کرتا ہے۔
نمبر 6- اعلان و تشہیر: نکاح کو لوگوں کے سامنے اعلان کیا جاتا ہے تاکہ معاشرہ اس تعلق سے واقف ہو اور اسے تسلیم کرے۔
نمبر 7- قانونی عمر: اسلامی اصول کے مطابق نکاح کے لیے مرد اور عورت کی مناسب عمر کا ہونا ضروری ہے، تاکہ دونوں فریقین کی ذہنی اور جسمانی اہلیت پوری ہو۔
یہ بنیادی اصول نکاح کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک معتبر اور بابرکت معاہدتی معاشرہ بناتے ہیں۔
0 Comments