حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- “جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (وہ منقطع نہیں ہوتے):- صدقہ جاریہ اور ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور نیک اولاد {بیٹا / بیٹی} جو اس کے لیے دعا کرے۔
5 الاحادیث:۔
➊ مرنے والے کے سارے اعمال ختم ہو جاتے ہیں لیکن اگر وہ مومن مسلمان تھا تو مذکورہ تین اعمال کا اسے مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچتا ہے۔
➋ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مردہ دنیا والوں کی باتیں نہیں سنتا اور نہ کچھ دنیا میں سے دیکھتا ہے۔ یاد رہے کہ جس بات کا استثناء ثابت ہے اس پر ایمان لانا واجب ہے، مثلاً یہ ثابت ہے کہ دفن کے بعد واپس جانے والوں کے جوتوں کی آواز مردہ سنتا ہے۔ ديكهئے: [اضواء المصابيح 126]
➌ عالم اور طالب علم کو عام لوگوں پر فضیلت حاصل ہے۔
➍ وفات کے بعد، مرنے والے کے لئے قرآن خوانی کا اہتمام یا قل، ساتواں اور چالیسواں وغیرہ وغیرہ کرنے سے مُردے کو یا میّت کو ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔ یہ عمل کسی کے لیے بھی مفید نہیں ہیں، ماسوائے درج بالا تین اعمال کے، لہٰذا اس قسم کی بدعات سے اجتناب کرنا چاہیے۔۔
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح {203}
´مرنے کے بعد ثواب کا سلسلہ`
. وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ: صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أوعلم ينْتَفع بِهِ أوولد صَالح يَدْعُو لَهُ) رَوَاهُ مُسلم
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے- انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- ”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے سارے کاموں کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے۔ مگر تین کاموں کا ثواب بند نہیں ہوتا ہے بلکہ ان کا ثواب برابر جاری رہتا ہے، صدقہ جاریہ، علم جس سے نفع حاصل کیا جائے، نیک اولاد جو مر جانے کے بعد اس کے حق میں دعا کرتی رہے۔“ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 203]
تخريج الحدیث:۔
[صحيح مسلم 4223، ابوعوانه 3؍191 ح47۔ واللفظ له بزيادة من ”قبل صدقةٍ“]
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1376
وقف کا بیان:۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: ایک صدقہ جاریہ ۱؎ ہے، دوسرا ایسا علم ہے ۲؎ جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرا نیک و صالح اولاد ہے ۳؎ جو اس کے لیے دعا کرے۔“ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1376]
وضاحت:۔
نمبر ایک:- صدقہ جاریہ یعنی ایسا صدقہ جس کو عوام کی بھلائی کے لیے وقف کردیا جائے
مثلاً سرائے کی تعمیر، کنواں کھُدوانا پانی کے لیے نل لگوانا اور ہر ہر نیک کام عوام الناس کے فائدے کے لیے کرنا وغیرہ ۔
مساجدومدارس اوریتیم خانوں کی تعمیرکروانا،
اسپتال کی تعمیر،
پُل اورسڑک وغیرہ بنوانا،
ان میں سے جو کام بھی وہ اپنی زندگی میں کرجائے یا اس کے کرنے کا ارادہ رکھتا ہووہ سب صدقہ جاریہ میں شمارہوں گے۔
نمبر 2:- علم نافیہ دینا عام و خاص لوگوں کو تعلیم دینا
طلباء کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا۔
تصنیف وتالیف اور درس وتدریس دعوت وتبلیغ کا سلسلہ قائم کرنا
مدارس اور اسکول کی تعمیرکرنا۔
دینی کتب کی طباعت اور ان کی نشرو اشاعت کا بندوبست کرنا وغیرہ امورسبھی نیک کام میں داخل ہیں۔
نمبر 3 :- نیک اولاد میں بیٹا۔
بیٹی دونوں پوتے ہیں۔
نواسا نواسی ۔ پوتا پوتی وغیرہ کے علاوہ روحانی اولاد بھی صدقہ جاریہ میں شامل ہیں۔ جنہیں علم دین سکھایا گیا ہو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1376
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2880
میّت کی جانب سے صدقہ کے ثواب کا بیان۔۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (جن کا فیض اسے برابر پہنچتا رہتا ہے): ایک صدقہ جاریہ ۱؎، دوسرا علم جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے ۲؎، تیسرا صالح اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرتی رہے۔“ [سنن ابي داود/كتاب الوصايا /حدیث: 2880]
فوائد ومسائل:۔
تادیر جاری اور باقی رہنے والی اشیاء بطور صدقہ وقف کرجانا جو لوگوں کے لئے خیر کا باعث بنی ہیں۔
صدقہ جاریہ کہلاتی ہیں۔
جب تک یہ موجود رہیں، میت کو ان کا ثواب پہنچتا رہتا ہے۔
جیسے کہ مذکورہ بالا باب اور حدیث میں گزرا ہے۔
اس طرح مسجد مدرسہ سرائے کی تعمیر اور رفائے عامہ کے کام کر جانا علم پھیلانا شاگرد بناجانا اور کتاب تصنیف و تالیف کرنا یا اس کی اشاعت کرنا وقف کرنا از حد عمدہ کار خیر ہیں۔
اور اولاد کی شرعی بنیادوں پر تربیت سب سے بڑھ کر شاندار صدقہ جاریہ ہے، ہر مسلمان کو اس کا حریص ہونا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2880
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4223
الاحادیث :۔
فوائد ومسائل:۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں نیک عمل کرتا ہے۔
وہ اگرچہ اس کے مرنے پر ختم ہو جاتا ہے۔
لیکن اگر اس عمل کے اثرات و ثمرات اس کے بعد بھی قائم رہتے ہیں۔
تو اس کو اس کا اجروثواب ملتا رہتا ہے۔
خاص کر اولاد اگر وہ اس کی صحیح دین کے مطابق تربیت کرتا ہے۔
اور اس کے نتیجہ میں۔
وہ اس کے حق میں دعا یا صدقہ و خیرات کرتی ہے۔
تو اس کا اجر۔
اس کو ملتا رہتا ہے۔
یا اس نے کوئی دینی اور علمی کتاب چھوڑی۔
اس نے تعلیم و تدریس کے ذریعہ۔
اہل علم پیدا کیے۔
کوئی دینی مدرسہ یا مسجد بنائی۔
وعظ و تبلیغ کے ذریعہ لوگوں میں دین پر عمل کرنے کا جذبہ ابھارا۔
گویا ہر وہ کام جس کے نتائج و ثمرات پائیدار ہیں۔
اور اس کے بعد قائم رہیں گے۔
ان کی موجودگی تک اس کو ثواب ملتا رہے گا۔ آمین یا رب العالمین۔
0 Comments