جرم و سزا کے درمیان کیا رشتہ ہونا چاہئیے اور کیا ہو رہا ہے؟
قانون اس کو عدل و انصاف کا مینار سمجھا جاتا تھا یہ آج محض ایک لفظی شے بن کر رہ گیا ہے؟ انصاف کے مقدس ایوان مفادات کی جنگ کے میدان بن چکے ہیں ۔ جہاں کمزورں مظلوموں کا استحصال کیا جارہا ہے اور پسماندہ عوام افراد کو نظرانداز کیا جارہا یے۔ ہمارے انصاف کا زوال محض بیرونی عوامل کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ہماری اپنی اندرونی کوتاہیوں کا عکاسی کر رہا ہے
کے ہماری خوشنودی پسند عادت و طبیعت اور ہماری لالچی طبیعت نے ہماری اعلیٰ ترین اخلاقی معیارات کو برباد کر چھوڑا ہے۔ عدل و انصاف کو برقرار رکھنے میں ہم ناکام ہوچُکے ہیں۔ ہمیں اصولوں سے زیادہ منافع کی فکر ہوگئی ہے۔ انصاف کے بجائے ہار اور جیت پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔
قانون کا بنیادی اور اہم ترین مقصد عدل و انصاف کو احسان کے ساتھ بروئے کارلانا تھا اور انسانیت کو انسانوں کی ظلم و جبر سے بچانا تھا مگر آج عدل و انصاف کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟
قانون کا مقصد درندوں کی درندگی سے نجات دلانا اور غاصبوں کی غصب سے نجات دلانا ہوتا تھا، لیکن اگر خود قانون قانون شکنی کرنے لگے تو یہ بیچاری قانون خود قانون کس کے پاس جائے انصاف مانگنے کے لیے؟
سنا اور پڑھا تھا کہ عدل و انصاف کے ساتھ قانون کا نفاذ جرائم کے خاتمے کے لیے ہوتا ہے؟ قانون کا کام تھا کہ ملک اور عوام کی سلامتی کی فکر کرے مگر ہماری سوچ کے برعکس عدل و انصاف سے عاری یہ قانون ملک و معاشرے کی تباہی ثابت ہو رہی ہے؟
عدل و انصاف اپنے وسیع تر سیاق و سباق میں حقیقی اور فلسفیانہ معاملے کے انجام پانے کا نام تھا جسے معاشرتی قانون میں عدل و انصاف کہا جاتا تھا۔ انصاف کا تصور دھندلا سا ہوگیا ہے اس کو متعدد زاویوں پر دیکھا جسکتا ہے؟
لیکن اگر خود قانون بے رحم بن جائے سفاک درندگی کی آماجگاہ بن جائے، ظالم و بربریت کی پناہ گاہ شیلٹر بن جائے اور قانون ساز اداروں پر ظلم پیشہ ، مفاد پرست تاجروں کا تسلط قائم ہوجائے اور یہ مفاد پرست ٹولا اپنی زاتی مفاد زات کی بقاء اپنی زاتی خواہشوں کے مطابق اندھیر نگری جیسا قانون سازی کرنے لگیں تو ظاہر ہے کہ قانون، عدل و انصاف کی حفاظت کے بجائے ظلم و زیادتی کا پاسبان بن کر رہ جائے گا۔ اس خطرے سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ’’عدل‘‘ کا مفہوم متعین کیا جائے اور اس عدل کو ظلم و ستم سے ممتاز کیا جائے۔ عدل کسے کہتے ہیں اور ظلم کسے کہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کے بغیر قانون کا سارا دفتر لغویت اور کاغز کا پلندہ بن کر رہ جاتا ہے اور ہمیں یہ سن کر حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کے اعلیٰ ترین مفکر اور ماہرینِ قانون ’’عدل‘‘ کا ایسا مفہوم متعین کرنے سے عاجز و قاصر ہیں۔ جو تمام انسانیت کے لئے یکساں طور پر قابل قبول ہوں۔
اسلام کے بنائے ہوئے میزان انصاف کے مطابق جرم وسزا کا موازنہ جرم و سزا کے درمیان کیا رشتہ ہے اسلامی قانون بقابلہ دنیاویں قانون۔
جو شخص یہ نہیں جان سکتا کہ “عدل و جسٹس” کیا ہے؟ آخر کس قانون کے تحت انہیں قانون سازی کا حق حاصل ہے؟ ایک حق باری تعالیٰ ہی کی ذات ایسی ہے جسکو کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم ہے اور اللّہ پاک کی رحمت ساری انسانیت بلکہ کائنات کے ہر مخلوق کے لیے عام ہے۔ انسانوں کے کسی خاص گروہ سے اللّہ پاک کا مفاد وابستہ نہیں ہے۔ اللّہ بر حق ہی انسانیت کے لئے “عدل و انصاف” کا ٹھیک ٹھیک مفہوم متعین کرسکتا ہے اور اِسی کا نازل کردہ قانون قانونِ عدل و انصاف کہلانے کا تنہا مستحق ہے۔ قانونِ الٰہی کے سوا دنیا کے خود کا تراشا ہوا قانون نہ عدل و انصاف کے تقاضوں ضرورتوں کو سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی پورا کر سکتا ہے۔ نہ ہی انسانیت کو ظلم وستم کے آہنی پنجے سے نجات دلا سکتا ہے۔ حق تعالیٰ کا ارشاد مُبارکہ ہے:۔
سورة الحديد – آیت 25- بمع اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:۔
ترجمہ عبدالسلام بھٹوی – عبدالسلام بن محمد ۔
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ
بلا شبہ یقیناً ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور ترازو کو نازل کیا، تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں، اور ہم نے لوہا اتارا جس میں سخت لڑائی ( کا سامان) ہے اور لوگوں کے لیے بہت سے فائدے ہیں اور تاکہ اللہ جان لے کہ کون دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ یقیناً اللہ بڑی قوت والا، سب پر غالب ہے۔
جرم اور سزا کے درمیان وہی رشتہ ہے جو مرض اور دوا کے درمیان ہے۔ وہی رشتہ ہے جو مریض اور حکیم کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک ماہر طبیب ہی مرض کی تشخیص اس کے اسباب و اغراض اور اس کے آثار و نتائج و انجام کو سمجھتا ہے۔ مریض کی عادات و نفسیات کا بغور حکمت آنہ جائزہ لیتا ہے۔ مشایدہ کرتا ہے۔ اپھر سوچ سمجھ کر اس کے لئے نسخہ تجویز کرتا ہے۔ طریقۂ استعمال بتاتا ہے۔ غذا وپرہیز کی بابت ہدایات دیتا ہے۔ انسانیت کے سب سے بڑے امراض و جرائم اور اُن کس علاج ؟
اسلامی قانونی نظام ایک مکمل نظام حیات طیبہ ہے۔
جرائم و کرائم انسانیت کے سب سے بڑے امراض ہیں اور قانون کے نفاض کے ذریعے ان جرمی امراض کا علاج کیا جاتا ہے۔ قانون کا سب سے مشکل ترین مرحلہ جرم اور سزا کے درمیان توازن کا قائم کرنا ہے اور ایسی ترازو دنیا کے کسی کارخانے میں تیار نہیں ہوئی ہے جس سے جرم کے آثار ونتائج کا وزن کرکے اس کے ہم وزن سزا تجویز کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی قانون کی تمام ترازو، آئین و دستیوں کے باوجود ترقی یافتہ مہذب ممالک میں گھناؤ نے اور سنگین جرائم کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے اور جب تک یہ دنیا اسلام کے بنائے ہوئے میزان کے مطابق جرم وسزا کا موازنہ نہیں کرتی، اُس وقت تک انسانیت پر جنگل کا قانون نافذ رہے گا اور انسانیت ظلم و بربریت کے پنجے میں سسکتی بلکتی رہے گی۔ یہی میزانِ اسلام ہمیں بتاتی ہے کہ “زنا” اپنے اندر تعفن اور گندگی کی کتنی مقدار رکھتا ہے اور اس کا علاج کیسے اور کتنے پتھروں یا کوڑوں سے ہونا چاہئے اور کسی کے مال پر ناجائز ہاتھ ڈالنا کتنا بڑا معاشرتی بیماری ہے اور اس کا علاج صرف “ہاتھ کاٹنے” سے ہوسکتا ہے۔ جو شخص قتل کا علاج اتنے سال کی قید بامشقت سے اور ڈکیتی کا علاج اتنے ماہ کی قید اور جرمانہ سے کرنا چاہتا ہے۔ وہ قانون ساز نہیں ہے بلکہ انسانیت کا قاتل ساز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مغربی ممالک کے جیل خانے جرائم کی تربیت گاہ بن کر رہ گئے ہیں۔ مجرم جب سزا کاٹ کر واپس آتا ہے تو وہ معمولی مجرم سے بڑا مجرم بن کر نکلتا ہے۔ بلکہ عادی مجرم بن کر جیل سے نکلتا ہے۔۔ الا ما شاء اﷲ اللہ۔
اسلام ایک رول ماڈل پیش کرتا ہے دنیاِ انسان کے لیے
اللّہ سبحان تعلیٰ کا مکمل قانون آخری قانون اپنی جامع اور کامل ترین صورت میں محمد رسول اﷲ پر نازل ہوا، اس نے انسانیت کے لئے عدل و انصاف، مودت ورحمت، ہمدردی وخیر خواہی اور سکون واطمینان کی وہ فضاء پیدا کی جس کی مثال چشم فلک نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ یہ ایک ایسا خود کار نظام ہے جس کی بدولت اول تو جرائم کی تعداد گھٹتے گھٹتے صفر کے نقطہ تک پہنچ جاتی ہے اور اگر کبھی بشریت کی بنا پر کوئی جرم کسی سے صادر ہو ہی جاتا ہے تو مجرم خود ہی رسول اللہ! کے پاس آکر سزا کا طالب بن جاتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ مجھے سزا دے کر پاک کردیجئے! وہ گناہ کی بوجھ سے ندامت سے نادم ہوکر بارگاہ رسالت کے عدالت میں حاضر ہوکر سزا مانگنے لگتا ہے۔ ، اور جب تک عدالتِ نبوت اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کردیتی، اس کے ایمان کی حرارت اور محاسبۂ آخرت کی فکر اُسے مسلسل بے چین کئے رکھتی۔ نہ کسی کو کسی سے شکایت نہ کوئی طبقاتی مسئلہ نہ کوئی اقتصادی الجھن، نہ کوئی سیاسی مصلحت۔
اسلامی قانون بقابلہ دنیاوی قانون
اسلام اعلیٰ اخلاقی عقائد، عبادات، معاملات، تعزیرات و حد کے تفصیلی قوانین کا مجموعہ ہے۔ اسلام اگر زنا، چوری، ڈکیتی، قتل، شراب نوشی جیسی گھناؤنی حرکات کو جرائم قرار دیتا ہے تو ان کے انسداد کے لئے ایک مفصل تعزیراتی نظام بھی دیتا ہے۔ دیوانی قانون نظام بھی رکھتا ہے۔ اگر اسلام اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری لیتا ہے تو اس کے لئے ایک کامل نظامِ ہدایت بھی فراہم کرتا ہے۔ زندگی کا ہر ہر گوشہ اسلام نے تفصیلی قوانین وضع کئے ہیں۔ نمبر 1- اسلامی مملکت وہی ہوسکتی ہے جہاں اسلام کی ہمہ گیر فرمانروائی ہو جہاں اسلامی نظام ہو۔ اسلام کے وہ تمام احکام وقوانین جاری ہوں جن کی تفصیلات کتاب وسنت اور سلف کے اقوال اور ان کے دور میں موجود ہوں اور جن پر حضرت محمد کے عہد سے لے کر خلافت راشدہ کے آخری دور تک عمل ہوتا رہا ہو۔ اسلامی قانونی نظام کو نافذ کرنے کی ذمہ داری حکومت وقت اور اُپوزیشن پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت قوم کے تمام طبقات کے لئے اطمینان بخش اسلامی پالیسی اختیار کرے تاکہ ان سے اور ہم سے اللّہ اور رسول راضی ہوجائیں اور حکومت وقت کو ایسے اقدامات بھی کرنے چاہئیں جس سے اسلامی قانونی نظام کے قیام کے امکانات روشن ہوں اور حکومت۔ نمبر 2- دوسری ذمہ داری ہر مسلک ہر طبقۂ علماء پر عائد ہوتی ہے کہ تمام اختلافات کو ختم کرکے بالائے طاق رکھ کر کامل یکسوئی کے ساتھ جانفشانی کے ساتھ قوم کا ذہن اسلام کے سایۂ رحمت کے لئے تیار کریں۔ نمبر 3– تیسری ذمہ داری قوم کے قائدین اور سیاست دانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ فروعی اور علاقائی جھگڑوں کو چھوڑ کر صرف اسلامی نظام کے قیام کے لئے کام کریں۔ سب سے آخری اور 4- چوتھی عظیم ذمہ داری مسلم عوام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ صرف اسلام کے لئے اپنا حق رائے دہی ووٹ استعمال کریں۔
اے اللہ! ہماری حالتِ زار پر رحم فرما اور ہمیں ایسے نیک اعمال کی توفیق عطاء فرما جس سے تو راضی ہو اور ہمیں ایسی حرکات سے بچا جو دنیا و آخرت میں تیرے غضب کا سبب بنیں۔ وصلی اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہٖ صفوۃ البریۃ محمد وآلہٖ وصحبہٖ أجمعین۔
0 Comments