غیبت, گناہ بے لزت ہےغیبت کرنے والا، چغلی کھانے والا
Harmful Effects of Backbiting
عیب جوئی، غیبت، چوغلی، چوغل خوری، اِدھر کی بات اُدھر کرنا اور اُدھر کی بات اِدھر کرنا یہ چوغل خوروں کا کام ہے۔ غیبت، چوغل خوری سے لوگوں کے درمیان فساد پھیلتا ہے۔ بعض لوگ دوستوں اور رشتہ داروں میں جھگڑا کروانے کے لیے فساد کروانے کے لئے ایک دوسرے کی غیبت کرتے ہیں ایک دوسرے کی باتیں ایک دوسرے تک پہنچاتے ہیں۔ لوگوں کو ایذا پہنچاتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے عیبوں کو بھول کر دوسروں کے عیبوں کو یاد رکھتے ہیں۔
اعمال حُسنہ کا اعمال نامہ سے کم ہونا:– قیامت کے دن کچھ لوگ ایسے ہونگے جن کے نامہ اعمال میں نیکیاں ہوں گی وہ اللّہ تعالیٰ سے عرض کریں گے یا الٰہی ہم نے تو دنیا میں نیکیاں نہیں کی تھی پھر ہمارے حساب میں نکیاں کیسے آگئی تو رب باری تعلیٰ فرمائیں گے۔ جن لوگوں نے تمہاری غیبت کی تھی ان کی نیکیاں اُن کے نامہ اعمال سے مٹا کر نکال کر تمہارے نامہ اعمال میں لکھ دی ہیں۔
غیبت اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانا۔
غیبت یہ ہے کہ کسی کی بُرائی کو کسی کے بُرے اوصاف کو کسی کے بُرے کام کو اس کی عدم موجودگی میں اس کی غیر موجود گی میں اِس طرح سے بیان کر رہے ہوں کہ اگر وہ آپ کی اِس بات کو سن لے تو وہ بُرا مانے گا، وہ آپ کی چوغل خوری کو پسند نہ کرے۔ اور اگر یہ عیب اس میں موجود نہیں تو یہ تہمت ہو گا الزام تراشی ہے بہتان ہے۔ غیبت اس قدر ڈیپلی جرم ہے کہ اللّہ تعالیٰ نے غیبت کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مثل قرار دیا ہے۔
کیا غیر مسلم کی غیبت کرنا گناہ ہے؟ کیا کسی کی اپنے سے متعلق بات بھی کسی پر بتلانا چغلی یا غیبت ہے؟
غیبت اور بہتان تراشی مسلمانوں کے ساتھ ہو یا غیر مسلم کے ساتھ یا کسی انسان کے ساتھ ہو یہ سماجی برائی ہے، اور بُرائی بُرائی ہوتی ہے۔ غیبت اور بہتان سے معاشرتی خرابی پیدا ہو تی ہے معاشرے کا امن ختم ہو جاتا ہے۔ غیبت وہ بیماری ہے جس سے معاشرے میں فساد پھیلتا ہے، گھر اور باہر کا ماحول خراب ہو جاتا ہے سماج میں بد امنی پھلتی ہے۔ غیبت سماجی کرائم و جرائم ہے ہر حالت میں غیبت اور چوغل خوری سے پرہیز کیجئیے۔
کسی کی بات فساد پھیلانے کے لیے، کسی دو کے درمیان جھگڑا پیدا کرنے کی غرض سے ایک دوسرے سے غیبت کرنا، ایک دوسرے کو تکلیف دہ ناپسندیدہ بات خراب بات پہنچانا، اِسے عربی زبان میں نمیمہ کہتے ہیں اور چغلی کرنے والے کو نمام کہتے ہیں، یہ گناہ کبیرہ ہے۔ حدیث میں ہے:- لا یدخل الجنة تمّام چغلخور جنت میں نہیں جایں گے اور غیبت کے معنیی سے مُراد پیٹھ پیچھے کسی کی عیب بیان کرنا کسی کی غیر موجود گی میں کسی کی برائی کرنا۔ یہکہ اگر وہ شخص اپنی غیبت سن لے اور اس کو یہ بات بری لگے تو یہ بھی گناہ کبیرہ ہے۔ قرآن میں سختی کے ساتھ غیبت کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور غیبت کو مردار بھائی کے گوشت کھانے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ کسی کی اپنے سے متعلق کوئی بات یا کوئی شخص اپنی ذات سے متعلق اپنوں کو دوسرے کی بات بتاتا ہے۔ اپنی غیبت اگر وہ شخص سنےگا تو اُس کو بُرا لگے تو یہ بھی غیبت ہے. ہر غیبت بُرائی ہے۔ ہاں اگر کسی کی ایسی بات ہو جس سے اُس کی طرف سے کسی کو نقصان پہنچانے کا اندیشہ ہو خطرہ محسوس ہو رہا ہو تو وہ حفاظت کے لیے کسی سے اُس کی بات کہہ سکتا ہے کسی کو بتا سکتا ہے
مرنے سے پہلے اس گناہ کی معافی مانگ لیں۔
اسی زندگی میں حقوق العباد کی ادائیگی کر لیں۔ مرنے سے پہلے ہر حقدار کو اُس کا حق ادا کردیں۔ اگر ہم سے حق کی ادائیگی ممکن نہ ہو یا حق ادا نہیں کرسکتے ہیں یا حق کی ادائیگی کی صلاحیت نہیں رکھتے تو اپنی زندگی میں صاحب حق سے معافی مانگ لیں۔ صاحب حق سے التجا کرکے حق کو معاف کروانے کی کوشش کر لیں تاکہ دنیا اور آخرت کی رسوائی اور پریشانی سے بچ جائیں۔ آمین ۔
غیبت بڑے گناہوں میں سے ایک گناہ ہے
گناہ کبیرہ ہے یہ جُرم ہے: غیبت ، چغل خوری اور حسد ہے۔ اگر ہم کسی سے حسد کرتے ہوں یا کسی سے جھوٹ ہولتے ہوں یا کسی سے کسی کی چغلی کھارہے ہوں یا کسی پر جھوٹا سچا بُہتان لگا رہے ہوں یا کسی پر الزام تراشی کر رہے ہوں یا کسی پر کوئی الزام لگا رہے ہوں یا کسی کا مزاق اُڑا رہے ہوں یا کسی پر ظلم و بربریت کر رہے ہوں یا کسی سے نا انصافی کر رہے ہوں یا کسی کا مال ہڑپ کر رہے ہوں یا حرام کھا رہے ہوں یا اپنے ماں باپ بھائی بہن بال بچوں کو حرام کھلا رہے ہوں۔ دھوکا دہی، فریب، چالاکی، عیاری مکاری، چال بازی۔ کسی کو دھوکا دینے کی نیت سے دوستی کر رہے ہوں۔ کسی سے مکر و فریب کر رہے ہوں۔ کسی سے عیاری مکاری کر رہے ہوں۔ کسی کی امانت میں خیابت کر رہے ہوں۔
حضرت حسن بصری جب یہ سنتے کہ فلاں شخص نے ان کی بُرائی، غیبت کی ہے تو حسن نصری اس کے پاس کچھ ہدیہ بھیج دیتے اور فرماتے کہ تو نے میری غیبت کی ہے، تو نے اس غیبت کے ذریعے سے اپنے نیک اعمال مجھے دے دیے ہیں، اس لیے ٗمیں یہ ہدیہ تجھے دیتا ہوں۔ قیامت کے دن بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اپنے نامہ اعمال میں نیکیاں نہیں پائیں گے؟ وہ لوگ عرض کریں گے کہ یہ کیا ہوا میری نیکیاں کہاں گئی؟ تو ارشاد تعلیٰ ہوگا: تم نے دنیا میں لوگوں کی غیبتیں کیں اس واسطے وہ نیکیاں تمہاری کتاب سے مٹا کر جس جس کی تم نے غیبت کی تھی ان کے نامہ اعمال میں درج کر دی گئی ہیں۔ واللّہ عالم۔
غیبت کسے کہتے ہیں؟
غیبت کہتے ہیں آدمی کا کسی بھائی کے پیٹھـ پیچھے تذکرہ ایسے الفاظ میں کرنا جن کو وہ ناپسند کرتا ہو، خواہ یہ برائی کا تذکرہ اس کے بدن سے متعلق ہو یا نسب سے متعلق ہو یا اس کے اوصاف و صیفات سے متعلق ہو یا قول و فعل سےمتعلق ہو یا دین و دنیاوی سے متعلق ہو ۔ چنانچہ حضرت أبو ہریرہ رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: ﷲﷻ اور اس کے رسولﷺ بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: تمہارا اپنے بھائی کا تذکرہ کرنا ایسی بات سے جو اسے ناپسند ہے، ایک صحابی نے عرض کیا: اگر میرے بھائی میں وہ بات ہو جو میں کہوں تب بھی یہ غیبت ہے؟ آپ نے فرمایا: اگر اُس میں وہ بات ہے جو تم کہہ رہے ہو تو یقینا تم نے اس کی غیبت کی، اور اگر اس میں وہ بات نہیں ہے جو تم کہہ رہے ہو تو یقینا تم نے اس پر بہتان لگایا اسے روايت كيا ہے امام مسلم نے۔ صحیح مسلم میں۔ واللّہ عالم۔۔۔
غیببت تو غینت ہے، غیبت کسی بھی صورت قابل رشق نہیں
عیب جوئی غیبت ہرحال میں حرام ہے: خواہ کسی بھی سبب سے غیبت ہو، چاہے غصے کے ازالہ کے لئے غیبت کیا جارہا ہو یا دوستوں کا دل جیتنے کے لئے، یا گفتگو میں ان کی مدد کے لئے ہو، یا کلام میں تصنع پیدا کرنے کے لئے ہو، یا حسد کی وجہ سے ہو، یا کھیل کود اور ہنسی مذاق کے طور پر ہو، یا وقت گزاری کے لئے غیبت کی جا رہی ہو، چنانچہ دوسرے کے عیوب کا ذکر اس طرح کیا جائے کہ دوسرے لوگ ہنسیں، یہ سب غیبت ہے، اللّہ رب العالمین نے اس سے اپنے بندوں کو روکا، اور متنبہ کیا ہے: ﺍﮮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮ ! ﺑﮩﺖ ﺑﺪﮔﻤﺎﻧﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﭽﻮ ﯾﻘﯿﻦ ﻣﺎﻧﻮ ﻛﮧ ﺑﻌﺾ ﺑﺪﮔﻤﺎﻧﯿﺎﮞ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯿﺪ ﻧﮧ ﭨﭩﻮﻻ ﻛﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﻛﺴﯽ ﻛﯽ ﻏﯿﺒﺖ ﻛﺮﮮ۔ ﻛﯿﺎ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯﻣﺮﺩﮦ ﺑﮭﺎﺋﯽ کا ﮔﻮﺷﺖ ﻛﮭﺎﻧﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ؟ ﺗﻢ ﻛﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮔﮭﻦ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ، ﺍﻭﺭ ﺍللّہ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﺭﮨﻮ، ﺑﯿﺸﻚ ﺍللّہ ﺗﻮﺑﮧ ﻗﺒﻮﻝ ﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﮯ۔
غیبت کی حرمت ومذمت:۔
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے: حضرت محمد رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر مسلمان کا خون، مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے اس حدیث کو امام مسلم نے روايت كيا ہے۔ اور آپ صلى الله عليه وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبے میں فرمایا: بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تمہارے اوپر حرام ہیں بالكل تمہارے آج کے دِن کی طرح، تمہارے اِس مہينے میں، اور تمہارے اِس شہر میں (حرام ہیں )، کیا میں نے ( اللہ کا ) پیغام پہنچا دِیا۔ اس حدیث کو امام بخاری اورمسلم نے روایت کیا ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سود کی سب سے بری قسم آدمی کا اپنے بھائی کی عزت پر ہاتهـ ڈالنا ہے اسے بزار اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔
چغل خوری کی حرمت
چغل خوری:- 1-چغل خوری برائی کی نیت 2- کسی سے محبت کے اظہار کے لیے 3- بے مقصد لاحاصل گفتگو، فضول باتیں بکواس باتوں میں مشغول ہو کر لطف اندوز ہونا، یہ طریقے اسلام میں حرام ہیں، چنانچہ اگر کسی شخص سے کوئی کسی قسم کی چغلی کرتا ہے تو سُنّے والے کو چاہیے کہ اس چغل خور کی بات نہ سنے، کیونکہ چغل خور فاسق اور گواہی میں غیر معتبر ہوتا ہے، ارشاد باری تعالی ہے: ﺍﮮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮ ! ﺍﮔﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻛﻮﺋﯽ ﻓﺎﺳﻖ ﺧﺒﺮ ﺩﮮ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺍﺱ ﻛﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻛﺮ ﻟﯿﺎ ﻛﺮﻭ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﮨﻮ ﻛﮧ ﻧﺎﺩﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻛﺴﯽ ﻗﻮﻡ ﻛﻮ ﺍﯾﺬﺍ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﻭ اور اس آدمی کے لئے ضروری ہے کہ اسے چغلی سے روکے، اسے نصیحت کرے، اور اس کے اس فعل کی مذمت کرے، کیونکہ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے: تو ﺍﭼﮭﮯ کاﻣﻮﮞ ﻛﯽ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻛﺮﺗﮯ ﺭﮨﻨﺎ، ﺑﺮﮮ کاﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﻛﯿﺎ ﻛﺮﻧﺎ اور اللہ تعالی کی خاطر اس چغل خور سے بغض رکھے، اور اس سلسلے میں برا خیال نہ کرے بلکہ اچھا ہی گمان رکھے، کیونکہ اللّہ تعالی فرماتا ہے: ﺍﮮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮ ! ﺑﮩﺖ ﺑﺪﮔﻤﺎﻧﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﭽﻮ ﯾﻘﯿﻦ ﻣﺎﻧﻮ ﻛﮧ ﺑﻌﺾ ﺑﺪﮔﻤﺎﻧﯿﺎﮞ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﯿﮟ۔ اور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے متفقہ الیہ ۔
اور اس پرلازم ہے کہ اس سلسلے میں تجسس سے کام نہ لے، اور اپنے لئے اس عمل کو پسند نہ کرے جس سے چغل خور کو منع کیا گیا ہے کہ خود تک پہنچی ہوئی چغل خوری کو دوسرے سے بیان کرے۔
چغلی کی حرمت پر بہت سے دلائل کتاب وسنت میں موجود ہیں، جن میں سے ایک دلیل اللّہ رب العالمین کا یہ فرمان ہے: ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﻛﺴﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﺷﺨﺺ کا ﺑﮭﯽ ﻛﮩﺎ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﻨﺎ ﺟﻮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻗﺴﻤﯿﮟ ﻛﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﮯ ﻛﻤﯿﻨﮧ، ﻋﯿﺐ ﮔﻮ، ﭼﻐﻞ ﺧﻮﺭ۔ اور الله تعالى كا یہ فرمان ہے: ﺑﮍﯼ ﺧﺮﺍﺑﯽ ﮨﮯﮨﺮ ﺍﯾﺴﮯ ﺷﺨﺺ ﻛﯽ ﺟﻮ ﻋﯿﺐ ﭨﭩﻮﻟﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻏﯿﺒﺖ ﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور جس کےہاتھـ سے مسلمان لوگ محفوظ رہیں، اور مہاجر وہ شخص ہے جو ﷲﷻ کی ممنوعہ چیزوں کو چھوڑ دےیہ متفق علیہ حدیث ہے۔ مذکورہ احادیث اور ان کے ہم معنی دیگر احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہرحال میں ظلم وزیادتی وغیرہ سے بچنا ضروری ہے، خواہ ظلم نفس کے سلسلے میں ہو یا مال میں یا عزت میں؛ کیونکہ اس میں عظیم شر اور سنگین فساد ہے، اور اس کے برے نتائج برآمد ہوتے ہیں، چنانچہ ظالم کوچاہیے کہ اپنے سابقہ ظلم سے توبہ کرے، اور تمام گناہوں کوچھوڑدے۔
ﷲﷻ ہمیں اورآپ کو اچھےمین۔ اخلاق اور نیک اعمل کی توفیق عطا فرمائیے آ
0 Comments