کچھ ہی دنوں میں ایک معمولی سے وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور بڑے بڑے ممالک اس وقت بے بس نظر آتے ہی
کیا انسان اتنا کمزور ہے؟
کہاں گئی اس کی مرضی ؟
کہاں گیا اس کا غرور
کہاں گیا اتنا پیسہ؟
کیا فائدہ ٹیکنالوجی کی ترقی کا؟
کہ آپ ایک معمولی سے وائرس کو شکست نہیں سے پائے اور پوری دنیا کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔ یہ صرف ایک ملک کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ کئی ممالک اس سے براہ راست یا بلا واسطہ متاثر ہوئے ہیں۔ بڑی بڑی طاقتوں کی معیشت، درآمدات، برآمدات جام ہو کر رہ گئی ہیں۔ یقین مانیں کبھی انسان کو اس سے زیادہ بے بس نہیں دیکھا۔
لوگ اس پر بہت تبصرہ کر رہے ہیں، سچ کیا ہے اور اس کے پیچھے کیا راز ہے یہ تو اللہ کو ہی معلوم ہے لیکن جس کی بات کو بھی سنیں تو اس میں تھوڑی بہت صداقت نظر آتی ہے۔
سنا ہے، اللہ جب ناراض ہو تو سجدے کی توفیق چھین لیتا ہے۔ اس وقت امت مسلمہ پر خانہ کعبہ کے دروازے بند ہیں جبکہ مساجد میں نہ آنے اور جمعہ کے اجتماعات پر پابندی کی باتیں چل رہی ہیں،
کبھی لگتا ہے کہ یہ پچھلے آٹھ ماہ سے کشمیر میں کرفیو میں ظلم سہتے مسلمانوں کی آہ ہے کہ جن کی قید و بند کی صعوبیتں کسی کو نظر نہ آئیں اورآج جبکہ ساری دنیا محصور ہوکررہ گئی ہے تواندازہ ہوا کہ لاک ڈائون کی اذیت کیا ہوتی ہے؟
دنیا بھر کی طرح اسلامی ممالک خاص طور پر سعودی عرب کی سرزمین پر جوئے خانے بنے، ناچ گانا،بے حیائی عام ہوگئی۔
دنیا بھر میں مسلمان ظلم کا شکار ہیں، مگر مسلم امہ کی لگاتار بے حسی
بھارت میں مسجدوں کو شہید کیا گیا اورمسلمان دنیا بھر میں مندروں کی تعمیرنو کرتے رہے یا ہولی مناتے رہے!
تو کیا ان باتوں پر رب کا قہر نازل نہیں ہونا چاہیے؟
اللہ نے قرآن میں واضح بتا دیا( سورہ بقرہ)
اورہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے ضرور آز مائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے مہربانیاں ہیں اور رحمت اور یہی ہدایت پانے والے ہیں۔اور خدا ایک بستی کی مثال بیان فرماتا ہے کہ (ہر طرح) امن چین سے بستی تھی ہر طرف سے رزق بافراغت چلا آتا تھا۔ مگر ان لوگوں نے خدا کی نعمتوں کی ناشکری کی تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب ان کو بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر (ناشکری کا) مزہ چکھا دیا
کرونا سے ایک سبق یہ بھی ملا کہ نقاب کا مذاق اڑانے والے، چہروں سے نقاب اتارنے والے آج منہ چھپائے پھرتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے خالق اللہ کے آگے بے بس ہیں
ایک وائرس نے ان کا نظام زندگی برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک مسلمان کے طور پر ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ہم ایک نوالہ حلق سے گزارنے کے لیے بھی اللہ کے محتاج ہیں تو غرور کس بات کاد
میرا جسم میری مرضی والوں کو بھی اچھا جواب مل گیا، پوچھیں ذرا جوآج اس اذیت میں ہیں کہ کس کا جسم اور کس کی مرضی ؟
دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کرونا وائرس درحقیقت امریکہ کی ایک سازش ہے جس کا مقصد چائنہ کی معیشت کو تباہ کرنا ہے۔
چین نے تو باقاعدہ امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ یہ وائرس دراصل امریکہ کا بائیولوجیکل ہتھیار ہے جو امریکہ نے چین کی تباہی کے لیے استعمال کیا۔
حقیقت جو بھی ہو بہرحال اس وقت دنیا میں کرونا کی وجہ سے تھرتھلی مچی ہوئی ہے۔ ساری دنیا کے لوگ منہ پر ماسک چڑھائے، ہاتھوں پر سینا ٹئزرز ملے کانپتے پھر رہے ہیں۔۔۔ چاہے چین ہو، اٹلی ہو، فرانس ہو، امریکہ ہو یا برطانیہ، پوری دنیا خوف سے زرد ہوگئی ہے۔
یہ وہی دنیا ہے نا، جو عراق، برما، فلسطین، بھارت، افغانستان اور کشمیر میں مسلمانوں پر کیے جانے والے مظالم پرخاموش تماشائی بنی رہی۔ چند ہی دنوں میں چین اقتصادی ترقی کی علامت کی بجائے خوف کی علامت بن گیا اور پھر اس پر قابو پاکر دوسروں کو امداد دینے کے قابل بھی ہوگیا مگر ہم آج اس مشکل میں بھی عالمی طاقتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے تو یہ وائرس خود اپنے شہروں میں پھیلا دیا سرحدوں کی بروقت حفاظت نہ کرکے!
بحیثیت مسلمان ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو اللہ کا عذاب سمجھ کر توبہ کی طرف رجوع کریں اور اپنے اعمال کو سدھار لیں لیکن من حیث القوم ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اس خوفناک ماحول میں بھی اسلام آباد میں پی این سی سی کی تقریب میں رقص و سرود کی محفل بھی منعقد کی گئی، نوخیز کلیوں کو مسلنے کا گھنائونا سلسلہ بھی جاری ہے۔
جبکہ منافع خوروں کی جانب سے ماسک اور سینی ٹائزر سمیت اہم ضرورت کی اشیا کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کردیا گیا ہے۔لیبارٹریاں کرونا کے ٹسٹ کے نام پر سات سے آٹھ ہزار روپے لے رہی ہیں۔
دوسرے ملکوں میں کورونا وائرس کی وجہ سے حکومت لوگوں کو کبھی بلوں میں رعایت دے رہی ہے اور کبھی اشیائے خوردونوش میں کمی کی جارہی ہے لیکن یہاں تو ایک مشیر نے دوکروڑ ماسک اسمگل کرکے اپنی حیوانیت کا ثبوت دیا۔ ہمارے لاکھوں غریب دیہاڑی دار مزدور اگر کرونا سے بچ نکلے تو غربت سے مارے جائیں گے!
صورت حال یہ ہے کہ
ایئر پورٹ،ہوٹل، جوئے خانے،شادی ہال،سینما گھر، دوکانیں سب ویران ہوگئی ہیں۔
تعلیمی ادارے بند،محفلیں ختم،لوگ نوٹوں سے بھی ڈرنے لگے ہیں۔
ٹیکنالوجی کا ڈان کہلانے والا مہذب انسان آج ہر دوسرے انسان سے خوفزدہ ہے
آج کافر اورمسلمان سب ایک جیسے خوف میں مبتلا ہیں اور اس عذاب سے چھٹکاراپانے کے لیے اللہ کی مدد کے منتظر ہیں۔
خطیب مسجد الحرام مکۃ المکرمۃ کے خطبہ جمعہ سے ایک اقتباس ملاحظہ کریں۔:
قیمتیں بہت بلند ہیں
اور عورتیں بے پردہ ہیں
اور مسجدیں خالی ہیں
اور اللہ تعالی کے احکامات کی بغاوت ہو رہی ہے
چوروں کے پاس دلائل ہیں
اور مجاہدں کو ہتھکڑیا ں لگا کر پابند سلاسل کر دیا گیا ہے
اور زنا کو حلال قرار دے دیا گیا
اور نکاح کو مشکل بنا دیا گیا
اور عورتیں مردوں پر حکمرانی کرتی ہیں
اور مسلمانوں کی زمین دشمنوں کے قبضہ میں ہے
اور فقراء اور مساکین کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں
اور قیامت کی بڑی بڑی تمام نشانیاں پوری ہوچکی ہیں
سوائے چند ایک کے
پس توبہ کو لازم پکڑو توبہ کو لازم پکڑو
تو آئیے مل کر توبہ کا اہتمام کریں۔
0 Comments