انسان انسان کا محتاج ہے۔ انسان سماجی مخلوق ہے۔ انسان سماجی حیوان ہے۔ انسان اشرف المخلوقات میں سے ہے۔

انسان کی زندگی میں دوسرے انسانوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے، کیونکہ ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ انسان اپنی ضروریات پوری کرنے اور زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے دوسرے لوگوں کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو “سماجی مخلوق” کہا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کی مدد، معاشرتی تعلقات، محبت، دوستی اور اعتماد، یہ سب انسانی فطرت کا حصہ ہیں جو ہمیں متحد رکھتے ہیں اور زندگی کو بہتر بناتے ہیں۔

زندگی کی حقیقت کو سمجھیں، مثبت سوچ سوچیں، خدمت خلق میں حصہ لیں، دعا اور عبادت اخلاص کے ساتھ، دوسروں کی عزت کریں، عاجزی اور انکساری اختیاراور خود احتسابی

انسانی فطرتی تسکین انسانوں میں رہنے سے ملتی ہے۔

انسان کی فطرت میں سماجی تعلقات بنانا، مل جل کر کام کرنا اور ایک دوسرے کے ساتھ اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کرنا شامل ہے۔ انسان اکیلا رہ کر نہ تو اپنی زندگی بہتر بنا سکتا ہے اور نہ ہی ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے۔ زندگی کے ہر پہلو میں، چاہے وہ تعلیم ہو، روزگار ہو، یا سماجی زندگی ہو، انسان کو دوسروں کے تعاون اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

خاندان، دوست، اور معاشرہ انسان کی شخصیت اور اس کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انسان جب دوسروں کے ساتھ میل جول اور محبت کے ساتھ زندگی گزارتا ہے تو اس کے جذباتی، ذہنی اور جسمانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک اچھی اور پرسکون زندگی گزارنے کے لیے ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونا اور ایک دوسرے کی مدد کرنا سیکھنا چاہیے۔

انسانی تعلقات کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ یہ ہمیں ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشیوں میں شریک ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ یہ تعلقات نہ صرف ہماری زندگی کو خوشیوں سے بھر دیتے ہیں بلکہ ہمیں زندگی کے مشکل مراحل سے گزرتے ہوئے حوصلہ اور تسلی بھی فراہم کرتے ہیں۔

انسان پیدا ہوتا ہے تو ماں باپ کا محتاج اور جب مرتا ہے تب بھی زندہ انسانوں کا محتال؟

بے شک! انسان کی زندگی کا یہ سچ ہے کہ وہ ابتدا سے انتہا تک دوسروں کا محتاج رہتا ہے۔ جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے زندگی کے ابتدائی مراحل میں ماں باپ اور خاندان کی مکمل دیکھ بھال اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ والدین اپنی محبت، توجہ اور حفاظت سے اس کی پرورش کرتے ہیں، اسے زندگی کے اصول سکھاتے ہیں، اور اسے جینے کا شعور دیتے ہیں۔ ان کے بغیر، انسان بچپن میں بے یار و مددگار رہ جائے۔

اسی طرح، زندگی کے آخری مراحل میں بھی انسان اپنے پیاروں، دوستوں، اور معاشرتی تعلقات پر انحصار کرتا ہے۔ بڑھاپے یا بیماری کے وقت دوسروں کا سہارا انسان کو عزت و احترام کے ساتھ زندگی گزارنے میں مدد دیتا ہے۔ حتیٰ کہ جب انسان اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے، تب بھی دوسرے انسان ہی اس کے کفن دفن کا اہتمام کرتے ہیں۔ لوگ اسے یاد کرتے ہیں، اس کی زندگی اور کارناموں کا ذکر کرتے ہیں، اور اس کے حق میں دعا کرتے ہیں۔

انسان کی یہ محتاجی اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ہماری زندگی میں دوسروں کا وجود کتنا قیمتی ہے اور ہمیں اپنی زندگی میں ان کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہیے۔ زندگی کا یہ سفر انفرادی نہیں بلکہ باہمی تعاون اور محبت کا سفر ہے۔

پھر بھی یہ انسان تکبر کرتا ہے؟

یہ حقیقت ہے کہ انسان کی محتاجی اور کمزوریوں کے باوجود، بعض اوقات اس کے اندر تکبر آ جاتا ہے۔ یہ تکبر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان اپنی طاقت، علم، دولت، یا کامیابیوں کو اپنی محنت کا نتیجہ سمجھ کر بھول جاتا ہے کہ وہ ان سب میں دوسروں کے تعاون اور اللہ کی نعمتوں کا محتاج ہے۔ انسان کی فطرت میں عاجزی، شکرگزاری اور انکساری ہونی چاہیے، کیونکہ یہ دنیا عارضی ہے اور کسی بھی وقت سب کچھ بدل سکتا ہے۔

تکبر کے نقصانات۔

تکبر انسان کے دل کو سخت کر دیتا ہے اور اسے دوسروں کی ضروریات، جذبات اور احساسات سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ ایسے شخص کے تعلقات میں خرابی آتی ہے، وہ دوسروں سے دور ہو جاتا ہے اور ایک طرح سے خود کو تنہا کر لیتا ہے۔ اس کے برعکس، عاجزی اور انکساری انسان کو دوسروں کے دلوں میں جگہ دیتی ہیں اور اسے دوسروں کے لیے قابلِ محبت اور احترام بناتی ہیں۔

دین اسلام میں تکبر کا علاج:۔

قرآن اور احادیث میں تکبر کا نفسیاتی علاج موجود ہے: قرآن حکیم فرقان جمید اور سنت رسول للّہ، میں تکبر کی مذمت کی گئی ہے اور اسے اللّہ پاک کے نزدیک ناپسندیدہ سوچ و عمل قرار دیا گیا ہے۔ تکبر انسان کو انسان سے دور اور انسان کو انسانیت سے دور کر دیتا ہے، جبکہ عاجزی اور شکر گزاری انسان کو اللّہ پاک کے قریب اور انسان کو انسانیت سے قریب لے آتی ہے۔ انسان کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو کچھ بھی اس کے پاس ہے، وہ اللّہ کی عطا کردہ امانت ہے اور یہ مال و اسباب اور خوبصورتی اور پاور یہ سب کسی بھی وقت اس سے چھن سکتی ہے۔ لہٰذا، انسان کو چاہیے کہ وہ تکبر سے بچتے ہوئے عاجزی و انکساری اختیار کرے اور اپنے ہر عمل میں اللّہ کا شکر ادا کرے۔

انسان بہت نادان ہے بھر بھی تکبر کرتا ہے:۔

تکبر کا علاج انسان کی روحانی، اخلاقی، اور عملی تربیت کے ذریعے ممکن ہے۔ چند اہم طریقے حاضر

نمبر 1-خود احتسابی: ہر روز اپنے عمل اور نیت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ خود سے سوال کریں کہ کیا آپ نے کسی سے برتری محسوس کی؟ کیا آپ نے کسی کو کمتر سمجھا؟ اگر ایسا ہوا ہے تو اسے تسلیم کریں اور اپنی اصلاح کریں۔

نمبر 2- عاجزی اور انکساری اختیار کریں: عاجزی اور انکساری کو اپنی عادت بنائیں۔ یاد رکھیں کہ علم، طاقت، دولت، اور کامیابیاں اللہ کی عطا ہیں۔ ان پر فخر کرنے کے بجائے ان کا شکر ادا کریں اور ان کا صحیح استعمال کریں۔

نمبر 3- دوسروں کی عزت کریں: دوسروں کی رائے، خیالات، اور احساسات کا احترام کریں۔ سمجھیں کہ ہر انسان میں کچھ نہ کچھ خوبی موجود ہے اور ہم سب ایک دوسرے سے سیکھ سکتے ہیں۔

نمبر 4-دعا اور عبادت اخلاص کے ساتھ: اللّہ سے مدد طلب کریں اور دعا کریں کہ وہ آپ کو تکبر سے محفوظ رکھے۔ نماز، قرآن کی تلاوت، اور ذکر الٰہی سے دل کو سکون ملتا ہے اور عاجزی کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے۔

نمبر 5-خدمت خلق میں حصہ لیں: لوگوں کی مدد کریں، خاص طور پر ان لوگوں کی جو کمزور اور ضرورت مند ہیں۔ خدمت خلق انسان کے دل سے تکبر کو ختم کرنے میں مدد دیتی ہے اور انسان میں محبت اور شفقت کے جذبات پیدا کرتی ہے۔

نمبر 6- مثبت سوچ سوچیں: اپنی کامیابیوں کو دوسروں پر برتری کے لیے نہیں بلکہ اپنی اصلاح اور دوسروں کی مدد کے لیے استعمال کریں۔ اپنی کامیابیوں کو خدا کی رضا کے لیے استعمال کرنے کی نیت رکھیں۔

نمبر 7- زندگی کی حقیقت کو سمجھیں: اس بات کا شعور پیدا کریں کہ یہ دنیا عارضی ہے، اور جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے، وہ عارضی اور فانی ہے۔ اس سے دل میں انکساری اور دنیاوی چیزوں کے متعلق بے رغبتی پیدا ہوگی۔

نمبر 8- احادیث اور بزرگان دین کے اقوال سے رہنمائی: احادیث اور اسلامی تعلیمات ہمیں عاجزی اور تکبر سے بچنے کا درس دیتی ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے واقعات سے رہنمائی حاصل کریں۔

تکبر کا علاج ایک مسلسل عمل ہے۔ جب انسان خود کو بہتر کرنے کی نیت سے ان اصولوں پر عمل پیرا ہوتا ہے تو رفتہ رفتہ اس کے دل سے تکبر کا خاتمہ ہونے لگتا ہے اور عاجزی، انکساری اور سکون پیدا ہوتا ہے۔

سچ حقیقت بلکل صحیح ہے:۔ انسان کی زندگی میں دوسرے انسانوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے، کیونکہ ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ انسان اپنی ضروریات پوری کرنے اور زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے دوسرے لوگوں کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو “سماجی مخلوق” کہا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کی مدد، معاشرتی تعلقات، محبت، دوستی اور اعتماد، یہ سب انسانی فطرت کا حصہ ہیں جو ہمیں متحد رکھتے ہیں اور زندگی کو بہتر بناتے ہیں۔ یہی سچ ہے، حقیقت پر مبنی حق ہے اور بلکل صحیح سالم ہے۔

تحریر جاری ہے۔ ۔ ۔

مزید معلومات کے لئے یو ٹیو چینل پر ہماری ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں۔ ۔ ۔


0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *